مسجد بھونگ کی تعمیر 1932میں بھونگ کے سردار رئیس غازی نے شروع کی رئیس غازی کا شمار امیر ترین لوگوں میں ہونے کے باجود وی درویشانہ زندگی گزارتے تھے اور بہاولپور اسمبلی کے رکن بھی رہے۔رئیس غازی کا مشن دینی تعلیم اور مساجد کی تعمیر تھا یہی وجہ تھی کہ رئیس غازی نے مختلف علاقوں میں ؛مساجد تعمیر کروائیں۔1932میں رئیس غازی نے کثیر سرمایہ کے ساتھ اپنے خاندانی محل میں بھونگ مسجد تعمیر کرنے کی ہدایات جاری کیں اور مسجد بھونگ کی تعمیر کے ایک مرحلے میں خود خاصی دلچسپی لی۔مسجد کی تعمیر کے لیے ہنگری۔اٹلی سمیت مختلف ممالک سے سنگ مر مر،سنگ سرمئی ،اور سنگ سیاہ منگوائے گئے۔ان پتھروں کو تراش کر سونے کے پھول اور گلکاری کرنے والے سینکڑوں کاریگروں کی خدمات حاصل کی گئیں ۔ پچاس سال کے عرصہ میں مسجد بھونگ کی تعمیر کا کام مکمل ہوا مسجد کی تزین و آرائش سمیت میناکاری کے کام میں انڈیا اور پاکستان سے کاریگروں نے حصہ لیا کاریگروں کی تین نسلوں نے اس مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا اور کاریگروں کو ان کی مہارت پر انھیں اجرت دی جاتی تھی تعمیر اتی کام کے دوران صادق آباد سے بھونگ تک مناسب ذرائع نقل و حمل موجود نہ تھے۔ نہ ہی پختہ سڑک تھی۔ لہٰذا بھاری مشینری اور تعمیراتی سامان صادق آباد ریلوے اسٹیشن سے بھونگ تک تقریباً 20 کلومیٹر کچے راستوں پر بیل گاڑیوں اور اونٹوں پر لاد کر لایا جاتا تھا۔مسجد بھونگ کی تعمیر کے دوران کئی بار اس کے نقشہ میں تبدیلی کی گئی۔مسجد کی تعمیر کے دوران ہی 1975ءمیں رئیس غازی محمد کا انتقال ہو گیا۔ ا ±ن کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے رئیس شبیر محمد نے مسجد کا کام کو آگے بڑھایا جو خود بھی درویش صفت انسان تھے۔ 1982ءمیں مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی تو اسے بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔، رئیس غازی محمد کے ایک فرزند رئیس محبوب احمد سیاست میں فعال ہیں،