دلیر مجرم جاسوسی دنیا سلسلے کا پہلا ناول ہے۔ یہ ناول مارچ 1952ء کے پہلے ہفتے یا عشرے میں منظر عام پر آیا۔ یہ ناول ایک جرمن مصنف کا کارنامہ تھا، جس کے مرکزی خیال پر ”وکٹر گن“ اور ”پیٹر شینی“ نے بھی طبع آزمائی کی تھی۔ ہندی میں بھی اس پلاٹ پر ایک ناول ”قیامت کی رات“ چھپ چکا ہے، مگر نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اسی ناول کا چربہ ہے۔ جیسے کہ ابن صفی کے کئییی ناول پہلے ہندی زبان میں ترجمہ ہوئے، بعد میں ہندی زبان سے اردو زبان میں ترجمہ ہوئے اور ان ترجموں کی وجہ سے ابن صفی پر سرقہ کا الزام عائد ہوا۔ جو خلاف حقیقت تھا۔

دلير مجرم
دلير مجرم
مصنف ابن صفی
زبان اردو
اصل زبان اردو
ملک پاکستان
سلسلہ جاسوسی دنیا
ناشر ادارہ نکہت، الہ آباد (اشاعت اول)
تاریخ اشاعت مارچ 1952ء
پیش کش
صفحات 90
دیگر تحاریر
پہلا ناول
خوفناک جنگل

کردار ترمیم

  • انسپکٹر فریدی: محکمہ سراغ رسانی کا انسپکٹر۔
  • سرجنٹ حمید: انسپکٹر فریدی کا اسسٹنٹ، دوست اور دونوں کا آپس میں بھائیوں جیسا تعلق ہے۔
  • سبیتا دیوی: ڈاکٹر شوکت کی ماں کی سہیلی، جس نے شوکت کی پرورش کی تھی۔
  • ڈاکٹر شوکت: دماغ کے آپریشن کا ماہر جو سول اسپتال میں اسسٹنٹ​ سرجن ہے۔
  • نواب وجاہت مرزا: راج روپ نگر کے نواب اور ڈاکٹر شوکت کے والد۔
  • کرنل تیواری: پولیس ہسپتال کے انچارج اور نواب وجاہت مرزا کے موجودہ معالج۔
  • ڈاکٹر توصیف: نواب وجاہت مرزا کا خاندانی معالج۔
  • پروفیسر عمران: ماہر فلکیات اور پر اسرار آدمی۔
  • کنور سلیم: نواب صاحب کا بھتیجا۔
  • نجمہ: نواب صاحب کی بھانجی۔
  • بیگم صاحبہ: نواب صاحب کی بہن۔

پلاٹ ترمیم

سبیتا دیوی نشاط نگر نامی قصبہ میں ڈاکٹر شوکت اور ملازمہ کے ساتھ رہ رہی تھیں۔ ڈاکٹر شوکت سردیوں کی ایک رات آپریشن کے لیے چلا جاتا ہے۔ صبح آٹھ بجے گھر پہنچنے پر اسے ملازمہ کی زبانی معلوم ہوتا ہے کہ سبیتا دیوی خلاف معمول ابھی تک سو رہی ہے۔ نو بجے تک سبیتا دیوی کے نہ جاگی۔ دروازہ توڑے جانے پر معلوم ہوا کہ سبیتا دیوی کو خنجر کے وار سے قتل کر دیا گیا ہے۔ پولیس تفتیش کے لیے پہنچ جاتی ہے لیکن ڈاکٹر شوکت اپنے دوست اور محکمہ سراغ رساں کے انسپکٹر فریدی کو بلاتا ہے جو اپنے اسسٹنٹ سرجنٹ حمید کے ساتھ آن پہنچتا ہے۔ ابتدائی تفتیش کے دوران پتہ چلتا ہے کہ وہ رات کو سوتے وقت راج روپ نگر بڑبڑا رہی تھیں اور ان کے سینے میں گھونپا گیا خنجر نیپال کا بنا ہوا ہے۔ اس کے بعد فریدی "ایک نیپالی کے موت کے خنجر کا کھیل" کو دیکھنے سرکس ​جاتا ہے۔ نیپالی کی گھبراہٹ کی بنا پر فریدی اس سے پوچھ گچھ کرتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس نے بیس ہزار کے عوض یہ قتل کیا ہے۔ اس انکشاف کے فورا بعد نیپالی کو کوئی خنجر کے وار سے قتل کر دیتا ہے۔

فریدی، نواب وجاہت مرزا کی بیماری کی خبر پا کر راج روپ نگر جاتا ہے اور کنور سلیم سے ملاقات کرتا ہے۔ اسی دوران پروفیسر عمران سے اتفاقاً ملاقات ہوتی ہے جو ایک پر اسرار آدمی ہے اور نواب صاحب کی کوٹھی کے پاس ہی رہتا ہے۔ پھر فریدی نواب صاحب کے خاندانی معالج ڈاکٹر توصیف سے بات چیت کرتا ہے اور ڈاکٹر شوکت سے نواب صاحب کے آپریشن کروانے کی سکیم بناتا ہے۔ راج روپ نگر سے واپسی پر فریدی پر جھاڑیوں سے گولیوں کی بوچھاڑ ہوتی ہے۔ وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے لیکن چھپ کر کیس کی تحقیقات کرنے کی عرض سے اپنی موت کی خبر شائع کروا دیتا ہے۔

ڈاکٹر شوکت ابتدائی معائنے کے بعد نواب صاحب کے آپریشن کی تجویز دیتا ہے اور آپریشن کی تیاریوں میں مصروف ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کی راہ میں مسلسل روڑے اٹکائے​جاتے ہیں۔ پہلے اسے​ زہریلی سوئی چبھونے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن بچ جانے پر اس کے گلے میں پھندا ڈال کر مارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن فریدی خفیہ طور پر اس کی جان بچاتا ہے۔ ڈاکٹر شوکت کوٹھی پر پہنچ کر آپریشن شروع کرتا ہے اور ادھر فریدی پروفیسر کے روپ میں آ کر سلیم کو اپنے پاس باندھ لیتا ہے اور اس سے، اس کے سارے جرموں کے اعتراف کرواتا ہے۔ سلیم رسی کو جلا کر بھاگ نکلتا ہے اور ڈاکٹر شوکت کو جان سے مارنے کی ایک اور کوشش کرتا ہے لیکن فریدی کی گولی کا نشانہ بن کر مارا جاتا ہے۔

ڈاکٹر شوکت کامیاب آپریشن کر کے فارغ ہوتا ہے اور فریدی منظر عام پر آ کر سلیم کے جرم کے بارے میں بتاتا ہے۔ ایک ہفتہ بعد فریدی اور نواب صاحب کی ملاقات کے دوران انکشاف ہوا کہ نواب صاحب نے چھپ کر شادی کی تھی اور ڈاکٹر شوکت انھیں کا بیٹا ہے۔ ان کی بیوی​ نے اپنے بیٹے کی تربیت جاگیر دارانہ نظام سے ہٹ کر کرنا چاہی تھی اور خود اس جہاں سے چل بسی۔ سلیم کو اس بات کا علم ہوا اور وہ شوکت کی جان کا دشمن ہو گیا تاکہ نواب صاحب کی موت کے بعد وہ راج روپ نگر کا نواب بن سکے۔

حوالہ جات ترمیم

مزید دیکھیے ترمیم