ذرائع علوم
کُل ذرائع علوم صرف دو ہیں یعنی علمِ متصوّرہ اور علمِ مصدّقہ پس اِن دونوں کو ہم باری باری تفصیلاً بیان کرتے ہیں.[1]
علمِ متصوّرہ
ترمیمعلمِ متصوّرہ جسے آپ تصور، خیال، سوچ، گمان، عقل، عقیدہ یا کچھ بھی نام دے دیں اگر وہ علم دائرہِ معقولات و منقولات میں ہو یعنی مسئلہ معقول ہو یا منقول بہرصورت اُس کا شمار علمِ متصوّرہ ہی میں ہو گا یقیناً یہ انکشاف آپ کے لیے باعثِ حیرت ہو گا کہ عقل اور عقیدہ ایک ہی دائرہ سے کیسے ہو سکتے ہیں جبکہ عقیدہ تو عموماً عقل کے مخالف سمت میں بیان کیا جاتا ہے پس حقیقت یہ ہے کہ عقیدہ اور عقل ایک ہی کیفیت کے دو مختلف نام ہیں اس میں فرق بس اِس قدر ہے کہ کوئی بھی تصور یا خیال اگر وہ دائرہِ تسلیم و رضا تک نہیں پہنچا اور گمان کی حالت میں ہے تو عقل ہے اور اگر وہ تصور یا خیال تسلیم و رضا یا پھر درجہِ تنکیر کی صورت اختیار کر لے تو عقیدہ بن جاتا ہے، علمِ متصوّرہ کو سمجھانے کی خاطر یہاں پر میں ایک عام فہم معاشی عقیدہ کی مثال دیتا ہوں کہ آپ کا یہ تصور درجہِ تسلیم و رضا تک پہنچ چکا کہ فلاں پرائیویٹ بینک میں اگر اپنی جمع پونجی رکھی جائے تو قطعی طور پر محفوظ رہے گی ایک تنخواہ دار جب اپنی کمپنی یا ادارے کو درخواست دیتا ہے کہ میری ماہانہ تنخواہ فلاں بینک میں منتقل کی جائے تو وہ شخص جو ایک پرائیویٹ بینک میں اپنی خون پسینے کی کمائی رکھنے پر آمادہ ہو چکا بینک کی دیانت پر عقیدہ کا حامل ہے ورنہ وہ ایسا بالکل بھی نہ کرتا کیونکہ یہ اندیشہ تو بہرصورت موجود رہے گا کہ بینک کسی بھی وقت آپ کی رقم ہڑپ کر سکتا ہے گوکہ بینک ایسا نہیں کرتا، اب اسی مثال کی مذہب کے کسی بھی مروجہ عقیدہ کے ساتھ مطابقت قائم کرکے دیکھیں تو معاملہ بالکل صاف ہو جاتا ہے کہ اگر ایک مذہب عقیدہِ آخرت کی بنیاد پر اَجرِ عظیم یا وعیدِ شدید کی خبر دیتا ہے تو وہ لوگ جو اس خبر کو تسلیم کر چکے اُن کی تسلیم و رضا قطعاً غیر منطقی نہیں اِس کے برعکس جو لوگ انکار کر چکے وہ بھی منفی عقیدہ کے حامل ہوئے جبکہ تیسری صورت میں تشکیک ہے کہ شاید ایسا ہو یا پھر لاادریت کہ میں نہیں جانتا کہ کیا ہو گا، رہی بات مذہبی عقائد یا منفی عقائد کی تبلیغ کی تو واضح رہے جس طرح بینک کے نمائندے اپنے بینک کی دیانتداری اور راست بازی کی تلقین کرتے رہتے ہیں بعینہٖ کوئی بھی صاحبِ مثبت یا منفی عقیدہ اپنے عقائد کی حقانیت کا نہ صرف پرچار کر سکتا ہے بلکہ وہ چاہے تو اِس کی تبلیغ بھی کر سکتا ہے اور یہ سارا معاملہ عین منطقی ہے حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم روز مرہ کی زندگی میں انسانی زندگی سے عقائد کو نکال دیں تو گوشہ نشینی کے سوا ہم کہیں کے نہیں رہتے پس اگر کوئی شخص خدا کا انکار کرتا ہے تو وہ بالواسطہ اِس حقیقت کا برملا اظہار کر رہا ہوتا ہے کہ خدا کے متعلق اُس کا تصور درجہِ تسلیم تک نہیں پہنچا اس لیے وہ نہیں مانتا یا پھر منفی عقیدہ کا حامل ہو کر صاف انکار کر دیتا ہے، بلاشبہ دنیا میں عقیدہ سے زیادہ مضبوط اور طاقتور روحانی قوت کوئی نہیں پھر چاہے وہ مثبت ہو یا منفی، عقیدہ ایک عالمگیر قوتِ متصوّرہ ہے چنانچہ یہ تعلق، دوستی، محبت و عشق، رشتے