تعارف ترمیم

اسلام دین حکمت ہے اس کے احکام و عبادات میں حکمتیں پائی جاتی ہیں ان میں سے بعض ایسی ہیں جن تک ہماری نگاہیں پہنچ جاتی ہیں جب کہ بعض حقیقتیں ایسی بھی ہپیں جنہیں سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے لیکن عرفانی اور اسلامی علوم کے ماہرین ان کی گہرائیوں اور ماہیتوں سے کسی حد تک باخبر ہیں۔عصر حاضر جو سائنس اور ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے جس میں مختلف چیزوں کے حقائق معلوم کرنے کے لیے بڑی کاوشیں کی جارہی ہیں کوئی سمندروں کی گہرائیوں میں اتر کر تحقیقات کررہاہے تو کوئی چاند ستاروں پر کمند ڈالنے کی جستجو میں دکاھئی دیتا ہے ۔

سائنسی علوم کی ترقی کے ساتھ دینی دستورات اور احکام الٰہی سے بھی پردہ اٹھتا جارہاہے جیسے جیسے زمانہ گزررہاہے بشری علم و و دانش کی ترقی کے ساتھ اسلام کی عظمت بڑھتی جارہی ہے یہی وجہ ہے کہ کسی بھی مکتب نے غور و فکر پر اتنا زور نہیں دیا ہے جتنا اسلام نے دیا ہے۔قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اور احادیث مبارکہ میں لوگوں کو غور و فکر کی دعوت دے رہی ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ قرآن مجید تو کفار ومشرکین کی اس بات پر مذمت کرتا ہے کہ وہ غور و فکر کیے بغیر اپنے بزرگوں کی اندھی تقلید کرتے ہیں۔لہٰذا قرآن مجید نے احکا م کے بیان کے ضمن میں ان کی دلیل کی طرف اشارہ کیا ہے اور ائمہ معصومین نے بھی اپنے خطبات اور فرامین میں ان احکام کی حکمتیں بیان فرمائی ہیں اور عالم اسلام کے بڑے بڑے علما ،دانشوروں اور محققین نے اس سلسلے میں عظیم الشان کتابیں لکھی ہیں۔زیر نظر مقالہ حضرت آیت اللہ عبد اللہ جوادی آملی مدظلہ العالی کی مشہور کتاب "حکمت عبادات" سے ماخوذ ہے جس میں انھوں نے مختلف عبادات کے اسرار و رموزکو بیان فرمایا ہے۔ہم نے ماہ مبارک رمضان کی مناسبت سے اس کتاب کے ایک فصل کے کچھ حصے کو یہاں اردو ترجمے کے ساتھ درج کیا ہے تاکہ اردو زبان بولنے والے قارئین بھی استفادہ کرسکیں ۔

پر خوری کی مذمت ترمیم

ماہ مبارک رمضان دنیا کے اسرار و رموز کو جاننے کا ایک بہترین موقع ہے ،لہٰذا انسان کوچاہیے اپنے جسم کو مطلوب غذا پر اکتفاء کرے۔کوئی بھی شخص پرخوری کے ذریعے کہیں پہنچ نہیں سکتا۔اسلام کی اخلاقی تعلیمات میں آیا ہے:{.. مَا مَلأَ آدَمِيٌّ وِعاءً شرًّا مِنَ الْبَطْنِ}[1]انسان کسی ایسے برتن کو نہیں بھرتاجو شکم سے زیادہ بُرا ہو ،پیٹ بھرے انسان کا فہم وشعور کم ہوتا ہے۔زیادہ کھانے والانسان ہر گزشعور نہیں رکھتا اور نہ ہی وہ دنیاکے اسرار و رموز سے باخبر ہوسکتاہے ۔

زیادہ کھانا کھانے سے انسان کے ارادے میں کمی آجاتی ہے اور وہ سست ہوجاتا ہے جبکہ کھاناکھانے میں اعتدال سے کام لیناانسان کی سلامتی ،طول عمر اور دل کی نورانیت کا باعث بنتا ہے۔زیادہ کھانا کھانا جہاں روح کو زیادہ مصروف کردیتا ہے تاکہ اس زائد کھانے کو ہضم کر سکے وہاں جسم کو بھی نقصان پہنچاتا ہے جس کے نتیجے میں انسان وقت سے پہلے مرجاتا ہے ،خلاصہ یہ کہ زیادہ کھاناکھانے والے انسان کی عمر کم ہوتی ہے ۔

زیادہ کھانا کھانے سے انسان تھکاوٹ محسوس کرنے لگتا ہے اور اسے نیند آجاتی ہے۔ جب رسول اکرمﷺ کے اصحاب میں سے کوئی آپ کی خدمت میں شرفیاف ہوتا تھاتو آپ اس سے پوچھتے تھے :{ھَلْ من مبشّرات}[2] گذشتہ رات تو نے کونسا خواب دیکھا ہے جو بشارت کا موجب ہو؟ انسان اس لیے سوتا ہے تاکہ کچھ سمجھے نہ یہ کہ زیادہ کھاکر سوتا رہے ۔

ایک شخص نے پیغمبر اکرم ﷺ کے سامنے ڈکار لی تو آپ نے فرمایا: کم کھایا کرو کیونکہ یہ مناسب نہیں ہے کہ انسان اتنا کھائے کہ بھرے مجمع میں لوگوں کے سامنے ڈکار مارے ۔‘‘

{قَصِّرْ مِنْ جُشَائِكَ فَإِنَّ أَطْوَلَ النَّاسِ جُوعاً يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَكْثَرُهُمْ شِبَعاً فِي الدُّنْيَا}[3]قیامت کے دن وہ لوگ سب سے زیادہ بھوکے ہوں گے جو دنیا میں سب سے زیادہ کھانے والے ہیں ۔‘‘

امیر المومنین امام علی ؑکی زندگی کے حالات میں نقل کیا گیا ہے کہ ایک دن آپؑنے اپنے باغبان سے پوچھا:تمھارے پاس کھانے کے لیے کچھ ہے ؟باغبان نے کہا:میرے پاس انتہائی سادہ کھانا ہے جو آپؑکے شایان شان نہیں ہے ،بغیر تیل کے پکایا ہوا کدو ہے۔ آپؑنے فرمایا: وہی لے آؤ !امامؑنے ہاتھوں کو دھویا اور وہ کھانا تناول فرمایا اور اس کے بعد اپنے پیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: جوپیٹ اس سادہ کھانے سے بھرجاتاہے ! وائے ہو اس شخص پر جس کا پیٹ اسے آگ کی طرف لے جائے ۔[4]

اسلام میں آزادی کی اہمیت ترمیم

ہمارے بزرگوں کا فرمان ہے : اگرچہ روزہ رکھنا سخت اور مشکل کام ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی اس آوازکو سنناکہ جس میں فرماتاہے :{یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ}[5]روزے کی تھکاوٹ کو دور کردیتاہے :{لَذَّةُ مَا فِى النِّدَاءِ أَزَالَ تَعَبَ الْعِبادَةِ وَ الْعَناءِ!}[6]اس آواز کو سنتے ہی ہمارے لیے عبادت آسان ہوجاتی ہے ۔

رسول اکرمﷺ نے ماہ شعبان کے آخری جمعہ کو ایک خطبہ دیا جس میں آپؐنے فرمایا:{ اَیُّهَا النَّاسُ اِنَّ اَنْفُسَكُمْ مَرْهُونَةٌ بِاَعْمَالِكُمْ فَفُكُّوهَا بِاسْتِغْفَارِكُمْ}[7]لوگو تم آزاد نہیں ہو ؛تم پنجروں میں قید ہو لیکن تم جانتے نہیں ہو کہ قید ہو۔تمھارے گناہوں نے تمھیں جھکڑرکھا ہے۔ماہ رمضان میں استغفار کے ذریعے خود کو رہائی دلاؤ۔

گناہگار انسان مقروض ہوتاہے اور مقروض کے لیے گروی رکھوانا ضروری ہوتا ہے۔یہاں گھر ،زمین اور دوسری چیزیں گروی نہیں رکھی جاتی ہیں بلکہ انسان کی جان کی گروی قبول کی جاتی ہے۔جو شخص یہ کہتا ہے کہ میں جو چاہوں کرتاہوں،جہاں چاہوں جاتاہوں،جو چاہوں بولتا ہوں وہ اسیر ہے ،آزاد نہیں ہے وہ اپنی خواہشات کے ہاتھوں اسیر ہے اور خواہشات کا غلام ہے ۔

