تحقیق سے پتہ چلتاہے کہ رائل سیما میں کئی صدیوں سے ادبی نشستوں اور ادبی محفلوں میں بحث وتکرار کے ذریعہ علمی و ادبی فن پاروں کا تنقیدانہ جائزہ لیاجاتا رہا ہے۔ بعض اوقات ایک شعر کے طرزِ اسلوب، زبان و بیان کی باریکیوں کو پرکھاجاتا تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ رائل سیما میں غیر شعوری طور پر ادبی نشستوں کے ذریعہ تنقید کا آغاز ہوا اور اس نے ارتقائی منزلیں بھی طے کیں۔ رائل سیما میں بھی اردو تنقید کا آغاز شاعری سے ہوا ہے۔ اس کے ابتدائی نقوش ہمیں حضرت شاہ میر ثالث کے شعر کہنے کے اسلوب اور دلکش بیانی کی وضاحت میں ملتے ہیں۔ اس نوعیت کے اشعار جس میں تنقیدانہ شعور پایا جاتا ہے وہ یہ ہیں:

شعر کہتا ہے آج کل ہر ایک

شعر سب سے نہیں کہاجاتا

شعر شیریں ہو اور دلکش ہو
ورنہ پانی میں ہے بہاجاتا

شعر باقاعدہ ہو اور بے عیب
شعر بے قاعدہ مٹاجاتا [1]


رائل سیما میں باضابطہ طور پر 1960ء کے بعد جب کئی لوگوں کے شعری مجموعے منظر عام پرّ آئے تو ان میں تنقید کے نمانے صاف نظر آئے۔

’’رائل سیما میں اردو تنقید کا باقاعدہ آغاز و ارتقا پروفیسر رضی الدین کی تصنیف’’نقدِابو الکلام‘‘سے ہوتا ہے۔ آپ کے بعد پروفیسر سلیمان اطہر جاوید نے تمام عمر فنِ تنقید کے مختلف ادبا پر کتابیں تصنیف کیں۔ اور اپنے طلبہ میں تنقیدی شعور پیداکیا۔ پروفیسر موصوف کا یہ امتیازی وصف ہے کہ آپ نے تنقید کے علاوہ عمدہ خاکے بھی لکھے ہیں۔ اور یہان بھی انھیں رائل سیما کے خاکہ نگار ہونے کا شرف حاصل ہوا۔‘‘[2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. کڈپہ میں اردو غزل:از:ڈاکٹر امتیاز احمد۔ ص:30
  2. (مقالہ:رائل سیما میں اردو نثر۔ آزادی کے بعد ص 323-324)