راندو
راجپوت قبیلہ
راندو قبیلہ پنوار خاندان کی ذیلی شاخ ہے۔راجا راندو کا نام راجا رانوت سی تھا۔ راجا راندو کے والد صاحب اور اجداد قلعہ پھولڑا موج گڑھ مروٹ اور پوگل پر حکمران تھے۔ یہ راجستھان کے علاقہ مارواڑ مارو تھل سے آئے تھے ان کا تعلق دھارانگری سے تھا۔
- کبت میر عنایت علی کالیٹ
- پتر ملن پنوار دا رے راندو دھریا نام
- رنوچہ رہی گرم اے رے ہر دم اس کا نام
- باپ جیہندا وچہ جنگ دے ہویا قتل عام
- چھڈ میدان نا نسیا رے راجپوت کی صمصام
- فخر جیندل رندھول دا رے جگدیو کی سلام
- دھارا نگری مشہور رے جانے خلق عنایت تمام
تاریخ
ترمیمقلعہ پھولڑا راجا راندو کے قلعہ کے نام سے آج بھی مشہور اور جانا جاتا ہے۔ راجا راندو کے بڑے بیٹے بلہڑ راؤ کے نام کی مناسبت سے یہ علاقہ پھولرا ولہڑ کہلاتا تھا۔ راجا پھولرائے پنوار نے اس قلعہ کو 1112 بکرمی میں تعمیر کیا تھا۔ راجا رانوت سی المعروف راجا راندو کے آباء و اجداد قلعہ مروٹ۔ موجگڑھ۔ پھولرا ولہڑ۔ پوگل پر قابض ہوئے تھے۔ قلعہ پھولرا پر لاکھا فولانی عرف بھولا ناتھ قابض تھا بعد میں راجا ملن سی پنوار نے قلعہ پھولرا فتح کیا۔اور دیگر پنوار یعنی "رائے جگدیو دوم" کی اولاد باقی تین قلعوں پر قابض ہو گئی۔ یہ زمانہ محمد تغلق بادشاہ دہلی کا ہے۔ راجا رانوت سی کو راندو کا لقب اس وقت ان کے خاندانی بھاٹ نے دیا جب راجا راندو نے سہو چوہانوں سے اپنے باپ کا بدلہ لیا اور سہو چوہانوں سے اپنا قلعہ قبضہ سے چھڑایا۔[1]
وجہ تسمیہ
ترمیمرن سنسکرت/پراکرت لغت میں میدان کو کہتے ہیں جس میں جنگ کی جاتی ہو اور راندو کا مطلب دو میدان مارنے والا یا دو جنگیں کرنے والا اس لیے راجا رانوت سی کو راندو کا خطاب یا لقب دیا گیا یعنی دو لڑائیاں لڑنے والا۔ راجا رانوت سی المعروف راجا راندو کے باپ جن کا نام راجا ملن سی تھا کو دلی کے حکمران جو سہو چوہان تھے نے خراج دینے کے لیے کہا تو راجا ملن سی نے خراج دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ہم کسی کے ماتحت نہیں ہیں اور ہم تیرا مارواڑا ماروتھل چھوڑ آئے ہیں اب ہمارا پیچھا کیوں کرتے ہو۔اس کے بعد دلی کے حکمران نے قلعہ پھولڑا پر پیش قدمی اور حملہ کا حکم دیا۔اس وقت راٹھور راجپوتوں نے دلی کے حکمرانوں کا ساتھ دیا۔کیونکہ جیسلمیر میں راٹھوروں کا بہت زور تھا۔راجا ملن سی نے دلیری سے مقابلہ کیا
- کبت سویا ملن سی
- چھوڑیا تھارا دیش مارو تھل رے نت دی لڑائ
- اب کیا لیتے ہو پاچھے ہارے رے نہ کر دھکیائ
- جھتے وسن پنوار رے اوہ دھار لچھائ
- مرن مارن ہمارا کام رے پھولڑا چھوڑ نہ جائ
- ابتک رہے خراجگزار مارے رے اج شاہی کتھو پائ
- چخہ جلن گیا ریاں رانیاں رے رسم قدیم آئی
- بھل گیا رام پرمار راجا پرتھی نے سنجوگتا چائی
- سر خم نہیں کرنا ملن رے بھانویں جاں وجودوں جائ
- اتنی کہہ ملن پنوار رے چائی داھڈیاں کی جائ