دین مقدس اسلام میں آزادی کو جتنی اہمیت حاصل ہے اتنی اہمیت کسی اور چیز کو حاصل نہیں۔امیر المومنین ؑفرماتے ہیں :{مَنْ تَرَکَ الشَّھَوَاتِ کَانَ حُرّاً}[8]وہ شخص آزاد ہے جو اپنی شہوتوں کو ترک کر دے ۔‘‘

ائمہ معصومینؑ نے اپنے بے شمار فرامین میں ہمیں آزادی حاصل کرنے کا درس دیا ہے۔بیرونی دشمن سے آزادی حاصل کرنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں بلکہ اہم بات اندرونی دشمن سے آزادی حاصل کرنا ہے۔میںآزادہوںیا غلام یہ جاننے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اگر میں اپنی خواہشات کی پیروی کرتاہوں تو اس سے معلوم ہوگا کہ میں لالچ اور حرص کے پنجرے میں قید ہوں اور اگر اللہ کی مرضی کے مطابق عمل کرتاہوں تو اس کامطلب ہے کہ میںآزاد ہوں۔ایک آزاد انسان اللہ کی ذات کے علاوہ کسی اور کے بارے میں نہیں سوچتا ۔

ماہ مبارک رمضان کی اہم ترین ذمہ داریوں میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو گناہوں سے آزاد کرادے نیز ان فولادی پنجروں کو جنہیں خود اپنے ہی ہاتھوں سے بنایا ہے توڑدے ۔

آزادی کا دارومدار استغفار اور طلبِ بخشش پر ہے اس لیے کہا گیا ہے کہ :انسان کو دن رات میں کئی مرتبہ کہنا چاہیے{اَسْتَغْفِرُ اللہ رَبِّی وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ}انسان کو حالت نماز اور غیر نماز میں اپنی اور دوسروں کی بخشش کی دعامانگی چاہیے۔یہ صرف جہنم کی آگ سے بچنے یا بہشت میںجانے اور اللہ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے نہیں بلکہ انسان کو اس سے بھی بڑا ہدف سامنے رکھنا چاہیے ۔

اسلامی انقلاب بھی آزادی حاصل کرنے کے لیے آیاتھالیکن خدا کی بندگی سے آزادی نہیں بلکہ انقلاب اس لیے آیاتھا کہ ہم خدا کے بندے بن جائیں نہ کسی اور کے۔دین کو دوسروں کی اجارہ داری سے نجات دلائیں تاکہ وہ صرف خدا کے اختیار میں رہے ۔

امیر المومنین ؑ جناب مالک اشتر کے نام اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں :{اِنَّ ھَذَالدِّیْنَ كَانَ أَسِيراً بِأَيْدِي الْأَشْرَارِ يُعْمَلُ فِيهِ بِالْهَوَى وَ تُطْلَبُ بِهِ الدُّنْيَا}یہ دین بہت دنوں اشرارکے ہاتھوں میں قیدی رہ چکاہے جہاں خواہشات کی بنیاد پر کام ہو تا تھا اور مقصد صرف دنیا طلبی تھا۔

جو لوگ دنیا میں شکست سے دوچار ہوجاتے ہیں وہ اپنے نفس کے ہاتھوں اسیر ہوتے ہیں۔جو ایک طرف دنیا میں ہمیشہ رہنے کی خواہش کرتے ہیں اور دوسری طرف آزاد ہونے سے ڈرتے ہیں۔دین اسلام نے ان دونوں بنیادی باتوں کو محکوم کرتے ہوئے دوسری دو بنیادی چیزوں کو ان کی جگہ رکھ دیا ہے :ایک یہ کہ فطرت سے دل لگی نہ کی جائے اور دوسری بات یہ کہ غیر فطری چیزوں سے نہ گھبرایاجائے ۔

امیر المومنینؑ فرماتے ہیں :{أَلاَ حُرٌّ يَدَعُ هَذِهِ اللُّمَاظَةَ لِأَهْلِهَا}[9]کیا کوئی ایسا آزاد مرد نہیں ہے جو دنیا کے اس چپائے ہوئے لقمہ کو اس کے اہل کے لیے چھوڑدے؟ آج دنیا نام کی جو بھی چیز پائی جاتی ہے جیسے مقام و منصب،گھر،زمین ،دولت اور دیگر تمام چیزیں وہ ہیں جن سے گذشتہ نسلوں نے استفادہ کیا ہے یہ تمام جھوٹی چیزیں ہیںجو تم تک پہنچ گئی ہیں۔آج روئے زمین پر پائی جانے والی تمام چیزیں یہ مقام و منصب،یہ مال و دولت، یہ توہمات اور خیالات سب کے سب جھوٹیں چیزیں ہیں ایک آزاد منش انسان کو ان چیزوں سے دور رہنا چاہیے ۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوتاہے :{كُلُّ اِمْرَىءٍ بِمَا كَسَبَ رَهَينٌ }[10]یا{كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِیْنَة} ہر جان اپنے کمائے ہوئے اعمال کی گروی ہے۔صرف ایک گروہ آزاد ہے :{إِلا أَصْحَابَ الْيَمِينِ}[11]اصحاب یمین وہ لوگ ہیں جو یمن و برکت کے ہم نشین ہیں۔ان سے برکت کے علاوہ کسی اورچیز کی توقع نہیں کی جا سکتی ہے اوران کا بھی یمن و برکت کے سوا کسی اور چیز سے کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ ایک بہترین نعمت ہے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسے حاصل کرنے کا حکم دیا ہے ۔

رمضان کا مہینہ آزاد ہونے کا مہینہ ہے۔لہٰذا ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنے ہاتھوں پر باندھے  ہوئے ایک ایک گ رہے کو کھلوانا چاہیے تاکہ ہم آزاد ہوسکیں۔آزادی حاصل کرنے کی بہترین راہ عبادات کی حکمت کو سمجھنا ہے

روزہ اور اس کا صلہ ترمیم

بعض روایات میں آیاہے کہ روزہ رکھو تاکہ رمضان سے ہٹ کر نظر آنے والی اس ترو تازگی ،مسرت اور شادابی کو کھو سکو کیونکہ یہ جھوٹی اور بہت جلدی زائل ہونے والی خوشیاں ہیں۔جب انسان روزہ رکھتا ہے اور اس سے دلگی کرتا ہے تو آہستہ آہستہ اس کے باطن تک رسائی حاصل کرتا ہے اور روزے کا باطن انسان کو لقائے حق کی طرف کھینچتا ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے :{اَلصَّوْمَ  لِي وَاَنَا اَجْزِي بِہِ}[12]روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کااجر دیتا ہوں۔یہ تعبیر صرف روزہ کے بارے میں پائی جاتی ہے ۔

اس کائنات میں موجود تمام اشیاء اور موجودات کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔دنیا میں کوئی ایسی چیزنہیں پائی جاتی جوخدا کی نہ ہو کیونکہ ہر چیز کا مالک اور خالق خداکی ذات ہے۔ہماری آنکھیں اور کان سب اللہ ہی کے ہیں :{أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ ‘‘[13]

امیر المومنین فرماتے ہیں :{ أَعْضَاؤُكُمْ شُهُودُهُ وَ جَوَارِحُكُمْ جُنُودُهُ وَ ضَمَائِرُكُمْ عُيُونُهُ وَ خَلَوَاتُكُمْ عِيَانُهُ}[14]ہوشیار ہوجائیں اور یہ جان لیں کہ تم خلوت میں ہوں یا جلوت میں ،چھپے ہوئے ہوں یا آشکار ہمیشہ خدا کی نگاہوں کے سامنے ہو اور تمھاری تنہائیاں بھی اس کی نگاہ کے سامنے ہیں۔

اس کائنات میں کوئی ایک بھی ایسی چیز نہیں جو خدا کا ذکر نہ کرتی ہو ہر چیز خدا کو یاد کرتی ہے۔صرف یہ انسان ہی ہے جو کبھی کبھار غافل ہوجاتاہے اور کبھی خدا کو یاد کرتا ہے۔فرشتے انسانوں کی سانسیں گن رہے ہوتے ہیں کہ آخر یہ انسان کس لیے سانس لے رہے۔جب قرآن کے مطابق یہ ساری کائنات خدا کی مِلک و مُلک ہے تو ہمارے اعضاء و جوارح بھی خدا کے لشکر ہیں :{وَ لِلهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ}[15]

