زمین کی حرکت اور قرآن کریم
قرآن کریم ایک زندہ و جاوید کتاب ہے ، جو تمام انسانیت کے لیے سامان ہدایت ہے ، قرآن کریم کا یہ خود بہت بڑا اعجاز ہے کہ اس میں نوع انسانی کے تمام طبقات کے مستوائے عقلی وفکری کی رعایت کی گئی ہے ، یہ جس طرح ایک عامی کے لیے باعث رشد وہدایت ہے ، اسی طرح نکتہ سنج دانشوران کے لیے بھی باعث غور و فکر اور موعظت وعبرت ہے ، قرآن کریم جہاں سادہ ومعمولی مثالیں دے کر انسانی عقل کو خطاب کرتا ہے ، وہیں آفاق وانفس ، ارض وسماء اور کائنات میں بکھری ہوئی آیات میں تدبر وتفکر اور ان کی حقیقت وکنہ تک پہنچنے کا اپیل کرتا ہے ، تاکہ انسان خدا کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کا اعتراف کرے اور خدا کی وحدانیت پر ایمان لائے ، قرآن کے اس خدائی اسلوب کا مقصود یہ کہ انسان جس طرح چاہے خدا کی معرفت حاصل کرسکتا ہے ۔
قرآن کتاب ہدایت ہے ، اس میں ہر دور کے ذہن کو مطمئن کرنے کی صلاحیت موجود ہے ، یہی اس بات کی دلیل ہے یہ کوئی انسانی کلام نہیں ، بلکہ اس خدائے وحدہ لاشریک کا فرمان ہے ، جس نے تمام کائنات کو پیدا کیا اور ان میں اسباب وعلل کو جاری کیا ، ہمارا دور سائنس وٹیکنالوجی کا ہے ، آج ضرورت ہے کہ قرآن کے سائنسی اعجاز کو اجاگر کیا جائے اور اس سے دعوت اسلامی کا کام لیا جائے ، یہ حقیقت ہے کہ قرآن کریم سائینس کی کوئی کتاب نہیں ، لیکن اس حقیقت سے بھی مجال انکار نہیں کہ قرآن کریم میں بہت سی سائنسی حقائق مذکور ہیں ، انہی حقائق میں ایک اہم حقیقت " زمین کی حرکت " ہے ۔
سولہویں صدی سے قبل کا انسان زمین کو ساکن وجامد سمجھتا تھا اور اس کا یہ ماننا تھا کہ سورج زمین کے گرد گردش کرتا ہے اور اسی گردش کے نتیجے میں دن رات کا وجود عمل میں آتا ہے ، یہ بطلیموسی نظریہ ہے ، سولہویں صدی عیسوی میں نکولاس کوپر نیکس Nicolaus Copernicus نے دلائل سے بطلیموسی نظریہ کو مسترد کیا اور یہ ثابت کیا کہ زمین کی اپنی حرکت کی وجہ سے دن رات کا وجود عمل میں آتا ہے اور بعد کے تجربات نے کوپر نیکس کے نظریہ پر صحت کا مہر لگادیا اور آج زمین کی حرکت ایک مسلمہ حقیقت بن چکی ہے ، جب کہ قرآن نے ساتویں صدی عیسوی میں ہی اس راز سر بستہ سے پردہ اٹھا دیا تھا ۔
زیر نظر کتاب "زمین کی حرکت اور قرآن " کے مصنف استاذ گرامی حضرت مولانا سید جاوید احمد ندوی صاحب استاذ حدیث و ادب جامعہ اسلامیہ مظفر پور اعظم گڑھ ہیں ، آپ کئی وقیع کتابوں کے مصنف اور " اعلام المحدثین ومآثرھم العلمیۃ " اور " ازالۃ الخفا ء " کے عربی مترجم ہیں اور قرآنیات پر پچیس سالہ مطالعہ ہے ، مولانا محترم نے اس کتاب میں زمین کی حرکت کو قرآن کریم سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ، جن قرآنی آیات سے زمین کی حرکت ثابت کی ہے وہ تیس کے قریب ہیں ، ان آیات کو ہم چار حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں ۔
