زیر زمین کوئلے سے گیس کی تیاری
زیر زمین کوئلے سے گیس کی پیداوار ایک ایسا صنعتی عمل ہے جس میں کوئلے سے گیس بنائی جاتی ہے۔ یہ عمل کوئلے کے ایسے ذخائر پر کیا جاتا ہے جہاں کان کنی نہیں کی گئی ہوتی۔ اس عمل میں آکسیڈنٹس کو زمین میں سوراخ کر کے کوئلے تک پہنچایا جاتا ہے اور دوسرے سوراخ سے تیار شدہ گیس کو نکالا جاتا ہے۔ اس گیس کو دیگر مصنوعات کی تیاری یا پھر بجلی کی پیداوار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ عام طور پر اس عمل کو ان جگہوں پر استعمال کیا جاتا ہے جہاں سے کوئلے کو کان کنی سے نکالنے کا عمل بہت پیچیدہ ہو یا جہاں کان کنی بہت مہنگی پڑتی ہو۔ تاہم بعض جگہوں پر اسے کان کنی کے متبادل کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔
تاریخ
ترمیم1868 میں پہلی بار زیر زمین کوئلے سے گیس کی پیداوار کا خیال سر ولیم سیمنز نے لندن کی کیمیکل سوسائٹی کے سامنے پیش کیا جس میں کان میں موجود کوئلے اور دیگر فضلہ جات کو گیس میں کیسے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ روسی سائنس دان دیمتری مینڈیلیف نے اگلے بیس برسوں کے دوران اس عمل کو بہتر کرنے کے لیے کافی کام کیا۔ 1909 تا 1910 امریکی، کینیڈین اور برطانوی پیٹنٹنٹ امریکی انجینئر اینسن جی بیٹس کو دیے گئے جو زیر زمین کوئلے کو نکالنے کے لیے طریقے کے بارے تھے۔ پہلی بار تجرباتی پیمانے پر کام 1912 میں ڈرہم، برطانیہ میں کام ہوا جس کی نگرانی نوبل انعام یافتہ سیر ولیم ریمزے کر رہے تھے۔ تاہم پہلی جنگ عظیم شروع ہونے تک انھیں کامیابی نہیں ہو سکی اور جنگ کے آغاز پر یہ سارا کام ملتوی ہو گیا۔
ابتدائی ٹیسٹ
ترمیم1913 میں ریمزے کے کام پر روسی جلاوطن ولادیمیر لینن کی نگاہ پڑی اور انھوں نے اس بارے پروادا اخبار میں ایک مضمون بعنوان "ٹیکنالوجی کی عظیم فتح" لکھا کہ اس کی مدد سے کان کنوں کو ان کے خطرناک کام سے نجات مل جائے گی۔ 1928 تا 1939 تک روس میں اس ضمن میں روسی سرکاری ادارے پوڈزمگاز کے تحت کام ہوتا رہا۔ زیر زمین چیمبر کے طریقے سے 3 مارچ 1934 کو شروع ہوا۔ تاہم یہ اور دیگر کئی تجربات ناکام رہے۔ پہلی بار کامیاب تجربہ 24 اپریل 1934 میں روس میں ہی ہوا۔ پائلٹ سکیل کام 8 فروری 1935 میں روس میں ہی ہوا۔ بتدریج پیداوار بڑھتی گئی اور 1937 تا 1938 پہلی بار ایک کیمیکل پلانٹ نے اس گیس کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔ 1940 میں دو اور پلانٹ بھی لگا دیے گئے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد روسی اس ضمن میں اتنا آگے بڑھ گئے تھے کہ 1960 کے اوائل میں روس میں پانچ صنعتی پیمانے پر اس طرح کے پلانٹ کام کر رہے تھے۔ تاہم بعد میں قدرتی گیس کے وسیع ذخائر کی دریافت ہونے پر روسیوں نے اس ضمن میں کام کم کر دیا۔ 1964 میں روسیوں نے اس پر کام اتنا کم کر دیا کہ 2004 تک محض دو ہی پلانٹ کام کر رہے تھے۔
جنگ کے بعد ہونے والے تجربات
ترمیمدوسری جنگ عظیم کے بعد توانائی کے بحران اور روسی تجربات سے اس ضمن میں مغربی یورپ اور امریکا میں نئی دلچسپی پیدا ہوئی۔ امریکا میں 1947 تا 1960 تک البامہ ریاست میں تجربات ہوئے۔ 1973 تا 1989 میں ایک بہت بڑا تجربہ کیا گیا۔ امریکا محکمہ برائے توانائی اور دیگر بڑی تیل اور گیس پیدا کرنے والی کمپنیوں نے بھی بہت سے تجربات کیے۔ یورپ میں 1948 میں سٹریم میتھڈ کے سلسلے میں بیلجئم اور 1949 میں مراکو میں نئے تجربات ہوئے۔ بور ہول طریقے کو برطانیہ میں 1949 اور 1950 میں آزمایا گیا۔ 1960 کی دہائی سے یورپ میں اس ضمن پر تحقیق کم ہوتی گئی کیونکہ تیل کی قیمیتں کم ہو گئی تھیں اور توانائی کا بحران ختم ہو گیا تھا۔ تاہم 1980 کی دہائی میں دوبارہ سے یہ تحقیق جاری ہو گئی۔ 1988 میں یورپ کے چھ ممالک نے مل کر یورپیئن ورکنگ گروپ تشکیل دیا۔ 1994 میں نیوزی لینڈ میں چھوٹے پیمانے پر تجربہ کیا گیا۔ آسٹریلیا میں 1999 سے اس ضمن میں تجربات شروع ہوئے۔ 1980 کے اواخر سے چین نے اس ضمن میں سب سے بڑا پروگرام شروع کیا۔
