دھنی پیر
دھنی پیرقوم دھنیال کے جد امجدجن کا اصل نام سید معظم شاہ ہے
ولادتترميم
ان کی پیدائش 1110ء میں ہوئی ان کے والد کا نام خسرو شاہ چکوال کے تھے چکوال کا پرانا نام دھنی ہےاسی نسبت کی وجہ سے دھنی پیر سے مشہور ہوئےیہ مذہبی طور پر مضبوط رہنما او ر علاقے کے بادشاہ تھے۔
شجرہ نسبترميم
شجرہ کے لحاظ سے سید معظم شاہ 18ویں لڑی سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور خولہ بنت جعفر (نویں بیوی) کی اولاد سے ہیں۔ اور اولاد علی کرم اللہ وجہہ ہونے کی نسبت دھنیال علوی بھی کہلاتے جاتے ہیں۔شجرہ نسب اسطرح ہے دھنی پیر (معظم شاہ) بن خسرو شاہ بن امیر ملک بن جعفر بن معاویہ بن عبداللہ بن محمد بن علی بن ابراہیم بن حسن بن قاسم بن احسن الاطروش بن اسماعیل بن زید بن حسن بن امام ابراہیم بن امام محمد بن حنیفہ بن حضرت علی بن ابی طالب
برصغیر آمدترميم
محمود غزنوی (998ء-1002ء)کی فتوحات کا سلسلہ ہندوستان سے ہوتا ہوا پنجاب اور ملتان تک جا پہنچا جہاں مسلمان علوی خاندان پہلے سے ہی حکمران تھے۔جو عراق سے محمد بن قاسم کے دور میں ملتان میں منتقل ہوئے تھے، ان کا یہاں بہت بول بالا اور اثرورسوخ تھا، اسی لیے بہت سے خاندان ملتان سے دیگر علاقوں جیسے سرحد (ایبٹ آباد، اُوگی وغیرہ) اور پنجاب کے مختلف علاقوں جیسے سیالکوٹ، مری، کوٹلی ستیاں، اور کشمیر منتقل ہوتے گئے تاکہ مسلم آبادی زیادہ سے زیادہ علاقوں میں پھیل سکے۔ انہی میں سےایک خاندان جس کے سربراہ خُسرو شاہ چکوال(پُرانا نام "دھنی") میں منتقل ہوگئے۔جن کے بیٹے دھنی پیر ہیں
دھنیال قومترميم
دھنیال قوم معظم شاہ المعروف دھنی پیر (چکوال کے پرانے نام دھنی کی نسبت سے مشہور ہیں) جن کا مزار موڑی سیداں کوٹلی ستیاں میں ہے، 17 سال کی عمر میں اسلام کی تبلیغ کیلئے کشمیر چلے گئےجہاں ہندوؤں کا راج تھا۔
دھنی پیر کی کشمیر آمدترميم
یہ روایت کی جاتی ہے کہ بہت کم عمر میں ہی ان کو فقہ پر عبور حاصل ہوگیا تھا، اور ایک مذہبی عالم تھے۔ معظم شاہ 17 سال کی ہی عمر میں اسلام کی تبلیغ کے سلسلے میں کشمیر چلے گئے تھے، اس وقت کشمیر میں ہندو وں کا راج تھا، آپ نے کشمیر میں ہندووں کی ساری راجدھانی میں اسلام کی اشاعت کی، اور انہیں اسلام کی طرف لے آئے، ہندو خاندان مسلمان ہوئے اور ساتھ ہی انہوں نے اپنی ایک بیٹی کی شادی بھی دھنی پیر معظم شاہ کے ساتھ طے کردی۔ شادی کے بعد، آپ نے کشمیر اور اس کے گرد و نواح میں اسلام کی تبلیغ جاری رکھی،
چراہ مرکزترميم