ناتے، لین دین اور دیگر معاشرتی معاملات تمام کے تمام عقائد ہی کی بنیاد پر قائم و دائم ہیں پس اگر آپ عقائد کو منہدم کر دیں تو ایک مضبوط اور متوازن معاشرہ قائم ہی نہیں رہ سکتا، زیادہ تر لوگ صرف اس لیے اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے خیالات کے متعلق درجہِ تسلیم تک پہنچ جاتے ہیں، بالفرض اگر ہم عقائد کو کنارے لگا کر سوچیں تو پھر جو کچھ باقی بچتا ہے وہ صرف گمان ہے یعنی پانی کی ایک لہر جو کسی بھی لمحے غائب ہو سکتی ہے، سوچ اور عقیدہ میں یہ بنیادی فرق ہمیشہ ملحوظ رہے کہ سوچ ایک کنفیوژن یعنی گھمبیرتا اور ایک عقیدہ کلیرٹی یعنی ایقان ہے سوچ زیادہ سے زیادہ تشکیک پیدا کر سکتی ہے یعنی اگر آپ سوچیں کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی ہے یا نہیں تو اب آپ کے پاس صرف دو ہی راستے بچتے ہیں یعنی آپ لاادریت کا مظاہرہ کریں یا پھر آپ ایقان یعنی عقیدہ تک پہنچ جائیں کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی ہے یا نہیں ہے کیونکہ جہاں تجربہ نہ ہو وہاں سوچ محض تسلیم، تنکیر یا تشکیک کے درجے میں واقع ہوتی ہے، پس علمِ متصوّرہ کی صرف تین جہتیں ہیں تشکیک یا گمان (Skepticism) ، لاادریت (Agnosticism)، ایقان مثبت اور منفی (Positive and negative believe) ،تشکیک یعنی ایسا ہو یا پھر شاید ایسا ہو جائے یا ایسا ہو سکتا ہے، لاادریت یعنی میں نہیں جانتا اور ایقان مثبت یعنی میں نے مان لیا، ایقان منفی یعنی میں انکار کرتا ہوں، فلسفہ، تاریخ، مذہب، مابعدالطبیعیات، الہّیات اور منقولات دراصل علمِ متصوّرہ ہی کی مختلف اقسام ہیں.
علمِ مصدّقہ
ترمیمعلمِ مصدّقہ کا تعلق صرف مشاہدہ و تجربہ سے ہے اور مشاہدہ و تجربہ کے آلات ہمارے حواسِ خمسہ ہیں، یہ بات ہمیشہ ملحوظ رہے کہ مشاہدات و تجربات بھی غلط ہو سکتے ہیں چنانچہ اگر آپ رات کے وقت ٹمٹماتے ہوئے ستاروں کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دور کہیں روشنی کے تُکمے ٹمٹما رہے ہیں جبکہ ہم جانتے ہیں کہ کئی ستارے ہماری زمین سے بھی کئی گنا زیادہ جسامت کے حامل ہیں، پس اگر آپ کو پہلی بار کسی نے زائد المیعاد کافی پلا دی تو آپ کافی کے متعلق یہ تجربہ قائم کر لیں گے کہ کافی تو زقوم ہوتی ہے اب یہاں پر آپ کا تجربہ بھی مات کھا گیا کیونکہ تازہ کافی کبھی زقوم نہیں ہوتی، گویا علمِ مصدّقہ ہماری انفرادی یا اجتماعی تصدیق کے علاوہ کچھ نہیں، ستارے تُکمے جتنے ہیں اور کافی کڑوی ہوتی ہے مطلق حقیقت نہیں مگر جس نے مشاہدہ اور تجربہ کر لیا اُس کے لیے یہ علمِ مصدّقہ ہے پس علمِ مصدّقہ صرف مشاہدہ اور تجربہ کے گرد ہی گھومتا ہے اِس سے ایک رتی آگے نہ پیچھے، ہزار بار ہمارے تجربات سولہ آنے غلط ثابت ہو جاتے ہیں اور ہزار بار ہمارے مشاہدات ہمیں صریح دھوکا دے جاتے ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم مشاہدہ یا تجربہ کرنے کے بعد علم کے اِس وسیلے کو مصدقہ نہیں کہیں گے بہرصورت کہیں گے کیونکہ جس لمحے ہمیں جو معلوم یا محسوس ہوتا ہے ہماری مجبوری ہے کہ ہم اُسی ہی کی تصدیق کر سکتے ہیں، تمام تر سائنسی اور تکنیکی علوم علمِ مصدّقہ ہی کی مختلف اقسام ہیں.