رومی سلطنت کی تاریخ یورپی اقوام کے لیے آج بھی انتہائی دلچسپی کا باعث ہے۔ وہ ان رومی بادشاہوں اور جنرلوں کی تعریف اور توصیف کرتے ہیں کہ جنھوں نے حملہ کرکے قبائل کو غیر مہذب اور وحشی قرار دے کر ان کا قتل عام کیا، ان کو غلام بنایا اور ان کی لوٹی ہوئی دولت سے اپنے محلات، مندر اور عمارتیں بنائیں۔ یہ تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ ان کے ہمسایہ قبائل جو امن و امان کی زندگی گزار رہے تھے اور جو اپنے قبائلی رسم و رواج پر عمل پیرا تھے، وہ غیر مہذب جب کہ حملہ آور جنھوں نے ان پر بغیر کسی اشتعال کے حملہ کیا اور ان کے مال و اسباب کو لوٹا، وہ مہذب اور قابل تعریف ٹھہرائے گئے۔ یورپ کی اقوام نے رومیوں سے کئی ریاستی ادارے وراثت میں پاکر انھیں اختیار کیا جیسے سینیٹ، اسمبلیاں، قانون، ووٹنگ سسٹم اور ویٹو کی طاقت استعمال کرنے کا طریقہ، اس کے علاوہ رومی سلطنت کی تاریخ کو یاد رکھنے کے لیے مختلف موضوعات پر فلمیں بنائی گئیں۔ ڈرامے سٹیج کیے گئے۔ مصوری اور مجسمہ سازی میں ان کی تعریف کے اہم واقعات افراد اور ان کے کردار کو محفوظ کیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں رومی تاریخ پر کتابیں لکھی گئیں۔ آثار قدیمہ نے ان کی پرانی عمارتوں اور یادگاروں کو دریافت کرکے نئی زندگی دی۔ تاریخی ناولوں کے ذریعے عام لوگوں میں ان کو مقبول بنایا گیا۔

رومی سلطنت کے زوال کے بعد 800 عیسوی میں اس کے احیا کی کوشش کی گئی۔ جب کارولینجین (Carolingian) خاندان کا حکمراں شارلیمن (Charlemagne) ہوا تو پوپ نے اس کی تاج پوشی کی۔ اس کے بعد وہ ہولی رومن ایمپرر کہلایا۔ یورپ کے سیاسی اتار چڑھائو میں یہ ادارہ قائم رہا اور وولیٹر نے طنزاً اس کے بارے میں کہا کہ یہ نہ تو ہولی ہے، نہ رومن ہے اور نہ ایمپرر۔ بالآخر نپولین نے 1806 عیسوی میں اس کا خاتمہ کیا۔جب یورپ کے لوگوں نے تاریخ میں رومی سلطنت کی ٹوٹ پھوٹ کے بارے میں پڑھا تو انھیں اس پر حیرت ہوئی کہ ایک طاقتور مال اور دولت سے بھرپور مشرق اور مغرب میں پھیلی ہوئی یہ سلطنت کیونکر زوال کا شکار ہوئی، کیونکہ اس کی ایک وجہ تو انھیں سلطنت کی تقسیم میں نظر آئی۔ مغربی رومی سلطنت پوپ کی سربراہی میں کیتھولک فرقے پر قائم تھی جب کہ مشرقی سلطنت بازنطینی ہو گئی اور اس نے (Orthodox) عیسائیت کو اپنالیا۔ اس تقسیم نے دونوں میں رقابت اور تضاد کو پیدا کیا۔ مؤرخوں نے رومی سلطنت کے عروج کی تاریخ کے بعد اس پر توجہ دی کہ وہ کون سی وجوہ تھیں کہ جن کے باعث رومی سلطنت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی۔ اگرچہ اس موضوع پر مؤرخوں نے لکھا ہے مگر یہاں ہم ان دو ابتدائی مؤرخوں کا ذکر کریں گے، جنھوں نے اس کے زوال کی جانب نشان دہی کی، اہم وجہ سیاست کا غیر مستحکم ہونا بتایا۔ جب ریاست کا تسلط کمزور ہوا تو اس کے ساتھ ہی سماجی اور معاشی بحرانوں کی ابتدا ہوئی، جس نے انتشاروں کو پیدا کیا، جس نے سلطنت کو غیر محفوظ بنایا۔دوسرا اہم مورخ Edwin Gibbon تھا جس نے رومی ہسٹر کے کھنڈر دیکھ کر اس کی کھوئی ہوئی عظمت سے متاثر ہوکر یہ فیصلہ کیا کہ وہ اس کے زوال کی تاریخ لکھے۔ یہاں خاص بات یہ کہ اس نے رومی سلطنت کے عروج کو نظر انداز کیا اور ان وجوہ کی نشان دہی کی کہ جو اس کے زوال کا باعث ہوئیں، جیسے فوج کا سیاست میں آنا اور اپنی مرضی کے حکمران منتخب کرنا، رومی شہنشاہوں کا یکے بعد دیگرے قتل ہونا، غلاموں کی تعداد کا لڑنا جو گھریلوں کاموں سے لے کر زراعت اور جنگ میں مصروف رکھے جاتے تھے۔ سرحدوں پر قبائلی حملوں کی وجہ سے زراعت کا تباہ ہونا، بے روزگار کسانوں کا شہروں میں آنا، بڑھتی آبادی کی وجہ سے شہر میں صفائی کا نہ ہونا، بیماریوں کا پھیلنا، عوامی جھگڑے اور فسادات کی وجہ سے شہروں کا غیر محفوظ ہونا اور امرا کا دیہات کی جانب حویلیوں میں منتقل ہونا۔