یہ جو فرمایا کہ روزہ میرے لیے ہے اس میں ایک پیغام ہے جس پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔ کبھی کبھار انسان سحر سے افطار تک بہت ساری چیزوں سے پرہیز کرتا ہے ،یہ روزے کا ایک درجہ ہے ،یہ ایک ایسی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ قیامت کے دن جہنم سے بچ سکتا اور بہشت میں داخل ہو سکے گا وہ بہشت ’’جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ}[16]لیکن وہ بہشت {فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي }[17]تک پہنچ نہیں سکتا ۔

یہ حدیث انسان کے اندر شوق پیدا کرتی ہے تاکہ وہ عاشق ہوجائے۔جب تک انسان مشتاق نہیں ہوتا ہے وہ جدوجہد نہیں کرتا اور بغیر جدوجہد کے وہاں تک پہنچ نہیں سکتا۔جب روزہ خدا کے لیے ہوا تو روزہ دار کی جزا بھی خدا نے اپنے ہی ذمے لی ہے ۔

مرحوم علامہ محمد باقر مجلسی ؒ ایک فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سارے دوسرے عقلی اور اسلامی علوم کے بھی ماہر تھے کہتے ہیں کہ :اللہ تعالیٰ نے صرف یہ کہنے پر اکتفاء نہیںکیا ہے کہ {اَلصَّومُ لِی}بلکہ فرمایا ہے کہ {اَنَا اَجْزِي بِہِ}متکلم وحدہ کی ضمیر کو فعل سے پہلے لایا ہے اور لفظ{اَنَا}کے ذریعے اپنا تعارف کراتے ہوئے فرمایاہے کہ:روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجردینے والاہوں ۔‘ ‘[18]

ثواب حاصل کرنے کا طریقہ ترمیم

اولیائے الٰہی جو مستحب روزے رکھتے تھے اور اپنی افطاری مسکینوں ،یتیموں اور اسیروں کو دیتے تھے ان کے لیے تو{جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ}[19]ہے ،فرماتا ہے کہ{فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي}ان کے لیے ہے جو کسی بڑے مقصد کے لیے روزہ رکھتے ہیں لیکن جو لوگ جنت کے حصول اور وہاں کے لذیز میوہ جات سے لطف اندوز ہونے کے لیے روزہ رکھتے ہیں وہ اس قسم کی تجارت کرتے ہیں ۔

روزہ اور دوسری عبادات میں فرق یہ ہے کہ دوسری عبادات بجالانے والوں کے مرتے وقت اللہ کے فرشتے ان کے استقبال کو آتے ہیں اور کہتے ہیں :{سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْھَا خَالِدِیْنَ}[20]بہشت کے دروازوں کو کھولتے ہیں اورکہتے ہیں جس دروازے سے چاہو داخل ہو جاؤلیکن روزہ دار کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :میں خود اس کی جزا دؤں گا ۔‘‘اس کا تعلق روزہ کے احکام اور آداب سے نہیں اس لیے نہ تو واجب اور مستحب کے بحث میں جسے فقہ بیان کرتا ہے ایسی کوئی بات آئی ہے اور نہ ہی آداب روزہ کے بحث میں بلکہ اس کا تعلق عبادت کی حکمتوں سے ہے کہ انسان کیونکر اس مقام تک پہنچ سکتاہے کہ اللہ تعالیٰ بلاواسطہ اس کے اجر کو اپنے ذمہ لے لیتا ہے ۔

ابن اثیر کہتا ہے :اللہ تعالیٰ نے اس حدیث قدسی{اَلصَّوْمُ لِي وَاَنَا اَجْزِي بِہِ}میں جو ایک نکتہ بیان فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ کسی بھی مشرک اور بت پرست قوم نے اپنے بتوں کے لیے روزہ نہیں رکھا ہے اگرچہ وہ بتوں کے لیے نمازیں پڑھتے تھے،قربانی کرتے تھے اور دوسرے اعمال بجا لاتے تھے۔روزہ صرف خداکے لیے ہے کسی بھی مشرک اور بت پرست نے بتوں کی قربت حاصل کرنے کے لیے روزہ نہیں رکھا ہے کیونکہ روزہ اللہ کا حکم ہے۔تمام عبادات میں شرک کیا گیا ہے یعنی غیر خدا کے لیے بھی انجام دیا گیاہے لیکن اللہ تعالیٰ نے روزہ کی نسبت اپنی طرف دی ہے اور روزہ دار کے اجر کو بھی اپنے ہی ذمے لیا ہے ۔[21]

تقویٰ اور لقاء حق کے درجات ترمیم

روزہ اس لیے ہے کہ انسان تقویٰ تک پہنچ جائے:{لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ}[22]صاحب تقویٰ انسان کے لیے دو درجے ہیں :ایک وہی بہشت ہے جس میں انواع و اقسام کی نعمتیں پائی جاتی ہیں:{اِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَ عُيُونٍ }[23]یہ ظاہری لذتوں کے لیے ہے اور دوسرا درجہ اور مقام عنداللہ ہونا ہے :{فِیْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیْكٍ مُّقْتَدِرٍ}[24]اس مقام پر سیب اور خوبانی کی باتیں نہیں ہیں کیونکہ جنت ،نہر ،ماکولات اور مشروبات کا تعلق جسم اور بدن کے ساتھ ہے لیکن لقائے حق کا تعلق روح سے یہ روزے کا باطن اور اس کا راز ہے ۔

امام جعفر صادق کا فرمان ہے :{ لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ فَرْحَةٌ عِنْدَ اِفْطَارِهِ وَ فَرْحَةٌ عِنْدَ لِقَاءِ رَبِّه}[25]روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں،ایک افطار کے وقت حاصل ہوتی ہے اور دوسری پروردگار سے ملاقات کے وقت ۔

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں : {لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ فَرْحَةٌ حِينَ يُفْطِرُ وَ فَرْحَةٌ حِينَ يَلْقَى رَبَّه‏}[26]روزہ دار بعض دعاؤں میں اللہ تعالیٰ سے جمالِ کل مانگتا ہے :{اَللَّهُمَّ اِنِّي اَسْاَلُكَ مِنْ جَمالِكَ بِاَجْمَلِهِ وَكُلُّ جَمالِكَ جَمِيلٌ }[27]فارسی زبان کے مشہورشاعر نظامی گنجوی عشق حقیقی اور مجازی کے بیان میں کہتے ہیں کہ:آخر کار جب لیلی بیمار ہوئی تو اس نے اپنی ماں سے وصیت کرتے ہوئے کہا :امی جان میرا یہ پیغام مجنون تک پہنچاؤاور اسے کہو کہ : اگر کسی کو پسند کرنا چاہتے ہو تو کسی ایسی چیز کو پسند مت کرنا جو ایک بخار کے نتیجے میں ختم ہوجائے ۔

افسوس ہے کہ انسان خدا کے سوااپنے آپ سے یاکسی بھی دوسری متغیر چیز سے دل لگا بیٹھے کیونکہ خدا کے سوا ہر چیز نے فنا ہونا ہے کوئی بھی چیز انسان کی جزا بن نہیں سکتی ہاںروزے کی جزا لقائے حق ہے ۔

ہم سے کہا گیا ہے کہ :جمال مطلق کو ماہ مبارک رمضان میں سحر کے وقت طلب کریں صرف سننے پر اکتفاء نہ کریں کیونکہ سننے اور مانگنے میں فرق ہے۔انسان کو کتنا بلند مقام حاصل ہے کہ اس سے کہا گیا ہے کہ وہ یہ کہے کہ :{اَللَّهُمَّ اِنِّي اَسْاَلُكَ مِنْ نُورِكَ بِاَنْوَرِهِ وَكُلُّ نُورِكَ نَيِّرٌ}ماہ مبارک رمضان میں ہمیں ان دعاؤں کی تعلیم دی گئی ہے اس لیے کہ روزہ دار انسان میں اس طرح کی گفتگو کی صلاحیت پائی جاتی ہے اور وہ اپنے منہ سے یہ کہہ سکتاہے کہ:{اَللَّهُمَّ اِنِّي اَسْاَلُكَ مِنْ جَلالِكَ بِاَجَلِّهِ وَكُلُّ جَلالِكَ جَلِيلٌ}[28]یہاں حوروں اور غلمانوں،سیب و ناشپاتی ،جنّات اور نہروں کی باتیں نہیں ہیں بلکہ معنوی مقامات سے متعلق گفتگو ہورہی ہے۔انسان کے لیے یہ مقام خاص ہے اگر ہمارے لیے یہ مقامات نہ ہوتے تو ہم سے یہ دعائیں مانگنے کے لیے نہیں کہا جاتا۔پس اس مقام تک پہنچا جاسکتاہے ،جیساکہ ایک مستحب روزہ رکھ کر اپنی افطاری ایک غیر مسلم قیدی کو دیکر اس مقام تک پہنچا جاسکتاہے ۔