عمل
ترمیماس طریقے سے زیر زمین کوئلے کو گیس میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ گیس کی پیداوار کو الگ کھودے گئے سوراخوں کی مدد سے نکالا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دوسری جگہوں سے سوراخ کر کے آکسیڈنٹس (ہوا، آکسیجن یا سٹریم وغیرہ) چھوڑی جاتی ہے جس سے اس کوئلے کو زیر زمین جلایا جاتا ہے۔ اس عمل سے بننے والی گیس کو جمع کرنے کے لیے الگ سے سوراخ کھودے جاتے ہیں۔ زیادہ دباؤ کے تحت اس کوئلے کو 700 سے 900 ڈگری پر جلایا جاتا ہے جو بعض اوقات 1500 ڈگری تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ اس عمل میں کوئلے میں توڑ پھوڑ ہوتی ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ، ہائیڈروجن، کاربن مونو آکسائیڈ اور میتھین پیدا ہوتی ہے۔ مزید برآں معمولی مقدار میں سلفر آکسائیڈز، مونو نائٹروجن آکسائیڈ اور ہائیڈروجن سلفائیڈ بھی پیدا ہوتے ہیں۔ کوئلے کو زیر زمین گیس میں بدلنے کے بہت سارے طریقے ہیں۔ تاہم یہ طریقے متعلقہ جگہ تک آکسیڈنٹس کو پہنچانے اور پھر گیس کے اخراج سے متعلق ہیں۔ چونکہ کوئلے کی عمر، ساخت اور جغرافیائی تاریخ کے اعتبار سے ساخت فرق ہوتی ہے، اس لیے گیس کے بہاؤ کے ضمن میں کوئلے پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا۔ سب سے سادہ طریقے میں دو کنویں کھودے جاتے ہیں۔ پہلے کنویں سے آکسیڈنٹس کو داخل کیا جاتا ہے اور دوسرے سے گیس نکالی جاتی ہے۔ ایک اور طریقے میں ان دونوں کنوؤں کو ایک دوسرے کے ساتھ ایک افقی کنویں کی مدد سے ملا دیا جاتا ہے۔ 1980 اور 1990 میں CRIP نامی طریقہ امریکا اور سپین میں آزمایا گیا ہے۔ اس طریقے میں ایک عمودی پیداواری کنواں کھودا جاتا ہے اور اس کے پہلو میں ایک دوسرا کنواں کھودا جاتا ہے۔ پھر اس دوسرے کنویں میں ایک انجیکٹر براہ راست کوئلے کے اندر پہنچا دیا جاتا ہے۔ یہ انجیکٹر متحرک ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ کوئلے سے تک پہنچ سکتا ہے۔ زیر زمین کوئلے کو گیس میں بدلنے کے لیے جو کوئلے استعمال ہو سکتے ہیں وہ لگنائٹ سے لے کر بیوٹامینس تک ہوتے ہیں۔ تاہم زمینی خصوصیات، آبی جغرافیہ، چٹانی ساخت، کوئلے کی مقدار اور معیار بھی اس طریقے کے چناؤ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر اہم عوامل درج ذیل ہیں:
- 100 سے 600 میٹر کی گہرائی
- 5 میٹر سے زیادہ موٹائی
- 60 فیصد سے کم راکھ
- کم از کم وقفے
- آبی ذخائر سے علیحدگی
بعض سائنس دان 100 سے 1400 میٹر تک کی گہرائی اور 3 میٹر تک کی موٹائی کے لیے بھی اس طریقے کو مؤثر گردانتے ہیں۔
معاشی پہلو
ترمیمزیر زمین کوئلے سے گیس کا حصول ان صورتوں میں معاشی اعتبار سے سود مند ہوتا ہے جب کوئلے کو کسی اور طریقے سے نہ نکالا جا سکے مثلاً بہت زیادہ گہرائی، کم معیار یا بہت کم موٹائی۔ بعض اندازوں کے مطابق اس تکنیک سے کوئلے کے قابل استعمال ذخائر کی مقدار 600 ارب ٹن بڑھ گئی ہے۔ محض امریکا میں قابل استعمال کوئلے کی مقدار 3 گنا بڑھ گئی ہے۔ اس کے علاوہ عام کان کنی کی نسبت یہ طریقہ کافی سستا ہے۔ اس عمل سے بننے والی گیس کو گیس ٹربائن سے چلنے والے پاور اسٹیشن میں استعمال کیا جا سکتا ہے اور بعض تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ اس سے 55 فیصد تک بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ عام قدرتی گیس کی نسبت اس گیس سے زیادہ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ اس طریقے کے مزید استعمالات درج ذیل ہیں:
