ذرائع ابلاغ کی جانبداری

ذرائع ابلاغ کی جانبداری (انگریزی: Media bias) ایسی صورت حال کو کہتے جس میں ذریعہٴ ابلاغ خواہ وہ اخبار ہو یا ریڈیو، ٹیلی ویژن ہویا انٹرنیٹ یا تو کسی کے اثر و رسوخ سے دب کر کام کرے یا پھر کسی ذاتی مفاد اور طمع کی وجہ سے کسی جھکاؤ اور یک گونہ رجحان کا مظاہرہ کرے۔ جدید دور کے جتنے ذرائع ابلاغ ہیں، ان پر چند با اثر افراد یا سیاست دانوں کا کنٹرول ہے۔ آج کل کے اخبارات کارپوریٹ گھرانے نکالتے ہیں، نیوز چینلز پر بھی انھی کا مالکانہ کنٹرول ہے۔ جو کسی نہ کسی سیاسی پارٹی سے سمجھوتہ کرکے ان کی تشہیر اور حمایت میں فضا سازگار کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ ااور مشہور صحافی سنتوش بھارتی کی مانیں، توآج کا میڈیا بکا ہوا ہے۔ اس نے اپنی بولی لگادی ہے۔آج کا میڈیا صرف اسی خبر کو مشتہر کرتا ہے، جس سے اس کے مخالف کی شبیہ شکنی اوراس کی شبیہ سازی ہوتی ہو۔ موجودہ عہد کے صحافی اور رپورٹر ان مشتبہ خبروں کو منظرِ عام پر لانے سے گھبراتے ہیں، جو با اثر افراد سے تعلق رکھتی ہیں۔[1]

جانبداری کی وجوہ

ترمیم

ذرائع ابلاغ کی جانبداری کی کئی وجوہ ممکن ہیں۔ ان میں سے چند یہاں درج ہے:

  • حکومت کا دباؤ: دنیا کے بہت سے خطوں میں یا تو جمہوریت کا فقدان یا وہ برائے نام ہے۔ ایسے میں ذرائع ابلاغ کے کارکن یا صحافی مجبور ہوتے ہیں کہ وہ وہی رپورٹ شائع کریں جو جکومت وقت چاہتی اور ہر اس خبر کے شائع کرنے سے بچیں جسے حکومت نہیں چاہتی۔ اس کے علاوہ کئی بار خبروں کو قومی صیانت کے نام سے بھی شائع ہونے سے روکا جاتا ہے۔ اخبارات اور ٹی وی چینل میں ذریعہ آمدنی کا ایک اہم ذریعہ وہ عوامی اشتہارات ہوتے ہیں جو حکومت وقتًا فوقتًا شائع کرتی ہے۔ اس کی طمع میں بھی ذرائع ابلاغ حکومت کے شانہ بہ شانہ روداد نگاری پر مجبور ہے۔ اس کے علاوہ سے اخبارات اور میڈیا کئی سرکاری مراعات کی طلب اور جستجو کی وجہ سے حکومت وقت سے کافی نرم گفتار ہو سکتے ہیں۔
  • عوامی جذبات: کئی حساس موضوعات پر مختلف ملکوں میں لوگ قبل از وقت رائے قائم کر چکے ہوتے ہیں۔ ایسے میں کسی ابلاغ کے ذریعے میں کوئی اور طرز کی خبر کی پیش کشی عوام میں مقبول نہیں ہو سکتی ہے۔

معلومات کے صحیح ذریعے کا جدید دور میں غیر واضح ہونا

ترمیم

اخبارات، الکٹرانک میڈیا اور ان سب کے آگے انٹرنیٹ پر اتھاہ معلومات میسر ہیں، مگر ہر اطلاع پایۂ ثبوت یا معیار معلومات کے لیے درکار نکات پر کھرے نہیں اترتے۔ انٹرنیٹ کے سب سے بڑے مسائل میں سے ایک ہے – کہ اس قدر وافر معلومات موجود و میسر ہیں۔ ہم اس میں کیسے تمیز و تفریق کریں؟ جن لوگوں کی کوئی ویب گاہ ہے اور جنھوں نے اس پر کچھ تحقیق کی ہے وہ جانتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کوئی لفظ گوگل کرتا ہے تو اپنی ویب گاہ کو گوگل کے پہلے صفحہ پر سرِ فہرست لانے کے کیا گر ہیں۔ یہ محض ایک چال ہے جو آپ چلتے ہیں، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ پہلے صفحہ پر جو مضمون آپ کو نظر آتا ہے وہ اس خاص موضوع پر بہترین مضمون ہے۔ پس یہ بڑی اہم بات ہے۔ اگر آپ گوگل یا کسی اور کھوجی واسطہ پر "بدھ مت" ٹائپ کرتے ہیں، تو خدا پناہ، کتنے لاکھوں کے حساب سے مضامین اور انٹرنیٹ کے صفحات اس موضوع پر میسر ہیں؟ تو ہم ان سب کے درمیان کیسے تمیز کر سکتے ہیں، کیونکہ اس میں سے بہت سا مواد مذموم ادب ہو سکتا ہے؟ بعض نہایت عمدہ ہیں اور بعض نہیں ہیں۔[2]

مزید دیکھیے

ترمیم


حوالہ جات

ترمیم