فقہ اسلامی کے احکام کا ایک حصہ ’’وقف‘‘ سے متعلق ہے ،جس میں فقہائے کرام نے یہ واضح کیا ہے کہ انسان اپنے کسی باغ،دکان یا کسی اور چیز کوکفار کے استفادہ کے لیے وقف کرسکتاہے !اور یہ کام بذات خود ایک عبادت ہے مگر یہ کہ کافر ،کافر حربی یا مھدورالدم ہو ۔

پیغمبر اکرمﷺ کا فرمان ہے کہ :{لِكُلِّ كَبِدٍ حَرَّى أَجْرٌ}[29]اسی حدیث کی بنیاد پر فقہ کی کتابوں میں کہا گیا ہے کہ:اگر انسان کسی بھوکے حیوان کوگھاس کھلائے یا کسی پیاسے درندے کو پانی پلائے تو اس کا اجرجنّت ہے ۔

اگر کوئی شخص ایک مستحب روزہ رکھے اور اپنے ہاتھ کی کمائی ایک روٹی کی شکل میں حاصل کرے اور کسی قیدی کو دیتے ہوئے کہے :{اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللهِ }[30]کیونکہ {فَاَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللہِ}[31]یہ ممکن ہے اگر خانوادہ عصمت و طہارت کی ایک خادمہ یعنی جناب فضہ اپنے حصے کا کھانا صدقہ کرکے اس مقام تک پہنچ سکتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم بھی اس مقام تک پہنچ سکتے ہیں اگرہم نے اپنے آپ کو اس سے کم قیمت پر بیچا تو گویا ہم نے اپنا نقصان کیا ہے ۔

انسان کی اہمیت ترمیم

مرحوم کلینی ؒ نے امام موسیٰ کاظم ؑسے ایک لطیف روایت نقل کی ہے اورمرحوم محقق داماد نے اس روایت کی ایک لطیف شرح بیان کی ہے۔وہ حدیث یہ ہے:{اِنَّ اَبْدَانَکُمْ لَیْسَ لَها ثَمَنٌ اِلّا الجَنَّةَ فَلَا تَبِیْعُوْهَا بِغَیرِها}[32]تمھارے بدن کی قیمت بہشت ہے ؛اسے بہشت کے علاوہ کسی اور چیز کے بدلے مت بیچو ،ایسا کیا تو آپ کا نقصان ہوگا۔

مرحوم محقق داماد ؒ فرماتے ہیں:اس روایت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی روح جنت سے بالا تر ہے۔روح کو {جَنَّۃُ اللِّقَاءِ}کے حوالے کیجئے۔آپ اپنی روح کو {عِنْدَ مَلِیْک مُقْتَدَرٍ} تک پہنچائیے اور عنداللہ ہونے کا بہترین طریقہ روزہ رکھنا ہے۔[33]

روزے کا باطن لقائے الٰہی کی صورت میںظاہر ہوتا ہے اور ایک انسان کے لیے لقائے حق سے بڑھ اور کوئی نعمت ہونہیں سکتی کیونکہ انسان ایک ابدی موجود ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا ہے بلکہ آخر میں ایک دنیا سے دوسری دنیا میں منتقل ہوجاتا ہے۔ اگر اسے روزے کا باطن نصیب ہوجائے تو اسے مستقل طور پر بارگاہ الٰہی میں جگہ ملتی ہے۔بہشت میں زرّہ برابر بھی کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔اصولاً وہاں پر کسی قسم کی کوئی پریشانی کاوجود بھی نہیں پایا جاتاہے خواہ ظاہری بہشت{جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ}ہو یا معنوی بہشت۔انسان کسی تکلیف،تھکاوٹ اور پیاس و بھوک کا ذائقہ چکھے بغیرطمانیت کی خوشی محسوس کرتا ہے بہشت کے حالات دنیا جیسے نہیں ہیں۔

مشکلات کے حل میں روزہ کا کردار ترمیم

چونکہ زندگی کے راستے میں مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لہٰذاہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ان مشکلات اور پریشانیوں کے وقت روزہ رکھیں۔

یعنی اگر ہم ہرنماز میں اللہ تعالیٰ سے کئی مرتبہ مدد مانگتے ہیںاور کہتے ہیں کہ:{اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ}تو اللہ تعالیٰ نے اپنی مدد کا طریقہ بتلایا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ آپ کہیں :مدد کرو ! تو ہم مفت میں مدد کے لیے پہنچ جائیں اگر تم {اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ}کہتے ہوتو اس کا طریقہ قرآن نے ہمیں سکھایا ہے وہ یہ کہ{وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ}[34]یہاں پر صبر سے روزہ مراد لیا گیا ہے اور ایک حدیث میں آیاہے کہ:{اِذَا نَزَلَتْ بِالرَّجُلِ النَّازِلَةُ وَ الشَّدِيدَةُ فَلْيَصُمْ}[35]جب بھی کسی پر کوئی مشکل آپڑے یا کوئی حادثہ رونما ہوجائے تو اسے روزہ رکھنا چاہیے ۔

صرف جنگ ہی نہیں بلکہ انسان کو دوسری کوئی مشکل درپیش ہو تو اس مشکل سے چھٹکارا پانے کے لیے روزہ رکھنا چاہیے۔روزہ کس طرح انسان کی مشکل کو حل کرسکتاہے ؟روزہ انسان کو کہاں تک پہنچاتا ہے کہ و ہ ان مشکلات سے کامیابی کے ساتھ نکلتا ہے؟یہ تو صرف ظاہری امساک کا نتیجہ ہے جبکہ روزے میں ایسی حکمتیں پوشیدہ ہیں کہ وہ روح کو بہت ہی اونچے مقام تک پہنچاتا ہے اور اعلیٰ روح فطرت پر قابو رکھتی ہے ۔

اگر کوئی خدا کے لیے روزہ رکھے تو چونکہ تمام امور اسی کے ہاتھ میں ہیں اور وہ مشکل کو حل کردیتا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ:{یَا مُسَهَّلَ الْاُمُوْرِ الصِّعَاب}[36]قرآن میں بھی ارشاد ہوتا ہے :{فَاَمَّا مَنْ اَعْطَی وَ اتَّقَیٰ  وَ صَدَّقَ بِالْحُسْنٰی فَسَنُیسِّرُهُ لِلْیسْرَی}[37]جو لوگ صراط مستقیم پر گامزن ہیں ہم ان کے کاموں کو آسان کردیتے ہیںاور اس کی مثالوں کو انبیا کرامؑ کی صور ت میں ہمارے لیے بیان کیا ہے ۔

جب حضرت موسیٰؑ اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتے ہیں:{وَ یَسِّرْ لِیْ اَمْرِیْ}تو اس کے جواب میں اشاد ہوتاہے:{قَالَ قَدْ أُوتِيتَ سُؤْلَكَ يَا مُوسَىٰ}تم نے فرعوں پر کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہم سے مدد مانگی ہے ہم نے تمھاری درخواست منظور کر لی اور تم نے ہم سے جس چیز کی درخواست کی تھی تمھیں دے دی گئی ہے؛شرح صدر،زبان کی روانی،امور رسالت میں مدد کے لیے بھائی کی وزارت نیز خاص وحی کے حامل قرار دینا سب کچھ عطا کیاہے ۔

پیغمبر اکرمﷺ کے بارے میں ارشاد اقدس الٰہی ہوتاہے :{أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِي أَنْقَضَ ظَهْرَكَ وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ }1 کیا ہم نے آپ کے لیے آپ کا سینہ کشادہ نہیں کیا؟ اور ہم نے آپ سے آپ کا بوجھ نہیں اتاراجس نے آپ کی کمر توڑ رکھی تھی؟اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر بلند نہیں کیا؟قرآن کریم نے ان راستوں کو ہمارے اختیار میں قرار دیا ہے کیونکہ روزہ کا باطن اس قدر طاقتور ہے کہ وہ (اذن الٰہی سے )انسان کو اس طبیعی دنیا پر کامیاب کردیتا ہے ۔