١- كل في فلك يسبحون :
یہ قرآن کریم کی دو سورتوں" انبیا" اور" یس " میں مذکور ہے ، یہ دونوں آیتوں کا نہایت اہم حصہ ہے ، جس میں کہا گیا ہے کہ تمام اجرام اپنے اپنے دائرے میں محو گردش ہیں ، زمین بھی ایک جرم ہے ، لہذا وہ بھی اپنے محور پر لٹو کی طرح ناچ رہی ہے ، لیکن ہمارے قدماے مفسرین نے "کل " کے مصداق چاند ، سورج اور ستارے کو قرار دیا ہے ، جب کہ دونوں سورتوں میں "کل فلک یسبحون " سے ماقبل دور دور تک "النجوم " کا ذکر نہیں اور ناہی کوئی قرینہ اس بات کا موجود ہے ، انھیں " النجوم " کو اس لیے مقدر ماننا پڑا تاکہ "یسبحون " سے جو نحوی اعتراض ہو رہا ہے وہ ختم ہوجائے ، کیوں کہ دو مقامات پر شمس و قمر کا ذکر ہے اور "یسبحون " صیغۂ جمع ہے اور جمع ضمیر کا مرجع تثنیہ " شمس و قمر " کو قرار دینا درست نہیں ، اس لیے انھوں " النجوم " کو مقدر مانا اور اس لیے بھی کہ ان کے نزدیک " کل " کی طرف مفرد یا جمع کی ضمیر لوٹے گی ، تثنیہ کی نہیں ، مصنف نے کلام عرب سے ثابت کیا کہ " کل " تثنیہ کا مرجع بھی بنتا ہے ، لہذا " یسبحان " لانا جائز تھا اس کے باوجود " یسبحون " جمع کا صیغہ لانا غور طلب امر ہے ، اب ذرا ان دونوں
مقامات کے سیاق وسباق کو دیکھیں، دونوں جگہ "ارض " زمین کا ذکر موجود ہے ،
" شمس و قمر " کے ساتھ " أرض " کو بھی" کل " کے مصداق قرار دینے میں کوئی نحوی دشواری نہیں ، پس اس تفصیل سے ثابت ہوتا ہے کہ "زمین " بھی متحرک ہے ۔
٢- وہ آیات جن میں دن رات کی گردش اور تسخیر اور چاند سورج کی تسخیر کا ذکر ہے :
قرآن کریم نے کئی مقامات پر چاند ، سورج کی تسخیر اور رات دن کے آنے جانے کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے آیات کہا ہے اور لوگوں کو ان میں غور و فکر کرنے اور عبرت حاصل کرنے کی دعوت دی ہے ، مصنف محترم نے ان آیات سے زمین کی حرکت کو اس طور پر ثابت کیا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ رات دن کے اختلاف وتسخیر اور سورج وچاند کی تسخیر کو دو الگ نشانی کے طور پر ذکر کرتا ہے ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سورج کے علاوہ کوئی اور شے ہے جس کی وجہ سے رات دن کے نظام گردش قائم ہے ، اگر سورج ہی دن رات کی گردش کا مصدر ہے تو پھر ایک ہی آیت میں "واؤ مغایرت " کے ساتھ سورج کی تسخیر کے بعد رات دن کے اختلاف کو ذکر کرنا تحصیل حاصل ہوگا ، سورہ ابراھیم کی ان دونوں آیات نے اس کو دو دو چار کی طرح واضح کر دیا ہے کہ سورج وچاند کی تسخیر اور رات دن کا نظام گردش دو الگ الگ حقیقت ہیں ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْأَنْهَارَ(٣٢)وَسَخَّرَ لَكُمُ ٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ دَآئِبَيْنِ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ ٱلَّيْلَ وَٱلنَّهَارَ(٣٣).