- مائع ایندھن کی پیداوار
- دیگر کیمیکل جیسا کہ امونیا اور کھادوں کی پیداوار
- قدرتی گیس کی پیداوار
- ہائیڈروجن کی پیداوار
مزید برآں زیر زمین کوئلے کے جلنے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ بھی پیدا ہوتی ہے جسے مزید استعمال کیا جا سکتا ہے۔ زیر زمین کوئلے کو جلا کر گیس پیدا کرنے کا یہ عمل قدرتی گیس کا متبادل بھی ہے کیونکہ اس میں کان کنی، منتقلی اور ٹھوس فضلے جیسے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
منصوبے
ترمیمکوگر انرجی اور لنک انرجی آسٹریلیا میں چل رہے یہں۔ لنک انرجی کی ایک شاخ یروسٹیگاز اس وقت ازبکستان میں 10 لاکھ مکعب میٹر گیس یومیہ پیدا کر رہی ہے جسے پاور اسٹیشن میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جنوبی افریقہ میں ایسکوم نے یہ گیس پیدا کر کے اس سے بجلی کی پیداوار حاصل کی ہے۔ ای این این نامی کمپنی نے چین میں اس طریقے سے کامیابی حاصل کی ہے۔ مزید برآں آسٹریلیا، برطانیہ، ہنگری، پولینڈ، کینیدا، امریکا، چلی، چین، انڈونیشیا، انڈیا، جنوبی افریقہ، بوٹسوانا اور دیگر ممالک میں بھی مختلف کمپنیاں اس طریقے پر چل رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں اس وقت ایسے 60 سے زیادہ منصوبے چل رہے ہیں۔
ماحولیاتی اور معاشرتی اثرات
ترمیمکان کنی کی عدم موجودگی میں کان کنی سے متعلقہ تمام حفاظی مسائل ختم ہو جاتے ہیں۔ اس طریقے میں روایتی کان کنی کی نسبت زمین کی سطح کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا اور نہ ٹھوس فضلے پیدا ہوتے ہیں جبکہ سلفر ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن آکسائیڈ کی پیداوار بھی بہت کم ہو جاتی ہے۔ راکھ کی مقدار بھی دس گنا کم پیدا ہوتی ہے۔ تاہم زیر زمین عمل کو اتنی آسانی سے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا اور کئی عوامل جیسا کہ پانی کی آمد وغیرہ جیسے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ کان کنی سے متعلقہ تمام امور میں زیر زمین خلا بننے کا عمل لازمی ہوتا ہے۔ اگرچہ زیر زمین کوئلے کی گیس میں منتقلی سے کافی ساری راکھ اسی جگہ باقی رہ جاتی ہے لیکن عام طور پر اس طریقے سے بننے والا خلاء کسی بھی دوسرے طریقے سے زیادہ گہرا ہوتا ہے۔ زیر زمین جلنے سے کوئلے سے کم فاضل مادے خارج ہوتے ہیں جس کی وجہ سے تیزابی بارشیں کم ہوتی ہیں۔ اسی طرح امونیا اور ہائیڈروجن سلفائیڈ نسبتاً بہت کم لاگت سے نکالا جا سکتا ہے۔ تاہم ان فاضل مادوں کا پانی تک پہنچ جانا ماحولیاتی اعتبار سے کافی خطرناک ہو سکتا ہے۔
بیرونی روابط
ترمیم- Ergo Exergy Tech - global supplier of UCG technology
- UCG Associationآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ucgassociation.org (Error: unknown archive URL)
- Energy & Environmental Research Centre (EERC) - UCG overviewآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ undeerc.org (Error: unknown archive URL)
- CO2SINUSآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ co2sinus.org (Error: unknown archive URL) CO2 Storage in in situ Converted Coal Seams - Research Project at the RWTH Aachen University.