روزہ دار کے لیے فرشتوں کی دعا ترمیم

روزہ دار کے حق میں دعاکرنے پر فرشتے مامور ہیں۔پیغمبر اکرمﷺ کا فرمان ہے کہ:{اِنَّ اللهَ عَزَّ وَ جَلَّ وَكَّلَ مَلَائِكَتَهُ بِالدُّعَاءِ لِلصَّائِمِينَ وَ قَالَ: أَخْبَرَنِي جَبْرَئِيلُ  عَنْ رَبِّهِ اَنَّهُ قَالَ: مَا اَمَرْتُ مَلَائِكَتِي بِالدُّعَاءِ لِأَحَدٍ مِنْ خَلْقِي اِلَّا اسْتَجَبْتُ لَهُمْ فِيهِ}[38]اللہ تعالیٰ نے کچھ فرشتوں کو اس کام پر مامور فرمایا ہے کہ وہ روزہ داروں کے لیے دعا کریں۔جبرئیل امین نے یہ خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:میں نے اپنے فرشتوں کو دعا کا حکم ہرگز نہیں دیا ہے لیکن جہاں حکم دیا ہے وہاں ان کی دعا قبول کی ہے۔انسان کے حق میں فرشتوں کی دعا ایک بہت ہی بڑی سعادت کی بات ہے ۔

            تو فرشته شوی ار جهد کنی از پی آنک                                برگ توتست که گشتست به تدریج اطلس

                                                                                                                        سنائی غزنوی[39]

اس دنیا میں جب شہتوت کے پتے سے حریر بناسکتاہے یعنی ایک کیڑاشہتوت کے پتے سے ریشم بناسکتاہے تو انسان کو فرشتہ بھی بنایا جاسکتاہے۔یعنی اس طرح ترقی پانا ممکن ہے کہ ایک کیڑاشہتوت کے پتے سے ریشم بناسکتاہے!

قرآن مجید میں ارشاد ہوتاہے :جنّت میں ایسے فرش پائے جاتے ہیں جن کا استر ریشم کا ہوگا۔اب خدا ہی جانتاہے کہ اس فرش کے ابرے (یعنی اوپر کا حصہ)پر کیا ہے ؟بہشتی فرش کا استر بھی ہوتاہے اور اُبرا بھی {مُتَّكِئِينَ عَلَىٰ فُرُشٍ بَطَائِنُهَا مِنْ إِسْتَبْرَقٍ}[40]اس فرش کا استر استبرق،ریشم اورقیمتی حریر کا بناہوا ہے لیکن اس فرش کا ظاہر کیا ہے؟کیونکہ عالم طبیعت میں حریر،ریشم اور استبرق سے زیادہ قیمتی اور معیاری کپڑا نہیں پایا جاتاہے جس کی ہمیں تشویق دلائی جاسکے۔لہٰذا یہ نہیں بتلایا کہ اس کے اندر کیا ہے! اسے وہاں جاکر ہی دیکھا جاسکتاہے ۔

وہ فرش جس کا باطن حریر ہے وہ بھی ایسا حریر جسے ریشم کے کیڑے نے بنانہیں ہے بلکہ نماز اور روزہ نے اسے بنا ہے۔جس حریر کو ریشم کا کیڑا بنتا ہے اسے کوئی اور کیڑا نقصان پہنچاسکتاہے لیکن نماز اور روزے کے بنے ہوئے حریر کو کوئی بھی چیز نقصان نہیں پہنچاسکتی ہے۔البتہ یہ فرش جنت کی جسمانی لذتوں میں سے ہے۔لیکن وہ{جَنَّۃُ اللِّقَاءِ}جس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے وہ روزے کا باطن ہے جس کے بارے میں فرمایا:{اَلصَّوْمُ لِي وَاَنَا اَجْزِي بِہِ}[41]فرشتے روزہ دار کے لیے جو چیز مانگتے ہیں وہ روزے کا باطن ہے۔

قرآن کریم فرشتوں کے متعلق فرماتاہے :{وَ مَا مِنَّا اِلَّا لَہٗ مَقَامٌ مَّعْلُوْمٌ}[42]ہر فرشتہ کو ایک مقام حاصل ہے۔جو فرشتہ مخلص اور روزہ داروں کے لیے دعا پر مقر رہے وہ غیر روزہ داروں کے لیے دعا کرنے والے کے علاوہ کوئی اور ہے اسی طرح خود فرشتوں کے درجات اور ان کی دعاؤں میں بھی فرق ہے ۔

روزہ دار کے منہ کی خوشبو ترمیم

امام جعفر صادق سے روایت کی گئی ہے:{اَوْحَى اللهُ (عَزَّ وَ جَلَّ)اِلَى‏ مُوْسَىٰ‏عَلَيْهِ السَّلَامُ:مَا يَمْنَعُكَ مِنْ مُنَاجَاتِي؟ فَقَالَ: يَا رَبِّ اُجِلُّكَ عَنِ الْمُنَاجَاةِ لِخُلُوفِ فَمِ الصَّائِمِ فَأَوْحَى اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ إِلَيْهِ: يَا مُوسىٰ‏،لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدِي مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ }[43]

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو وحی کی کہ مجھ سے مناجات کیوں نہیں کرتے؟موسیٰ نے عرض کی:اے میرے اللہ میں روزے سے ہو ں جس کی وجہ سے میرا منہ معطر نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اے موسیٰ ! روزہ دار کے منہ کی بومیرے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ خوش کن ہے۔کیا انسان اس عالم میں طیب اور معطر ہونا نہیں چاہتاہے وہاں تو ہرنی اور اس کانافہ نہیں ہے جس سے عطر نکال سکیں۔وہاں پر روزہ ہی انسان کو معطر کردیگا۔روزہ کا باطن عطر بن جائے گااور وہ بھی پورے بدن میں۔اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا یہ خدا جانتا ہے ۔

امام جعفر صادق ؑسے روایت کی گئی ہے کہ اگر گرمی کے موسم میں کوئی شخص روزہ رکھے اور اسے روزہ لگے تو اللہ تعالیٰ ہزار فرشتوں کو مامور کرتا ہے کہ وہ اس کے چہرے کو چھوتے رہیں اور افطار کے وقت اسے خوشخبری دیںاور افطار کے وقت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :{مَا اَطْيَبُ رِيحَكَ وَ رَوْحَكَ مَلاَئِكَتِي اِشْهَدُوا اَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَهُ}کتنی اچھی خوشبو ہے! اے میرے فرشتو گواہ رہنا میں نے اسے بخش دیا۔‘‘

روزے کا باطن اسے اس مقام پر پہنچادیتا ہے کہ وہ خدا سے مخاطب ہونے لگتا ہے اگر اب تک وہ ’’یاا للہ ‘‘ کہتا تھا تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ اسے کہتا ہے :’’یا عبدی‘‘اگر اللہ تعالیٰ کسی چیز کی عظمت کی تعریف کریں تو پھر اسے ’’مشک‘‘ سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی ہے:{ فَاِنَّ المِسْكَ بَعضُ دَمِ الغَزَالِ }مشک ہرنی کے خون کی ایک دھا رہے اس کا اس عطر سے جس کی تعریف اللہ تعالیٰ کرے کوئی موازنہ نہیں ہے ۔

دوسری طرف قرآن مجید کے چند ایک مقامات پر آیاہے کہ موت کے وقت فرشتے کچھ لوگوں کے چہرے اور پیٹھ پر مارتے ہیں !{يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ}[44]

مرحوم شیخ محمد علی شاہ آبادی ؒجو امام خمینی ؒ کے استاد بھی ہیں نے عرفانی علوم پر کئی ایک کتابیں لکھی ہیں،ان میں سے ایک کتاب جس کا نام ’’شذرات المعارف ‘‘ ہے میں لکھتے ہیں :موت کے وقت فرشتے ان لوگوں کو مارتے رہتے ہیں جنھوں نے اس دنیا میں کوئی کام نہ کیا ہو اور یہاں سے کچھ حاصل نہ کیا ہو ،جوفرشتے دنیا پر موکّل ہیں وہ زورسے ان لوگوں کی پیٹھ پر دھکا دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دنیا میں تمھارا وقت ختم ہو چکا ہے یہاں سے نکل جاؤ،جو فرشتے اس عالم پر موکّل ہیں وہ جب دیکھتے ہیں کہ آنے والاشخص خالی ہاتھ اور سیاہ چہرے کے ساتھ آرہاہے تو اس کے چہرے پر مارتے ہوئے کہتے ہیں دنیا میں اتنا عرصہ رہنے کے باوجود خالی ہاتھ کیوں آئے ہو؟![45]