راجا ملن سی کی سات بیویاں تھیں۔راجا ملن سی کی بیٹیاں ہی تھیں بیٹا نہ تھا جو آگے راج کو سنبھالتا۔ راجا ملن سی نے تمام رانیوں راجپوتنیوں کو چخہ میں جل جانے کود جانے کا حکم دیا۔رانیاں راجپوتنیاں گیت گاتی ہوئ چخہ میں کودنیں لگ گئیں تاکہ جنگ کہ دوران کوئی رانی یا راجپوتنی دشمن کے ہاتھ نہ لگے۔یہ راجپوتوں کا قدیم جوہر ہے۔ راجا ملن سی کی ایک بیوی حاملہ تھیں اور جنگ کہ دوران اس کے ہاں اک راجکمار کی پیدائش ہوئ۔خاندان کے جدی بھاٹ دوڑتے ہوئے عین میدان جنگ میں اس مقام پر پہنچے جہاں راجا ملن سی لڑائ میں مصروف تھا۔جدی بھاٹ نے خوشخبری سنائ کہ رانی رانوتی کے ہاں راجکمار تولد ہوا ہے یہ خبر سن کر راجا ملن سی بہت خوش ہوا گویا جان میں جان آگئ۔ راجا ملن سی دوڑتا ہوا قلعہ کی جانب روانہ ہوا۔اور قلعہ پہنچ کر زنان خانہ میں تشریف لے گئے اور اپنے فرزند کو سینے سے لگایا اور بے اختیار رونے لگا اور کہنے لگا جس کو خاندان کے جدی میراثی یعنی بھاٹ نے اپنی کبت میں یو بیان کیا ہے
- کبت راجا ملن سی*
- فرزند دلبند رے آج کیا خوشی کی بات
- در شدیانے وجدے رے جے ہوندا سکھپات
- بڑا ہوندو سکھ دیوندا رے جنگ رہندی بات
- بچا تیرے بخت دی رے اج کالی رات
- میں راجا مر چلیا رے تو پلیں کس گھات
- سہرا سرے پر بندھے رے تو چڑھیں بارات
- اوپر ملن سی موت رے دشمن کھڑے ثبات
- خوشی مراں جنگ جیونیا جے بدلہ لیں ہاتھ
- مفہوم
کہ بیٹا آج کیا خوشی بات ہے ہر گھر میں خوشیاں ہی خوشیاں ہونی تھیں اگر آج امن کا زمانہ ہوتا۔ کاش کہ تو بڑا اور جوان ہوتا اور میرے ساتھ میدان جنگ میں میرا ہاتھ بٹاتا۔ پر بیٹے آج تیری خوشی کی کالی اندھیری رات ہے۔ میں میدان جنگ میں مارا جاؤ گا مجھے فکر کہ تیری دیکھ بھال کون کرے گا اور کہاں پرورش ہوگی۔ اوپر سر پر دشمن کھڑا ہے میں تو خوشی سے جان دے دو گا پر تجھ سے خوش اس وقت ہوں گا اگر تو دشمن سے میرا بدلہ لے گا۔۔
راجا ملن سی نے سپہ سالار کو ایک ہاتھی مع عماری اور پچیس مہریں زریں اور خلعت خافزہ دے کر رانی رانوتی مع راجکمار قلعہ راوی کی جانب روانہ کر دیا۔رانی رانوتی قلعہ راوی کے وٹووں کی راجکماری تھی۔
- کبت رانی رانوتی*
- سب قبیلہ کٹ گیا رے نام نہ رہ گیا کائی
- مہاراجا کھینگر کی اولاد رے سب تلوار میں آئی
- میں اک رانی جیوند رے موت سر پر آئ
- میں بھی وچ میدان رے جا کراں لڑائ
- رن تھیں نٹھا نام جائے رانی دس کائی
- سر جائے میدان میں رے شرم دا رکھ نہ رہ جائی
- تو راجپوت کی ذات رے تدھ تسن عیب نہ کائ
- جا میکے تو آپ کے رے نام میرا رہ جائی
- رانی غش کھاوندی رے سن راجا دلجان
- وچہ چخہ جل جاواں رے جدا نہ ہوئے جاں
رانی رانوتی روتی ہو قلعہ راوی کی جانب روانہ ہوئی۔اور کہا کہ اگر راجکمار کا فکر نہ ہوتا تو کبھی تجھ سے جدا نہ ہوتی اور تیرے ساتھ ہی ستی ہو جاتی ۔ راجا رانوت سی کی پرورش نانکے میں ہوئ۔جب راجا رانوت سی تقریباً چودہ برس یا اس سے زیادہ عمر کا ہوا تو اسے معلوم پڑا کہ اس کے باپ کو سہو چوہانوں کے راجا نے قتل کیا تھا اور قلعہ پر قبضہ کیا تھا۔معلوم پڑنے کے بعد راجا رانوت سی نے بدلہ لینے اور قلعہ کا قبضہ چھڑوانے کا فیصلہ کیا راجا رانوت سی کی مدد اس کے نانکے پریوار جو وٹو راجپوت تھے نے کی اور راجا رانوت سی عرف راجا راندو کو سپاہیوں کے دستے فراہم کیے۔ راجا رانوت سی عرف راندو کی دلیری اور شجاعت کے چرچہ دور دور تک تھے اس بات کا علم سہو چوہانوں کے راجا کو بھی ہو گیا تو وہ بہت پریشان ہوا کہ یہ ملن سی کا بیٹا ہم سے ضرور بدلہ لے گا لہذا انھوں نے اک چال چلی اور صلح کا پیغام بیجھا اور اپنی بیٹی کا عقد دینے کی پیشکش کی۔لیکن یہ اک چال تھی راجا رانوت سی کو پھنسانے کی۔ منصوبہ یہ تھا کہ جب رانوت سی بارات لے کر قلعہ کے اندر داخل ہوگا تو قلعہ کی دیواروں کے اوپر موجود تیر انداز تیروں کی بوچھاڑ کر کے رانوت سی کو ختم کردینگے پھر کوئی خطرہ نہ رہیگا۔ سہو چوہانوں کے راجا نے پنڈت کو ناریل دے کر قلعہ راوی روانہ کیا۔پنڈت ناریل لے کر قلعہ راوی پہنچا اور راجا رانوت سی المعروف راجا راندو کے نانا سے ملا۔ راجا راندو کے نانا نے رشتہ قبول کر لیا اور کہا کے اگر وہ صلح کرنا چاہتے ہیں تو یہ بہت اچھی بات ہے۔پنڈت خوشی خوشی واپس قلعہ پھولرا کی طرف روانہ ہوا۔ سہو چوہانوں کے راجا کی راجکماری کو اس بات کا علم ہو گیا تھا تو اس نے اپنے خاص ایلچی کو رانوت سی عرف راندو کے پاس بیجھا اور کہا کہ رانوت سی کو اطلاع دو کہ بارات لے کر نہ آئے کیونکہ اس میں اک چال ہے۔ایلچی نے جب رانوت سی عرف راندو کو پیغام دیا تو رانوت سی نے ایلچی کو کہا کہ راجکماری کو جا کر کہہ دو کہ بارات اپنے وقت پر پہنچے گی۔ آخر راجا رانوت سی بارات لے کر قلعہ پھولرا پہنچا لیکن وہاں دشمن کی فوج نے حملہ کر دیا۔ پہلے قلعہ کے باہر لڑائ ہوئ راجا رانوت سی غالب آیا تو سہو چوہانوں کے راجا نے جنگ بندی کی درخواست کی اور قلعہ کے اندر آنے کی دعوت دی کہ اندر تشریف لے آؤ اور راجکماری کا ہاتھ لے لو۔ جب راجا رانوت سی اور اس کی فوج قلعہ میں داخل ہوئ تو قلعہ کا دروازہ بند کر دیا گیا اور ایک میزبان نے کہا کہ آپ سب مہمان گھوڑوں سے نیچے اتر کر نشستوں پر براجمان ہو جائیں۔تو راجا رانوت سی نے کہا کہ ہمارا رواج ہے کہ جب تک میزبان نشستوں پر براجمان نہیں ہوتے اس وقت تک مہمان براجمان نہیں ہوتے۔ اس کے بعد قلعہ کے اندر پھر جھڑپ شروع ہوگئ ہے۔رانوت سی پھر غالب آگیا۔ رانوت سی عرف راندو نے سہو چوہانوں کے راجا یعنی اپنے باپ کے قاتل کی گردن پر تلوار رکھ کر کہا کہ اگر چاہو تو سیکنڈ میں تیری گردن اتار سکتا ہو۔ اس کے بعد سہو چوہانوں کے راجا نے رحم کی اپیل کی۔اور اپنی بیٹی کا ہاتھ دے دیا۔ راجا رانوت سی نے قلعہ موج گڑھ سہو چوہانوں کے راجا کو بخش دیا۔اور معاف کر دیا اور تاکید کی آئندہ میری راہ میں مت آنا۔ راجا رانوت سی عرف راندو کے دس بیٹے تھے اور ایک راجکماری تھی۔ بڑا بلہڑ راؤ. دوسرا پتھراؤ. تیسرا بھرت راؤ. چھوتا گڈن راؤ. پانچواں رتن راؤ. چھٹا چوہدری راؤ. ساتواں چوچک راؤ. آٹھواں چوسا راؤ. نواں شیخا راؤ. دسواں خورم راؤ.[2]
شجرہ نسب
ترمیمرانوت سی بن ملن سی بن وسیر بن کوک سی بن کینگھر راؤ بن دھول دیو بن باز دیو بن کرن دیو بن سورج دیو بن رندھول دیو بن ادادیپ
شخصیات
ترمیم- مولانا نور محمد خاں راندو (مصنف تاریخ راجپوت)
- حافظ قاری لال خاں راندو (روحانی شخصیات)[3]