رد روافض
رد روافض مجدد الف ثانی کی پہلی فارسی تصنیف ہے۔ اس رسالے کا نام اکثر تذکروں میں رد مذہب شیعہ بھی آتا ہے۔
زمانہ تصنیف
ترمیممجدد الف ثانی کی یہ تیسری تصنیف ہے جو آپ نے نقشبندیہ سلسلہ میں بیعت ہونے سے پہلے لکھی تھی رسالہ فارسی زبان میں ہے اور رسالہ اثبات النبوۃ کے بعد اور رسالہ تہلیلیہ سے پہلے لکھا گیا۔ 1002ھ میں تحریر کیا گیا۔ یہ اس زمانے کی تصنیف ہے جب مغل دربار میں شیعہ عناصر کا زور بڑھ رہا تھا اور سلطان وقت اکبر بادشاہ دین اور ارباب دین سے سخت عداوت رکھتا تھا۔ مجدد الف ثانی نے اس فتنہ کے خاتمے کا تاریخی بیڑا اٹھایا۔ آپ نے روافض سے مناظرے کیے۔ یہ رسالہ رد روافض بھی انھی کوششوں کا ایک حصہ ہے۔
وجہ تصنیف
ترمیمخراسان کے روافض نے حضرات صحابہ کے خلاف فتنہ سب و شتم برپا کیا تو علمائے ماوراء النہر نے ان کے خلاف جہاد و قتال کے لزوم کا فتوی صادر کیا۔ 1001ھ میں عبد المومن خان ابن عبد اللہ خان ازبک والی توران نے مشہد و سبزوار کا محاصرہ کیا اور ان کو خوب سزا دی۔ مشہد کے شیعوں نے علمائے ماوراء النہر کے ایک رسالے کا جواب لکھا جس میں شیخین اور صحابہ کرام پر زبان طعن دراز کی گئی۔ یہ رسالہ آپ کے پاس آیا تو آپ نے اس کا جواب موجودہ رسالہ کی صورت میں لکھا۔ اکبری و جہانگیری دور میں مرزا غیاث بیگ اور اس کی نور نظر نور جہاں کی بدولت رافضیت خوب پروان چڑھی۔ امرا سے لے کر عوام تک اس کے اثرات دکھائی دینے لگے۔
شاہ ولی اللہ کی رائے
ترمیمشاہ ولی اللہ دہلوی نے بھی لکھا کہ اس فتنہ روافض کو ختم کرنا مسلمانوں کی گردنوں پر حضرت مجدد الف ثانی کا احسان ہے۔ درحقیقت یہ رسالہ رافضی علما کے اس تردیدی رسالہ کا رد بلیغ ہے۔ پہلے علما ماوراء النہر کا فتویٰ نقل کرتے ہیں پھر شیعہ حضرات کا جواب اور اس کے جواب میں علمائے ماوراء النہر کی تائید میں دلائل و براہین سے اسلامی عقائد و نظریات کو ثابت کرتے ہیں۔[1]
عنوانات مضامین
ترمیماس رسالے کے مضامین کے بعض عنوانات یہ ہیں:
- بعض شیعہ فرقوں اور ان کے عقائد کا بیان
- ان کی تاویلات باطلہ
- علمائے ماوراء النہر کی دلیل
- شیعوں کی جانب سے اس کا جواب
- مجدد الف ثانی کا قول فیصل
- اجتہادی امور میں صحابہ کا اختلاف
- فضائل حضرت ابوبکر
- فضائل حضرت عمر
- فضائل حضرت عثمان
- فضائل حضرت علی کرم اللہ وجہہ
- حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خلیفہ اول ہونے کے بارے میں نص کا وجود ثابت نہیں
- حضرت ابوبکر کی خلافت پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا راضی ہونا
- رسالے کے آخری حصے میں اہلبیت رضی اللہ عنہم کے مناقب و محاسن اور مدائح وفضائل کو بھی بیان کیا گیا ہے۔[2]