رمضان خدا کا نام ترمیم

امام علی رضا نے اپنے اجداد سے اور انھوں نے جناب امیر المومنین سے روایت کی ہے کہ ایک دن رسول اکرمﷺ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایاکہ:{اَیُّھَا النَّاسُ قَدْ أَقْبَلَ إِلَيْکُمْ شَهْرُ اللہِ}[46]خدا کا مہینہ تمھاری طرف آرہاہے کیونکہ اس مہینے میں خدا کے لیے روزے رکھے جاتے ہیں اور یہ روزوں کا مہینہ ہے۔ ماہ مبارک رمضان کو {شَھْرُ اللہِ}کا نام دیا گیا ہے جس طرح رجب المرجب کو ’’ولایت کا مہینہ ‘‘ اور شعبان المعظم کو ’’نبوت اور رسالت کے مہینے ‘‘ کانام دیا گیا ہے۔اس لحاظ سے ماہ رجب کی دعاؤں میں اللہ تعالیٰ سے ماہ رمضان میں عبادت بجالانے کی توفیق کی دعائیں مانگی جاتی ہیں تاکہ رجب کے مہینے سے ہی اس چیز کے لیے زمینہ ہموار کیا جاسکے اور جب تک انسان ان مقدمات کو طے نہ کرے ماہ رمضان کی عظمت کو سمجھ نہیں کرسکتاہے ۔

ایک روایت میں کہا گیا ہے کہ :یہ نہ کہو کہ رمضان آگیا ،رمضان چلا گیا بلکہ یہ کہو کہ ماہ رمضان آگیا اور ماہ رمضان چلا گیا کیونکہ رمضان اللہ تعالیٰ کے مقدس ناموں میں سے ایک نام ہے۔رمضان کا مہینہ درحقیقت {شَھْرُ اللہ } ہے اگر کوئی انسان شہر اللہ میں لقاء اللہ کی منزل تک نہ پہنچ سکے تو وہ روزہ کی حقیقت تک نہیں پہنچا ہے بلکہ اس نے اپنی فطرت کے مطابق روزہ رکھا ہے اور اس کی جزابھی اسی حساب سے دی جائے گی۔

فرمایا:خداکامہینہ برکت،رحمت اور مغفرت کے ساتھ تمھاری طرف آرہا ہے:{بِالْبَرْکَۃِ وَالرَّحْمَۃِ وَالْمَغْفِرَۃِ}ہوشیار رہیں اور استقبال کے لیے جائیں اور اسے صحیح طریقے سے سمجھنے کی تیاری کیجئے ۔

’’برکت‘‘ متواتر اور ہمیشہ رہنے کی خبر ہے۔بیابانوں میں واقع گٹرھے جن میں پانی جمع ہوتا ہے انھیں ’’برکۃ‘‘ کہا جاتا ہے۔یہ مہینہ برکت ،رحمت اور مغفرت کے ساتھ آتاہے۔یہاں پر رحمت اور مغفرت سے مراد صرف گناہوں کی معافی نہیں بلکہ بلند درجات کو بھی اللہ تعالیٰ رحمت کے نام سے یاد کرتاہے۔البتہ خاص رحمت مؤمنین کے لیے مخصوص ہے :{إِنَّ رَحْمَةَ اللهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ }[47]اس قسم کی رحمت کا حصول ماہ رمضان میں بہت آسان ہے۔آپؐ مزید فرماتے ہیں :{شَهْرٌ هُوَ عِنْدَ اللهِ أَفْضَلُ الشُّهُورِ }یہ مہینہ دوسرے مہینوں سے افضل اور برتر ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی فضیلت کو معین فرمایا ہے۔جس طرح انسان تقویٰ اور پرہیز گاری کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے نزدیک باعظمت بن جاتاہے یہ مہینہ بھی اپنی برکتوں،رحمتوں اور مغفرتوں کی کثرت کے ذریعے دوسروں سے برتر ہے ۔

ماہ رمضان میں دو طرح کے احکامات پائے جاتے ہیں: ترمیم

1۔عمومی احکام:اس سے مراد یہ ہے کہ انسان پورے ماہ رمضان کو ایک سمجھے اور نیت کرے یعنی ماہ رمضان کی پہلی رات کویہ قصد کرے کہ وہ آخر رمضان تک روزے رکھے گا۔

2۔خصوصی احکام:اس سے مراد یہ ہے کہ انسان ہر دن کے روزے کی الگ الگ نیت کرے :{ وَ أَيَّامُهُ أَفْضَلُ الْأَيَّامِ وَ لَيَالِيهِ أَفْضَلُ اللَّيَالِي }ماہ رمضان کے سارے دن سال بھر کے دنوں سے افضل ہیں اور ماہ رمضان کی تمام راتیں سال بھر کی راتوں سے برتر ہیں{وَسَاعَاتُہُ اَفْضَلُ السَّاعَاتِ}ساعات یعنی لمحے،اس کے لمحے تمام لمحوں سے بہتر ہیں ۔

یہ جو فرمایا کہ:خدا کا مہینہ تمھاری طرف آرہاہے ،اس حدیث قدسی کے عین مطابق ہے جس میں فرمایاتھا{اَلصَّوْمُ لِی}اگر روزہ خدا کے لیے ہے تو پس یہ مہینہ بھی خدا کا مہینہ اور {شَھْرُ اللہِ}ہے۔اس لحاظ سے نہ صرف{اَلصَّوْمُ لِی } ہے بلکہ دعائے سحر سے لے کر تمام عبادات ’’لِلّہ‘‘ ہیں کیونکہ یہ اللہ کا مہینہ ہے اگر مہینہ خدا کا ہے تو پھر اس مہینے میں انجام دی جانے والی تمام عبادات اور دعائیں سب کے سب ’’لِلّہ‘‘ ہیں ۔ 

ماہ رمضان اور اخلاق الٰہی کا آئینہ داربننا ترمیم

فرمایا:{هُوَ شَهْرٌ دُعِیتُمْ فِیهِ إِلَی ضِیَافَةِ اللّہ }تم اس مہینے خدا کے مہمان ہو ،مہمان کو وہی کچھ کرنا چاہیے جو میزبان انجام دے۔روزہ دار انسان اس خدا کا مہمان ہے جو { يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ  }[48]دوسروں کو کھلاتا ہے مگر خود نہیں کھاتا،پس مہمان کو بھی{ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ  }بن جانا چاہیے اگر خدا دوسروں کو عطاکرتا ہے اور خود نہیں لیتا تو انسان کو بھی چاہیے کہ اس مہینے میں دوسروں کو عطا کرے اور خود نہ لیں کیونکہ دینے والے ہاتھ سے بہتر کوئی ہاتھ نہیں اور لینے والے ہاتھ سے بدتر کوئی ہاتھ نہیں ہے۔گداگری کی عادت کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا جبکہ بخشش اور عطاکی عادت کو پسند فرماتاہے اگر کوئی شخص یہ کوشش کرے کہ دوسرے لوگ اس کے توسط سے بہشت میں چلے جائیں تو اس کا ہاتھ عطا کرنے والا ہے اور اگر کسی کی یہ کوشش ہو کہ وہ دوسروں کی برکت سے بہشت میں چلا جائے گا تو وہ لینا والا ہاتھ ہے ۔

ایک ایسا بہترین جملہ جسے پیغمبر اسلامﷺ سے پہلے کسی نے بھی بیان نہیں کیا ہے وہ یہ کہ :{اَلْیَدُ الْعُلْیَا خَیْرٌ مِّنَ الْیَدِ السُّفْلٰی }[49]اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے ۔‘‘ کیونکہ جو انسان عطا کرتا ہے اس کا ہاتھ اوپر ہوتاہے اور لینے والے کا ہاتھ نیچے ہوتاہے ۔

