ربوبیت یا الٰہ سے الٰہیت یا خدا پرستی (انگریزی: Deism) ایک عقیدہ جس کے مطابق خدا خالق تو ہے لیکن عالم کی تخلیق کے بعد اُس نے اس کائنات سے اپنا تعلق بالکل توڑ دیا ہے اور وحی اور مکاشفہ سے بھی وہ انسان سے رشتہ نہیں رکھتا۔[1][2][3]

خدا پرستی کا نظریہ توحید پرستی اور وحدت الشہود سے کافی حد تک مماثلت رکھتا ہے۔ یہ خدا کو بیک وقت محیط کُل اور ماوراً دونوں سمجھتا ہے۔ یہ بنیادی طور پر ہیگل کے نام سے منسلک ہے اور اس کا مطلب ہے کہ سب کچھ خدا میں ہے۔ اس نظریہ کے مطابق خدا دنیا کی ہر حرکت میں ہمیشہ موجود ہوتا ہے اور دنیا کے ساتھ قریبی طور پر مربوط ہے۔ چنانچہ، خدا دنیا میں محیط کُل ہے۔ مزید یہ کہ سب کچھ خدا ہے، لیکن یہ سب خدا نہیں۔ خدا دنیا میں محیط کل ہوتے ہوئے بھی اس سے ماورا ہے۔

اس نظریہ کی بنیاد ہیگلی عینیت پسندی کی ٹھوس مابعد الطبيعيات پر ہے۔ ہیگلی عینیت پسندی لامحدود اور محدود، دنیا اور خدا کے مابین تعلق کو نامیاتی (organic) نقطہ نظر سے دیکھتی ہے۔ وحدت الشہود خدا کو اعلٰی ترین شخصیت، خالق، دنیا کو قائم اور محفوظ رکھنے والا کہتا ہے۔

خدا پرستی کی اصطلاح بالکل انہی معنوں میں استعمال ہوتی ہے جن معنوں میں توحیدی پرستی۔ خدا لامحدود ہوتے ہوئے بھی تمام خصوصیات سے متصف ہے، یعنی خالق دنیا کا محافظ اور قائم رکھنے والا۔ دنیا کے ساتھ خدا کے محیط کل تعلق میں زمان و مکاں بھی خدا کے اندر شامل ہوتا ہے، حالانکہ وہ اپنی مطلقیت میں وہ زمان و مکاں سے ماورا ہے۔ محفوظ طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ نظریہ تقریباً دیگر نظریات کا احاطہ کرتا ہے۔ اس خدا پرستی کی حمایت کرنے والے مغربی فلاسفہ میں ڈیکارٹ، لاک، برکلے، جیمزوارڈ اور ہیگل وغیرہ شامل ہیں۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. An Age of Infidels: The Politics of Religious Controversy in the Early United States by Eric R. Schlereth (University of Pennsylvania Press; 2013) 295 pages; on conflicts between deists and their opponents.
  2. Herrick، James A. [بانگریزی] (1997)۔ The Radical Rhetoric of the English Deists: The Discourse of Skepticism, 1680–1750۔ University of South Carolina Press
  3. Deism, Masonry, and the Enlightenment. Essays Honoring Alfred Owen Aldridge. Ed. J. A. Leo Lemay. Newark, University of Delaware Press, 1987.