زید بن سعنہ صحابی رسول اس سے پہلے یہود کے بڑے عالم تھے۔

زید بن سعنہ
معلومات شخصیت

قبول اسلام

ترمیم

زید نام بنی اسرائیل سے تھے اور یہود میں بہت بڑے حبر(عالم) شمار ہوتے تھے آنحضرتﷺ مدینہ تشریف لائے تو صورت دیکھتے ہی ان کو آپ کی نبوت کا یقین ہو گیا توراۃ میں نبوت کی جو علامات مذکور ہیں ان سے تطبیق دی تو صرف دوباتوں کی کمی محسوس ہوئی جن کا تعلق اخلاق سے تھا اور انہی کی تحقیق پر ان کا ایمان لانا موقوف تھا۔ چنانچہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک روز دربار نبوی میں ایک سوار پہنچا کہ فلاں گاؤں کے لوگ مسلمان ہو گئے ہیں،لیکن قحط زدہ ہیں،آپ سے کچھ امداد ہو سکے تو دریغ نہ کیجئے، شہنشاہ مدینہ کے پاس نام خدا کے سوا اور کیا تھا، زید کو اب آزمائش کا موقع ملا تو راۃ میں پیغمبر کی دو علامتیں مذکور ہیں ایک یہ کہ اس کا علم اس کے غیظ و غضب پر سبقت کرتا ہے اور دوسری یہ کہ جاہلانہ حرکتوں کا جواب تحمل سے دیتا ہے زیدؓ علم کے ساتھ مال و دولت سے بھی بہرہ مند تھے،حضور کی خدمت میں آئے اور کہا محمد! اگرچاہو تو فلاں باغ کے چھوہارے اتنی مدت کے لیے میرے ہاتھ رہن کردو، آپ نے80 دینار( 400روپے) پر چھوہاروں کی ایک معین مقدار رہن کردی اورروپیہ سوار کے حوالہ کیا، ایک روز آنحضرتﷺ ایک انصاری کے جنازہ پر تشریف لائے، ابوبکر وعمر بھی ساتھ تھے، نماز سے فارغ ہوئے تو زید نے میعاد ختم ہونے سے قبل ہی تقاضا شروع کیا اورنہایت سختی کی چادر اور قمیض کا دامن پکڑا پھر آپ کی طرف گھور کر دیکھا اور کہا محمد میرا حق نہ دوگے ؟ خدا کی قسم عبد المطلب کی اولاد ہمیشہ کی نادہند ہے یہ جملہ سن کر عمر کو طیش آگیا بولے خدا کے دشمن !میرے سامنے رسول اللہ ﷺ کو یہ باتیں کہتا ہے خدا کی قسم اورخالی جانے کا احتمال نہ ہوتا تو ابھی تیر اسراڑادیتا، آنحضرتﷺ عمر کی طرف دیکھ کر مسکرائے اورفرمایا :"یہ بات زیبا نہیں تم ان کا قرض ادا کرنے کی فکر کرو، ان کو لیجا کر روپے دو ،20 صاع اور زیادہ دینا جو اس خفگی کا جرمانہ ہے"زید نے عمر سے روپیہ لیا اورچونکہ ان دونوں وصفوں کی اب تصدیق ہو گئی تھی اس لیے کلمہ توحید پڑھ کر فوراً مسلمان ہو گئے۔

غزوات

ترمیم

اکثر غزوات میں شامل ہوئے۔

وفات

ترمیم

غزوہ تبوک میں مدینہ واپس ہوتے وقت شہادت نصیب ہوئی، اس غزوہ میں نہایت شجاعت سے لڑے تھے،صاحب اصابہ لکھتے ہیں۔ استشھد فی غزوۃ تبوک مقبلا غیر مدبر[1]

انفاق فی سبیل اللہ

ترمیم

آپ کے صحیفہ اخلاق میں انفاق فی سبیل اللہ نمایاں طور سے نظرآتا ہے؛ چنانچہ جب آپ نے اسلام قبول کیا تواپنا نصف مال راہِ خدا میں صدقہ کر دیا۔ [2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. الإصابة في تمييز الصحابة۔المؤلف: أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني الناشر: دار الكتب العلمية - بيروت
  2. (مستدرک:3/605)