ان وجوہ کے علاوہ زوال کے جس اہم پہلو کی جانب گبنن نے توجہ دلائی ہے وہ یہ کہ جب رومی معاشرہ عیسائی ہوا تو اس نے اس کے کردار کو بدل کر رکھ دیا۔ جب رومی پیگن یا غیر عیسائی تھے اور اس وقت ان میں جنگی جذبہ تھا۔ بہادری اور جرأت تھی اور میدان جنگ میں جان دینے پر تیار تھے، لیکن عیسائی ہونے کے بعد ان کا یہ جنگی جذبہ ختم ہو گیا، کیونکہ عیسائیت امن کی تعلیم دیتی تھی اور جنگ کے خلاف تھی، دوسری اہم تبدیلی یہ آئی کہ پوری رومی سلطنت میں خانقاہوں کی بنیاد پڑی، جہاں ایک بڑی تعداد میں بطور راہب داخل ہوتے تھے اور عہد کرتے تھے کہ وہ اپنی زندگی عبادت کے لیے وقف کر دیں گے۔ اس نے ایک ایسا طبقہ پیدا کیا جو پیداواری عمل میں شریک نہ تھا اور جو معاشرے پر معاشی بوجھ بن گیا تھا۔ جب تک رومی معاشرہ پیگن تھا، اس نے فلسفہ، ادب، آرٹ اور مجسمہ سازی کو پیدا کیا، اس کے تعلیمی اداروں میں فلسفے کی تعلیم دی جاتی تھی، جو زمینی ترقی کے لیے لازمی تھی، لیکن جب معاشرے پر عیسائیت کا غلبہ ہوا تو اس نے تمام پیگن اداروں کو بند کر دیا۔ فلسفے کی تعلیم ممنوع قرار پائی۔ پیگن فلسفیوں کا استعمال کیا گیا، جس کی وجہ سے پورے معاشرے پر چرچ کا تسلط ہو گیا اور فنونِ لطیفہ کے لیے یہ لازم ہوا کہ وہ مذہبی دائرے میں رہتے ہوئے تخلیق کریں، اس تبدیلی نے رومی معاشرے کو مذہبی طور پر انتہا پسند بنادیا اور روشن خیالی کے تمام دروازے بند کردیے۔

تو اس تبدیلی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک جانب رومی معاشرہ زمینی طور پر بنجر اور شکستہ ہو گیا۔ دوسری طرف اس کی افواج اس قابل نہ رہیں کہ وہ بار بیرین قبائل سے اپنا دفاع کرسکیں۔ چنانچہ 410 عیسوی میں ویزوگوتھ شہر روم پر قابض ہوئے اور مغربی رومی ایمپائر کا خاتمہ کر دیا۔ ایک وقت میں شکست کھانے والے شہر میں فاتح بن کر آئے۔ مشرقی رومی ایمپائر نے ایک طویل عرصے کی سیاسی ٹوٹ پھوٹ کے بعد 1453 عیسوی میں ترکوں کے ہاتھوں شکست کھائی اور یوں رومی سلطنت کا خاتمہ ہوا۔ جدید زمانے میں یورپی اقوام نے بھی اسی رومی ماڈل کو اختیار کیا، خود کو مہذب کہا، ایشیا اور افریقا کے جن ملکوں پر قبضہ کیا، ان کو غیر مہذب کہہ کر ناصرف ان کا قتل عام کیا بلکہ ان کی دولت کو بھی لوٹا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ تاریخ میں اس روایت کو تبدیل کیا جائے اور ہر اس حملہ آور کو جس نے اپنی فوجی طاقت اور ٹیکنالوجی کی مدد سے دوسرے ملکوں پر قبضہ کیا، انھیں جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا جائے۔ درحقیقت حملہ آور ظالم اور غیر مہذب تھے، جنھوں نے پُرامن اور مہذب قوموں کو شکست دے کر اپنی انتہا پسندی اور تشدد کا اظہار کیا۔ ان کے ان جرائم کو دنیا کے سامنے لانے کی ضرورت ہے، تاکہ مہذب اور غیر مہذب کے پردے میں جو جرائم ہوئے ہیں، ان کی حقیقت معلوم ہو سکے۔

حوالہ جات ترمیم

[1]

  1. http://jehanpakistan.pk/column-blog-detail/رومی-سلطنت-کی-ٹوٹ-پھوٹ[مردہ ربط]