دیبا شہناز اختر
دیبا شہناز اختر پاکستان ریسکیو ٹیم اقوام متحدہ کی انسراگ سرٹیفائیڈ اربن سرچ اینڈ ریسکیو ٹیم کی واحد خاتون ممبر ہیں جنھوں نے ریسکیو 1122 کو 2006ء میں جوائن کیا تھا[1] انسراگ اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے انٹرنیشنل سرچ اینڈ ریسکیو ایڈوائزری گروپ کا مخفف ہے[2] آدیان- ترکیہ میں پاکستان ریسکیو ٹیم کیساتھ وہ بحیثیت رابطہ افسر اور سیکٹر انچارج آپریشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ دیبا شہناز، ریسکیو 1122 کی کمیونٹی ٹریننگ اور انفارمیشن ونگ کے ساتھ وابستہ ہیں[3] تاہم آدیامان (ترکی) میں انھوں نے ایک پرخطر اور پیچیدہ ریسکیو آپریشن کی سربراہی کرتے ہوئے ایک 50 سالہ خاتون کو ریسکیو کیا۔ پاکستان کی جانب سے ترکی بھجوائی جانے والی ریسکیو ٹیم ڈاکٹر رضوان نصیر کی قیادت میں فروری کے پہلے ہفتے میں ترکی پہنچی تھی[4]
پاکستان ریسکیو ٹیم (ریسکیو 1122) کے اس اربن سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان ریسکیو ٹیم نے ملٹی سٹوری منہدم عمارت کے ملبے میں پھنسی ہوئی ترک خاتون گلئی کو زندہ ریسکیو کیا۔ جو یہ کسی معجزے سے کم نہیں تھا دیبا شہناز نے ایک ویڈیو بیان میں اس ریسکیو آپریشن کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ مجھے اور میری ٹیم کو، جس میں پانچ لوگ تھے، ٹاسک دیا گیا تھا کہ اس مقام سے آوازیں آ رہی ہیں اور ایک خاتون اندر ٹریپ ہیں۔ یہ ایک رہائشی عمارت کا ملبہ تھا جو زلزلے میں زمین بوس ہو چکی تھی۔ واضح رہے کہ ریسکیو اور ملبہ ہٹانے کا کام خالی جگہوں کی تلاش کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ خالی جگہ یعنی کنکریٹ کے بیم یا ستون یا سیڑھیوں کے نیچے خالی جگہ جہاں لوگوں کے موجود ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ دیبا کہتی ہیں کہ ہمارے عملے نے بہت بہادری سے خطرہ مول لے کر یہ آپریشن کیا۔ اس آپریشن کی ویڈیو میں دیبا شہناز اور ان کی ٹیم کے اراکین کو کنکریٹ کے بلاکس کے بیچ تنگ اور پرخطر خلا میں رینگتے ہوئے داخل ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔ دیبا نے بتایا کہ جب ہم نے عمارت کے ملبے میں جا کر اس خاتون تک رسائی حاصل کی تو وہ بہت تنگ جگہ تھی۔ ان خاتون کی دونوں ٹانگیں کنکریٹ کے اندر بری طرح سے پھنسی ہوئی تھیں۔ یہ ایک طویل آپریشن تھا۔ دیبا نے بتایا کہ چار گھنٹے کے اس آپریشن کے دوران خاتون کی ایک ٹانگ کو نکال لیا گیا لیکن دوسری ٹانگ کو نکالنے میں مشکل کا سامنا تھا۔ ہم اندر کٹر استعمال نہیں کر رہے تھے کیوں کہ عمارت کے ملبے کی حالت مستحکم نہیں تھی۔ سطح ہل رہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے اوپر بھی کنکریٹ تھا۔ ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ ایک راستہ یہ ہے کہ اس ٹانگ کو بھی کاٹا جائے۔ ہم نے ترکی کے محکمہ صحت سے رابطہ کیا اور ڈاکٹرز کو بھی بلوا لیا گیا۔ لیکن ہماری کوشش تھی کہ ہم ان کی ٹانگ کو بھی بچائیں اور ان کو بحفاظت نکال لیں تاکہ وہ معذور نہ ہوں۔ زلزلے کے بعد ملبے تلے دبے افراد کتنے وقت تک زندہ رہ سکتے ہیں؟ یقین جانیں کہ ہم آپریشن کر رہے تھے لیکن ساتھ ساتھ دعائیں بھی مانگ رہے تھے کہ ہم تین لوگ اتنا رسک لے رہے ہیں پتہ نہیں واپس بھی نکلیں گے یا نہیں۔ کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ بلڈنگ گر جائے۔ لیکن اچھی بات یہ ہوئی کہ ہم آخر کار ان کی ٹانگ کاٹے بنا ان خاتون کو بحفاظت ملبے کے نیچے سے نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔ دیبا نے بتایا کہ ان کے لیے وہ لمحہ سب سے قیمتی تھا جب ان خاتون نے 57 گھنٹے کے بعد اپنے عزیزوں سے ملاقات کی۔
دیبا شہناز اختر بتا رہی تھیں کہ ہم ریسکیو آپریشن کر رہے تھے لیکن ساتھ ساتھ دعائیں بھی مانگ رہے تھے کہ ہم تین لوگ اتنا رسک لے رہے ہیں پتہ نہیں واپس بھی نکلیں گے یا نہیں۔ کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ کب بلڈنگ گر جائے اس زلزلے کے بعد متعدد افراد ایسے تھے جو عمارتوں کے ملبے تلے دب گئے تھے۔ ان افراد کو تلاش کرنے اور بحفاظت نکالنے کے لیے بڑے پیمانے پر سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس آپریشن میں جہاں ترکی کے حکام شامل تھے وہیں دنیا بھر سے متعدد ممالک نے اپنے اپنے دستے بھی روانہ کیے جن میں پاکستان کی جانب سے ریسکیو ٹیم بھی شامل تھی۔ مشکل حالات میں سردی کی شدت نے اس آپریشن کو مزید مشکل بنایا تاہم اب تک متعدد افراد کو زندہ نکالا جا چکا ہے۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ https://tribune.com.pk/story/2172021/1-25-women-serve-provincial-rescue-service
- ↑ https://www.nation.com.pk/columnist/deeba-shahnaz-akhtar
- ↑ https://www.thefreelibrary.com/Ms.+Deeba+Shahnaz+Akhtar+appointed+as+head+of+Public+relations+Wing...-a0438966924
- ↑ https://www.bbc.com/urdu/articles/c4nzrw1dywko