اِس وقت کے کوٹلی ستیاں اور راولپنڈی کا درمیانی علاقہ "چراہ" پُرتشدد اور انتہا پسند ہندووں کا گَڑھ تھا، چنانچہ آپ نے اُس وقت "چراہ" کو ہی اپنا مرکزی علاقہ بنایا اور مسلمانوں کی ایک مضبوط فوج بنائی۔ انکی بہادری، اسلام کی مسلسل تبلیغ اور اسلام کی بڑھوتری کی شہرت کو دیکھتے ہوئے 1186ء میں سلطان غوری(1149ء-1206ء)آپ سے مِلے، اور آپ سے مسلمانوں کو اسلام کی حمایت اور ساتھ دینے کے لیے تیار کرنے کے لیے درخواست کی۔ آپ نے اپنی بہادر مسلمان فوج کے ساتھ ہندو بادشاہوں کے خلاف جنگ کا آغاز کیا اور بہت وسیع علاقہ فتح کیا جہاں آج کل دھنی پیرمعظم شاہ علوی کی نسل دھنیال بستے ہیں جو بنیادی طور پر علوی ہیں۔ آپ کی قائدانہ اور اسلامی تبلیغی اور اعلیٰ اخلاقی صلاحیتوں کی وجہ سے بہت سے ہندو اس علاقے سے بہت تیزی سے اسلام کی طرف مائل ہوئےاور مسلمان ہوکر معافی کےطلبگار ہوئے، اور آپ نے عام معافی کا اعلان کیا۔
واقعہ شہادتترميم
تاہم جب معظم شاہ (دھنی پیر) کافی عُمر رسیدہ ہوچکے تھے، تب اس بات کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے، اس وقت کے ہندوستانی ہندو راجوں نے آپ کے خلاف ایک جنگ کا آغاز کیا، اور اس وقت چند ہی لوگ آپ نے اپنی فوج میں رکھے ہوئے تھے۔ اور اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ آپ نے اپنے آخری دم تک ہندو شرپسند راجوں کے ساتھ جنگ جاری رکھی۔ روایت ہے کہ دورانِ جنگ آپ کا گلا مبارک کٹ چکا تھا، مگراپنی بہادری اور شجاعت کی بنا پر آپ لڑتے رہے، جس سے خوفزدہ ہوکر آپ کے مخالفین بھاگ پڑے مگر آپ کا دھڑ اُنکا پیچھا کرتا رہا۔ اس وقت فجر کے وقت موڑی سیداں (جہاں حضرت کا مزار ہے) کے ایک شخص نے ایک جسم دیکھا جو بنا سر کے زخمی حالت میں چلتے ہوئے دیکھا، جس پر وہ خوف سے زور زور سے چلانے لگ گیا اور حضرت کا جسم وہیں گِر گیا۔
دربار شریفترميم
موڑی سیداں کے لوگ سید تھے اورانہیں جب پتہ چلا کہ یہ ان ہی کے خاندان کے فرد ہیں اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کے حوالے سے سچے سید ہیں۔ انہوں نے معظم شاہ علوی کے جسم مبارک کی موڑی سیداں میں ہی تدفین کردی اور قرآن کی تلاوت کا آغاز کردیا اور قبر مبارک پر دیا جلا دیا گیا۔ اور بعد میں یہی قبر مزار کے طور پر سامنے آئی۔ اور حضرت معظم شاہ (دھنی پیر) کا عُرس مبارک ہر سال 24 اپریل کو منعقد کیا جاتا ہے جس پر دھنیال (علوی) قوم اور دیگر اقوام کے لوگ دور دراز علاقوں سے شرکت کا شرف حاصل کرتے ہیں۔[1] دربار اقدس سرکار دھنی پیر شہید موڑی سیداں لہتراڑ ڈھلہ کنی گلی تحصیل کوٹلی ستیاں ضلع راوالپنڈی میں ہے [2]
حوالہ جاتترميم
- ↑ ماہنامہ لوکل خبر نامہ راولپنڈی
- ↑ https://www.urdupoint.com/daily/livenews/2016-04-25/news-634533.html