دری لفظ در یعنی دربار یا درگاہ سے منسوب ہے۔ بقول آزاد جس فارسی کو دربار نے شستہ و رفتہ کرکے محاورہ کا سکہ لگایا ہو وہی دری زبان ہے۔ ملک الشعرا بہار کی تحقیقات کا حاصل یہ ہے کہ فارسی دری پہلوی کی شستہ اور مہذب صورت ہے۔ ان کا خیال ہے کہفارسی زبان میں جو ردو بدل ہوا اس کا انداز یہ ہے کہ پہلے اوستا نے پہلوی روپ دھارا۔ پھر پہلوی نے دری کا جامہ اوڑھا۔ لیکن تبدیل کلمات کے جو اصول پہلوی میں تھے وہی کم و بیش دری میں بھی رہے۔ اس کے علاوہ عربوں کی تسخیر ایران کے بعد فارسی زبان میں نئے کلمات کا نفوذ ہو گیا۔ انھیں بھی دری سمجھنا چاہیے۔ کلمات کچھ تو وہ ہیں جن کا بدل اس سے پیشتر فارسی میں نہ تھا اور کچھ وہ جو دری کلمات سے زیادہ رواج پا گئے۔ علاوہ ازیںعربی الفاظ کی آمیزش سے پہلوی کی شکل تبدیل ہو گئی۔ جسے آج کل فارسی جدید کا نام دیا جاتا ہے۔ وہ دراصل فارسی دری ہے۔ اس زبان میں ادبی شعور چوتھی صدی ہجری کے آغاز میں ہوا۔ دری کے اہم مرکز فرغانہ سغد اور خراسان تھے۔ اور یہیں سے یہ زبان دوسرے حصوں میں پھیلی۔