ماہ مبارک رمضان کی راتوں میں پڑھی جانے والی دعاؤں کے ضمن میں انسان کو ایک ایسی پاکیزہ اور بلندرو ح اپنے اندر بیدار کرنے کی نصیحت کی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے یہ کہہ سکے کہ :’’بارالٰہا ! تو اپنے دین کی حفاظت کرنے والے ہواورتیرا اس سے دستبردار ہونا ممکن نہیں مجھے اس بات کی توفیق عنایت فرما کہ تیرا دین میرے ہاتھوں زندہ ہوجائے ۔‘‘نہ یہ کہ تیرے دین کو دوسرے زندہ کریں اور میں دین کے دسترخوان پر بیٹھ جاؤں۔بارالٰہا! مجھے موقع عنایت فرماکہ نماز اور روزہ کو میں اپنے ہاتھوں اور اپنے خون سے زندہ کروں اور دوسرے لوگ میرے مہمان بن جائیں ،نہ یہ کہ دوسرے لوگ جنگیں لڑکر ،اپنا خون بہاتے ہوئے دین کا احیاء کریں اور میں صرف نمازیں پڑھتااور روزے رکھتارہوں:{وَاجْعَلْنِي مِمَّنْ تَنْتَصِرُ بِهِ لِدِينِكَ وَ لاَ تَسْتَبْدِلْ بِي غَيْرِي }[50]اللہ تعالیٰ ایک گروہ سے دھمکی آمیز لہجے میں فرماتاہے :{وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ثُمَّ لَا یَکُوْنُوْا اَمْثَالَکُمْ }[51] میں تو اپنے دین کی حفاظت کرتارہوں گا اور اس سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گااور اگر تم فیض الٰہی کو انجام نہیں دوگے تو میں کسی اور کے ذریعے اسے نجام تک پہنچاؤں گا۔ایسا نہیں ہے کہ اگر کچھ لوگ اسلام کے مقابلے اٹھ کھڑے ہوں تو اللہ تعالیٰ اسلام سے ہاتھ اٹھالے گا بلکہ یقینی طور پر اللہ تعالیٰ اپنے دین کی حفاظت فرمائے گا۔اب اگر دین کی حفاظت آپ کے ذریعے ممکن نہ ہو تو نہ سہی اللہ تعالیٰ آپ کی جگہ کسی اور کو بٹھا دے گا۔اس دھمکی اور قرآن کی تعلیمات کی بنیاد پر فرماتے ہیں کہ:ماہ مبارک رمضان کی راتوں کو یہ دعامانگو کہ:بارالٰہا! تو نے اپنے دین کی حفاظت تو کرنی ہی ہے ،مجھے یہ توفیق عنایت فرما کہ تیرا دین میرے ہاتھوں محفوظ ہوجائے ۔

اسی کو عطا کرنے والا ہاتھ اور بلند ہمت کہتے ہیں۔اس مہینے کی دعاؤں میں میزبان کا تعارف بھی کرایا گیا ہے کہ:{وَھُوَ یُطْعِمُ وَلَا یُطْعَمْ وَیُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْہ }[52]یا{یُھْلِکُ مُلُوْکاً وَیَسْتَخْلِفُ آخَرِیْنَ }[53]پھر ہم سے کہا گیا کہ آپ ان صفات کے حامل خدا کے  مہمان ہیں ۔

ماہ رمضان اور کرامت طلبی ترمیم

نیز فرمایا: تم ماہ مبارک رمضان میں کرامت طلب کرلو کیونکہ اللہ تعالیٰ کریم انسان کو کبھی بے آبرو نہیں کرتابلکہ ہمیشہ اس کی حفاظت فرماتاہے۔کرامت فرشتوں کی مخصوص صفت ہے۔فرشتے اللہ کے مکرم بندے ہیں ۔[54]تمھیں بھی کرامت اختیار کرنے کی دعوت دی گئی ہے ،کریم بننے کی کوشش کیجئے۔کرامت یعنی پستی اور ذلت سے پاک ہونا ،تمام اسلامی احکام انسان کو کرامت کی روح عطا کرتے ہیں کیونکہ وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہوئے ہیں۔امیر المومنین فرماتے ہیں :{مَنْ وَجَدَ مٰاءً وَتُرَابًا ثُمَّ افْتَقَرَ فَأبعدَهُ اللهُ [55]جس قوم یا فرد کے پاس وافر مقدار میں پانی اور زمین دستیاب ہو پھر بھی وہ دوسروںکا محتاج ہو تو اللہ تعالیٰ اسے خود سے دور کردیتاہے !

یہ کلام ہمیں پیداوار میں اضافہ اور بیکاری سے پرہیز کی دعوت دیتاہے ،امام عالی مقامؑ بیکار شخص اور قوم پر لعنت بھیجتاہے اور لوگوں کو کرامت کی روح عطافرماتاہے ۔

پھر نہج البلاغہ میں منطقی طور پر استدلال فرماتاہے :

1۔کیا اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو عزیز رکھتا تھا یا نہیں ؟اللہ کے نزدیک بندوں میں سب سے عزیز پیغمبر اکرمﷺ تھے اور کوئی ایسی کرامت،عزت اور حرمت نہیں تھی جسے اللہ نے آپؐکو عطا نہ کیا ہو۔

2۔پیغمبر اکرمﷺ کی زندگی انتہائی سادہ تھی کئی مرتبہ آپؐ بھوکے پیٹ سوجاتے تھے ،چاہے وہ شعب ابی طالب میں ہو یا کہیں اور ،اگر حضرت خدیجہ سے آپ کو کوئی مال ملا بھی تھا تو اسے اسلام کی راہ میں خرچ کر دیا اسے اپنی ذاتی زندگی پر خرچ نہیں کیا۔

3۔یا تو مال و دولت کو کمال اور شرافت سمجھاجائے تو اس صورت میں کہنا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبرﷺکو مال و دولت نہیں دے کر ا ن کی تحقیر کی اور یہ صحیح نہیں ہے۔پس یہ جان لیں کہ اللہ تعالیٰ نے جس کسی کو بھی مال و دولت میں سرگرم کیا ہے درحقیقت اس کی توہین کی ہے ۔[56]اسے مال و دولت میں سرگرم کیا تاکہ وہ معارف کے پیچھے نہ جاسکے ۔

یہ تجزیہ سورہ ’’فجر‘‘میں جو کچھ بیان کیا ہے اس کے ساتھ منافات نہیں رکھتا چونکہ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے :’’جس کے پاس مال و دولت ہے وہ یہ خیال نہ کرے کہ وہ عزت دار ہے اور جس کے پاس مال و دولت نہیں ہے وہ یہ خیال نہ کرے کہ وہ حقیر ہے ،یہ نہیں فرمایا جس کے پاس مال ودولت ہے وہ حقیر نہیں ہے ،نہج البلاغہ میں جو کچھ بیان کیا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو مال و دولت میں مشغول کردیتا ہے وہ اپنی پوری زندگی کاروبار میں گزارتا ہے ،اسے یہ جان لینا چاہیے کہ وہ عنایات الٰہی سے دور ہو گیا ہے ۔

کرامت کا تعلق دنیوی امور تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر وہ چیز جس سے دنیا کی بو آتی ہو وہ نہ صرف کرامت کا باعث نہیں ہے بلکہ حقارت کا موجب بھی ہے ۔

بظاہر یہ فرمان امام زین العابدین کا ہے جس میں آپؑ فرماتے ہیں :قرآن مجید میں جب علم و معرفت اور توحید کی بات ہوتی ہے تو ان نعمتوں کے حامل افراد کا تذکرہ فرشتوں کے ساتھ کیا جاتاہے اور جب کھانے ،پینے کی بات ہوتی ہے تو ان صفات کے حامل لوگوں کا تذکرہ حیوانات کے ساتھ کیا جاتا ہے مثلا پہلا گروہ کے متعلق ارشاد ہوتاہے :{شَهِدَ اللهُ أَنَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ وَالْمَلائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ}خود اللہ، اس کے ملائکہ اور صاحبانِ علم گواہ ہیں کہ اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے ۔‘‘ یہاں پر علما اور صاحبان علم کا تذکرہ فرشتوں کے ساتھ کیا گیاہے ۔

لیکن جب مادیات کی بات ہوتی ہے تو ارشاد ہوتاہے :’’ہم نے سورج کو تپنے اور بارش کو برسنے کا حکم دیاہے تاکہ تمھارے باغات سرسبز و شاداب ہوجائیں :{مَتَاعًا لَّکُمْ وَ لِاَنْعَامِکُمْ }[57]تمھارے اور تمھارے مویشیوں کے لیے!یا ایک اور مقام پر ارشاد ہوتاہے :{کُلُوْا وَ ارْعَوْا اَنْعَامَکُمْ }[58]تم بھی کھاؤ اور اپنے جانوروں کو بھی چراؤ!

