زاہد براہوئی کا اصل نام رحمت اللہ ہے۔ ان کا تعلق براہوئی قوم کے قبیلے ابابکی سے ہے۔ وہ 15 جولائی 1977ء کو اپنے آبائی علاقے منگچر زرد جگسور میں میر محمد اسلام خان ابابکی کے گھر میں پیدا ہوئے۔ زاہد براہوئی نے ابتدائی تعلیم پرائمری مسجد اسکول انجیرہ سے شروع کی۔پھر تیسری جماعت سے لے کر آٹھویں جماعت تک گورنمنٹ مڈل اسکول زرد غلام جان منگچر میں پڑھا۔ میٹرک کے لیے قلات کے گورنمنٹ ہائی اسکول میں نہم جماعت میں داخلہ لیا۔ نویں جماعت یہاں قلات میں پڑھا لیکن دسویں جماعت انھوں نے ہائی اسکول برینجنہ منگچر سے پاس کی۔ اسی طرح بلوچستان بورڈ سے ایف اے کا امتحان پاس کیا اور پھر بیچلرز ڈگری یونیورسٹی آف بلوچستان سے حاصل کی۔ انھیں ادبی شوق تو بچپن سے ہی تھا۔ادبی سرگرمیاں انھوں نے براہوئی شاعری سے شروع کی۔ شروع شروع میں انھوں نے اپنا تخلص شاکر رکھا لیکن بہت جلد اسے تبدیل کرکے زاہد براہوئی کے نام سے ادبی دنیا میں مشہور ہوئے۔ 1992ء میں ساتویں براہوئی ادبی سیمینار میں نہ صرف شرکت کی بلکہ لکھنا بھی باقاعدگی سے شروع کیا۔ شروع شروع میں عبد الرزاق عامل کی رہنمائی میں اپنی شاعری اصلاح کرواتے تھے لیکن بعد میں انجم براہوئی سے اصلاح لینا شروع کیا اسی لیے انھیں اپنی شاعری کا استاد مانتے ہیں۔ 1992ء میں منگچر سے کوئٹہ آئے اور یہاں براہوئی آباد کے نام سے ایک شہر آباد کیا جو آج تک خلق براہوئی آباد کے نام سے مشہور ہے۔ 1999ء میں انھیں براہوئی اکیڈمی پاکستان کی مرکزی ممبر شپ حاصل ہوئی اور ابھی تک سرگرم عمل ہیں۔ اسی طرح 1999ء میں ایلم ادبی کاروان پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا۔ عادل نسیم اس کا سرپرست اعلی اور زاہد براہوئی اس ادبی تنظیم کا پہلا چئیرمین منتخب ہوا۔ اسی طرح وہ لگستار دو مرتبہ ایلم ادبی کاروان کا صدر منتخب ہوئے۔ 17اپریل 2000ء کو انھوں نے اپنے شہید والد میر محمد اسلام خان ابابکی کی یاد میں ایک ماہنامہ براہوئی رسالہ اِستار کے نام سے جاری کیا۔ جو آج تک براہوئی صحافت، زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے لیے جاری و ساری ہے۔ ان کی اب تک دو کتابیں ادبی میدان میں آچکی ہیں۔

  • بِرَمش
  • ہکل
  • بِرَمش

بِرَمش کتاب میں زاہد براہوئی صاحب نے علامہ حضرت نور محمد پروانہ براہوئی کے مختلف مضامین کو ڈھوند کر ایک جگہ اکھٹا کرکے کتابی شکل میں لایا ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے بابائے براہوئی کی ادبی خدمات اور ان کے براہوئی قوم زبان و ادب کے لیے کام کو لوگوں کے سامنے لانے کے لیے یہ کام سر انجام دیا ہے تاکہ ناواقف لوگ بابسئے براہوئی کی نظریاتی اور ادبی فکر سے بخوبی واقف ہوں

  • ہکل

ان کی ہکل کتاب مختلف مضامین پر خوبصورت شاعری کا ایک مجموعہ ہیں۔ جس میں انھوں براہوئی اور بہت سی مختلف مضامیں پر طبع آزمائی کرکے شاعری کی ہے۔ ان کی اس کتاب کو براہوئی ادب میں بہت پزیرائی ملی۔ ان کی یہ کتاب براہوئی اکیڈمی سے دو مرتبہ چھپ چکی ہیں۔ ایک 2009ء میں اور دوسری مرتبہ 2014ء میں۔[1]

حوالہ جات ترمیم

  1. تحریر * ڈاکٹر عبد الرشید آزاد ۔