راگ کافی
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
راگ کافی ٹھاٹھ کافی سے جنیا راگ ہے اس راگ کا قدیم نام تراگنی تھا اس راگ میں ساتوں سر استعمال ہوتے ہیں یعنی آروہ اَوروہ میں سات سات سر لگتے ہیں اس وجہ سے اسے سمپورن پراکرتی کا راگ کہا جاتا ہے راگ کافی میں گندھار اور نکھاد کومل جبکہ باقی سر شدھ استعمال ہوتے ہیں اساتذہ بعض اوقات اس میں کومل نکھاد کی جگہ شدھ نکھاد لگا دیتے ہیں جس سے یہ مشر کافی بن جاتی ہے راگ کافی بہت ہی تسکین آور راگ ہے اس کا وادی سر پنچم اور سموادی سر شڑج یعنی سا ہے گانے کا وقت اس کا رات کا تیسرا پہر یا پھر کسی بھی موسم میں اسے گایا اور بجایا جا سکتا ہے راگ کافی کی چال دُرت یعنی تیز ہے اس راگ کی بُنت میں سر یکے بعد دیگرے درت پراکار یعنی تیزی سے لگائے جاتے ہیں تبھی اس کی شکل نکھرتی ہے راگ کافی کے مزاج سے واقف ہونے کے لیے غلام علی کی گائی ہوئی مشہور غزل چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے سنی جا سکتی ہے واضح رہے کہ راگ کافی سرائیکی صنفِ موسیقی کافی سے بالکل مختلف ہے کافی صنفِ موسیقی عموماً راگ سندھی بھیرویں میں گائی جاتی ہے راگ کافی میں عموماً بھجن، کرتن، دادرا، ٹپہ، ہوری، کاجری اور چیتی جیسی عوامی موسیقی برتی جاتی ہے.
حوالہ جات
ترمیممقالات یکے از نعمان نیئر کلاچوی