اگر کوئی انسان اپنے آبرو کی حفاظت کی مقدار سے زیادہ اپنی زندگی کو دنیا پر خرچ کر دے تو وہ نقصان میں ہے اور اس کا یہ عمل اس کے لیے وبال ہے۔اسلام ایک طرف تو کہتاہے کہ: دنیا سے دل لگی نہ کرو اور دوسری طرف کہتاہے :باعزت زندگی گزارو ،اسلامی معاشرے کی عزت و آبروکے لیے پیداوار بڑاؤ اور اپنی اور اسلامی معاشرے کی سربلندی کے لیے جدوجہد کرو اور اپنے کسب و کار سے دورسروں کو بھی فائدہ پہنچاؤ۔

امیر المومنین جب بھی اپنا خون پسینہ ایک کرکے کوئی کنواں کھودتے یا کوئی نہرنکالتے تھے تو جیسے ہی پانی آنا شروع ہوتا تھا فوراً وقف کا صیغہ پڑھتے تھے اور فرماتے تھے :{ھَذِہِ صِدَقَۃٌ }[59]

حوالہ جات ترمیم

  1. ۔بحارالانوار،ج۶۳،ص۳۳۰ 
  2. ۔اصول کافی ،ج۸،ص۹۰ 
  3. ۔وسائل الشیعہ ،ج۱۶،ص۲۱۰ 
  4. ۔الکنی والا ٔ القاب،ج۳،ص۱۳۸ 
  5. اے ایمان والو! تم پر روزے کا حکم لکھ دیا(فرض کیا ) گیاہے (سورہ بقرہ،آیت۱۸۳) 
  6. مجمع البیان،ج۲،ص۴۹۰ 
  7. الامالی والمجالس صدوق،ص۸۵،مجلس۲۰،ح۴؛عیون اخبار الرضا،ج۱،۲۹۵ 
  8. بحار الانوار،ج۷۴،ص۲۳۹ 
  9. نہج البلاغہ،حکمت۴۵۶ 
  10. سورہ طور،آیت۲۱ 
  11. سورہ مدثر آیات۳۸اور ۳۹ 
  12. روضہ المتقین،ج۳،ص۲۲۵،اس روایت میں بعض ادباء کے لفظ ’’اجزی‘‘ کو صیغہ مجہول پڑھا ہے ۔’’اَلصَّوْمَ لِي وَاَنَا اُجْزِي بِہِ‘‘روزہ میرے لیے ہے اور میں اس کا صلہ ہوں!(نہایہ ابن اثیر ج۱،ص۲۷۰) 
  13. یا کون مالک ہے کان اور آنکھوں کا۔(سورہ یونس،آیت۳۱) 
  14. تمہارے اعضاء ہی اس کے گواہ ہیں اور تمہارے ہاتھ پاؤں ہی اس کے لشکر ہیں ۔تمہارے ضمیر اس کے جاسوس ہیں اور تمہاری تنہائیاں بھی اس کی نگاہ کے سامنے ہیں ۔(نہج البلاغہ،خطبہ۱۹۹) 
  15. اور آسمانوں اور زمین کے سب لشکر اللہ ہی کی مِلکیَّت میں ہیں۔(سورہ فتح،آیت۴) 
  16. سورہ آل عمران،آیت۱۵ 
  17. سورہ فجر،آیات ۲۹اور ۳۰ 
  18. سورہ زمرآیت۷۳:(برزخ سے متعلق مزید روایات دیکھنے کے لیے مطالعہ کیجئے تفسیر نور الثقلین،ج۴،ص۵۰۶اور ۵۰۷،بحار الانوار،ج۶،ص۱۳۹، علم الیقین ج۲،ص۱۰۶۰) 
  19. سورہ بقرہ ،آیت۲۵ 
  20. سورہ زمرآیت۷۳:(برزخ سے متعلق مزید روایات دیکھنے کے لیے مطالعہ کیجئے تفسیر نور الثقلین،ج۴،ص۵۰۶اور ۵۰۷،بحار الانوار،ج۶،ص۱۳۹، علم الیقین ج۲،ص۱۰۶۰) 
  21. اور آسمانوں اور زمین کے سب لشکر اللہ ہی کی مِلکیَّت میں ہیں۔(سورہ فتح،آیت۴) 
  22. سورہ بقرہ ،ٓیت۱۸۳ 
  23. سورہ قمر،آیت۵۴ 
  24. سورہ قمر ،آیت۵۵ 
  25. وسائل الشیعہ ،ج۱۰،ص۴۰۳ 
  26. روضۃ المتقین،ج۳،ص۲۲۶؛وسائل الشیعہ ،ج۱۰،ص۴۰۰ 
  27. مفاتیح الجنان،دعائے سحر 
  28. ایضاً 
  29. بحار الانوار ،ج۷۱،ص۳۷۰؛مرحوم محقق فرماتے ہیں : یَجُوْزُالصَّدَقَةُ عَلَى الذِّمِي وَ إِنْ كَانَ أجْنَبِيًالِقَوْلَہِﷺ :لِكُلِّ كَبِدٍ حَرَّى أَجْرٌ(شرایع الاسلام ،کتاب الصدقہ) اس مسئلے کا تعلق انسانی ہمدردی سے ہے نہ کہ ان کے مقصد کوتقویت پہنچانے کے لیے ۔اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ مرحوم محقق اہل کتاب کے کلیساؤں اور معابد کے لیے وقف کو جائز نہیں سمجھتے ۔مزید جاننے کے لیے رجوع کریں ،جواہر الکلام ،ج۲۸،ص۳۰؛بحارالانوار ،ج۷۱،ص۳۷۰اور ۳۷۱) 
  30. سورہ دھر،آیت۹ 
  31. سورہ بقرہ،آیت۱۱۵ 
  32. کافی ،ج۱،ص۱۹،ح۱۲ 
  33. الجنة ثمن البدن،إشارة إلى أن ثمن جوهرة النفس المجرّدة هو الله سبحانه،فكأنّه عليه السلام قال: أما إنّ أبدانكم ثمنها الجنة فلا تبيعوها وأما نفوسكم المجرّدة وأرواحكم القدسية فإنما ثمنها هو الله سبحانه والفناء المطلق فيه وفي مشاهدة نور وجهه الكريم فلا تبيعوها بغيره "(تعلیقہ میر داماد براصول کافی،ص۳۸) 
  34. سورہ بقرہ،آیت ۱۲۸ 
  35. کافی ،ج۴،ص۶۳ 
  36. ا ےپیچیدہ امور کو آسان بنانے والے۔(دعا کا ایک جملہ ہے جو بزرگوں سے منقول کلام میں آیاہے۔) 
  37. سورہ لیل آیات۵تا۷ 
  38. روضۃ المتقین،ج۳،ص۲۲۸ 
  39. دیوان سنائی غزنوی 
  40. وہ ایسے فرشوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے جن کے استر ریشم کے ہوں گے۔(سورہ رحمن ،آیت۵۴) 
  41. روضۃ المتقین،ج۳،ص۲۲۵ 
  42. صورہ صافات،آیت۱۶۴ 
  43. روضۃ المتقین،ج۳،ص۲۲۹ 
  44. ان کے چہروں اور پشتوں پر ضربیں لگا رہے تھے ۔(سورہ انفال،آیت۵۰) 
  45. شذرات المعارف،ج۶۴ 
  46. اربعین شیخ بہائی ،ص۱۷۹،ح۹ 
  47. سورہ اعراف،آیت۵۶ 
  48. امام جعفر صادق کا فرمان ہے کہ:کھانا کھاتے وقت اللہ کا نام لیاکرواور کھانا ختم کرو تو کہو:’’ اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِی يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ‘‘(کافی،ج۶،ص۲۹۴) 
  49. کافی،ج۴،ص۱۱ 
  50. مفاتیح الجنان،اعمال شبھای رمضان ،سیزدہم 
  51. اور اگر تم نے منہ پھیر لیا تو اللہ تمہارے بدلے اور لوگوں کو لے آئے گا پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔(سورہ محمد ؐ،آیت۳۸) 
  52. اور وہ دوسروں کو روزی دیتا ہے خود نہیں کھاتا ہےاور وہ کون ہے جو پناہ دیتا ہے لیکن اس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا(بحار الانوار ،ج۶۳،ص۳۸۱) 
  53. بادشاہوں کو نیست و نابود کرتا ہے اور دوسروں کو ان کی جگہ بٹھاتا ہے(دعائے افتتاح کا ایک جملہ) 
  54. بَلْ عِبَادٌ مُكْرَمُونَ * لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ‘‘(سورہ انبیاء،آیات۲۶اور ۲۷) 
  55. بحار الانوار،ج۱۰۰،ص۶۵ 
  56. نہج البلاغہ،خطبہ۱۶۰ 
  57. سورہ نازعات،آیت۳۳ 
  58. سورہ طہ،آیت۵۴ 
  59. کافی ،ج۴،ص۴۹