مصنف سورہ زمر آیت ٥ ، فاطر آیت ١٣، لقمان آیت ٢٩اور ابراہیم آیت٣٢ ، ٣٣ درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
"مذکورہ بالا چاروں آیتوں سے یہ بات واضح ہو گئی کہ کہ دن رات کے پیہم آنے جانے میں سورج کا دخل نہیں ، بلکہ کوئی دوسری شے ہے جس کی وجہ سے ایسا ہورہاہے ، اب ذرا ہم اپنی عقل کو استعمال کریں کہ وہ دوسری شے آخر کیا ہو سکتی ہے ؟ جس کا رات دن کے آنے جانے میں کوئی رول ہو سکتا ہے ، جواب واضح ہے کہ زمین کے سوا کوئی اور چیز ایسی نہیں بچتی ، جس کا رات دن کے آنے جانے میں سے کوئی تعلق ہو ، اس لیے کہ رات دن کا واقعہ زمین کے اوپر پیش آتا ہے ، جب رات دن کے آنے جانے میں سورج کا کوئی دخل نہیں ہے ، تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ قرآن بتاتا ہے کہ اس کا اصل سبب زمین کی محوری گردش ہے "۔
٣- وہ آیات جن میں پہاڑوں کے چلنے اور زمین کے لیے کیل اور باعث ثبات وقرار ہونے کا ذکر ہے :
مصنف نے یہاں بنیادی طور پر سورہ "النمل " کی آیت " وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ إِنَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَفْعَلُونَ" سے اپنا مدعا ثابت کیا ہے اور قدماے مفسرین اور اردو مفسرین کی عبارتوں کو ذکر کر کے ان سے اٹھنے والے سوالات کا جواب دیا اور ان کی توجیہات پر مضبوط سوالات قائم کیے ہیں اور "صنع الله الذی أتقن کل شے " کی معنویت اور جامعیت پر سیر حاصل بحث کی ہے ۔
٤- قرار کے معنی :
قرآن کریم نے دو مقامات پر زمین کو" قرار " سے تعبیر کیا ہے ، بہت سے حضرات نے ان دو مقامات پر استعمال کیے گئے لفظ " قرار " سے زمین کو ساکن وجامد ثابت کرتے ہیں ، لیکن قرآن میں اس لفظ کے دیگر مواقع استعمال میں غور کرنے سے ثابت ہوتاہے کہ قرآن نے اس لفظ "قرار " کو قابل رہائش اور قابل اقامت کے معنی میں استعمال کرتا ہے ، لہذا اس لفظ سے زمین کو ساکن وجامد ثابت نہیں کیا جا سکتا ۔
انہی چاروں نکات پر پوری کتاب کی بنا ہے ، یہاں پہنچ کر بعض لوگوں کے ذہن میں یہ بات آسکتی ہے کہ متقدمین کا ذہن اس کو نکتہ کو کیوں نہیں پاسکا ، اس کا جواب یہ ہے کہ متقدمین اس سلسلے میں معذور ہیں ، ان کا ذہن اس سائینسی حقیقت کی طرف کسی طرح نہیں ہو سکتا تھا ، اب جب کہ زمین کی حرکت مسلمہ حقیقت بن چکی، پھر بھی بہت سے حضرات کو ان آیات سے زمین کی حرکت کو ماننے میں تامل وتردد ہے، وہ سب سے بڑا عذر یہ پیش کرتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ متقدمین نے غلط سمجھا ، مصنف نے اس طرح کے عذر لنگ پیش کرنے والے کو خود نہ جواب دے کر مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ (١٨٣٣ء -١٨٨٠ء ) کے مشہور زمانہ رسالہ "تحذیر الناس " کا فکر انگیز اقتباس ان حضرات کی خدمت میں پیش کی ہے :
" رہی یہ بات کہ بڑوں کی بات نہ مانئے تو ان کی تحقیر نعوذ باللہ لازم آئے گی ، یہ انھیں لوگوں کے خیال میں آسکتی ہے جو بڑوں کی بات فقط ازراہ بے ادبی نہیں مانا کرتے ، ایسے لوگ اگر ایسا سمجھیں تو بجا ہے ، اگر بوجہ کم التفاتی بڑوں کا فہم کسی مضمون تک نہ پہنچا تو ان کی شان میں کیا نقص آگیا اور اگر کسی نادان نے کوئی ٹھکانے کی بات کہ دی تو کیا اتنی بات سے وہ عظیم الشان ہو گیا "۔ (تحذیر الناس ص ٢٦)
یہ کتاب زمین کی حرکت پر ایک منفرد کتاب ہے ، خشک موضوع ہونے کے باوجود زبان کی لطافت وچاشنی قائم ہے ، طرز استدلال ایسا کہ دل عش عش کر اٹھے ، یہ کتاب درحقیقت مصنف کی مفصل کتاب "عجائب القرآن " - جو عن قریب شائع ہونے والی ہے - کا ایک اہم باب ہے ، قرآنیات کے طالب علم کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