زیر لب (خطوط)
"زیرِ لب " صفیہ اختر کے خطوط کا مجموعہ ہے جسے جاں نثار اختر نے ترتیب دے کر کتابی شکل میں صفیہ اختر کی وفات کے بعد شائع کیا۔ [1]
کتاب کا موضوع
ترمیماس کتاب کا بڑا حصہ صفیہ اختر اور جاں نثار اختر کے درمیان لکھے خطوط پر مشتمل ہے۔ خطوط کے علاوہ اس کتاب میں چند شاعروں اور ادیبوں کی نظمیں اور آرا بھی شامل ہیں جن میں فراق، رضیہ سجاد ظہیر اور کرشن چندر کا نام قابل ذکر ہے۔جاوید اختر کے والد جاں نثار اختر کی دو نظمیں "خاکِ دل" اور "خاموش آواز" شامل ہیں۔ نظم "خاک دل" 1953 میں صفیہ اختر (والدہ جاوید اختر) کی موت پر لکھنؤ سے جاتے ہوئے لکھی گئی تھی جبکہ دوسری نظم "خاموش آواز" صفیہ اختر کی پہلی برسی کے موقع پر 1954 میں جنوری کی ایک رات، صفیہ اختر کی مزار پر لکھی گئی۔ کتاب خطوط کی تعداد 222 کے لگھ بھگ ہے اور اتنی بڑی تعداد میں دو ادیبوں کے درمیان خط کتابت اردو ادب میں کم ہی شائع ہوئی ہے۔ خطوط کا آغاز 22 دسمبر 1949 سے ہوتا ہے اور آخری خط 29 دسمبر 1952 کے قریب قریب لکھا گیا۔ تمام خطوط صفیہ اختر نے جاں نثار اختر کے نام لکھے، جاں نثار کے جوابی خطوط اس کتاب میں شامل نہیں ہیں۔ صفیہ اختر کی وفات کے دو سال بعد 1955 میں جاںثار اختر نے ان تمام خطوط کو یکجا کرکے کتابی شکل میں شائع کروا دیا۔
صفیہ اختر اور جاںثار اختر
ترمیمصفیہ اختر اور جاںثار اختر دونوں علی گڑھ میں زیر تعلیم رہے اور وہیں ایک دوسرے سے ان کا تعارف ہوا۔ صفیہ اسرار الحق مجاز کی بہن تھیں اور ایک متمول تعلیمی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ صفیہ کے اصرار پر ان کی شادی جانثار اختر سے 1943 میں ہو گئی۔ شادی کے پہلے چار سال صفیہ اور جانثار اختر الگ الگ شہروں میں ملازمت کرتے رہے۔ نو سالہ ازدواجی زندگی میں دونوں کو ساتھ رہنے کا موقع صرف بھوپال میں میسر آیا، تقریباََ دو سال۔ اس کے علاوہ دونوں علاحدہ ہی الگ الگ شہر میں مقیم رہے۔ اس ہجر اور دوری میں صفیہ اختر نے تسلسل سے جانثار اختر کو خطوط لکھے جن سے دو کتابیں معرض وجود میں آئیں: زیر لب اور حرف آشنا۔
ادیبوں کی آرا
ترمیمخیر النسا مہدی جو صفیہ اختر کی سہیلی تھیں، وہ زیر لب کے خطوط کے بارے میں لکھتی ہیں:
"صفیہ کے خطوط روزمرہ کی باتیں ہی نہیں ہیں۔ خلوص درد اور وفا کی آگ میں جلتی ایک خاتون کی کہانی بھی ہے۔ دل کی آواز کی سرگوشیاں بھی سنائی دیتی ہیں جس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ معمولی معمولی الفاظ میں چھپی ہوئی کراہیں جو پڑھنے والے کے ذہن میں پیوست ہو جاتی ہیں۔ یہی تو خطوط کا کارنامہ ہے کہ معمولی کو غیر معمولی اِتنی خوب صورتی سے بنایا کہ فن کاری کا راز چھپا بھی رہے اور اُبھر بھی رہے۔"[2]
خطوط نگاری کے حوالے سے خورشید الاسلام کہتے ہیں:
"عدم سے وجود میں لانے کا کام ’’نہیں‘‘ کو ’’ہاں‘‘ میں بدل ڈالنا ہے کچھ سے کچھ تو ہے کا معجزہ کھانا خطوط نگاری کا کمال ہے"۔ [3]
کتاب سے اقتباسات
ترمیمپہلے خط سے اقتباس:
"اچھے بُرے قوت سب گُزر جاتے ہیں۔ پریشانی کا مقابلہ عزم اور استقلال سے اخلاقی بلندی کی دلیل ہے۔ جذباتی طور پر اپنی بے روز گاری کا رونا نہ لے بیٹھنا۔ ظاہر ہے کہ اگر تم چاہو تو تمھاری ٹھاٹھ دار ملازمت آج بھی تمھاری منتظر ہے۔ لیکن یہ تو اپنے انتخاب کا سوال ہے۔ مگر پیارے اختر بہت سے لوگ تو تم سے زیادہ پریشانی اُٹھا رہے ہیں۔ ہمیں اُن کی طرف بھی دیکھنا ہے"۔
آخری خط کے چند جملے:
"اختر آؤ۔ مجھے مرنے نہ دو۔ میں مرنا نہیں چاہتی البتہ بہت تھک گئی ہوں۔ ساتھی آؤ میں تمھارے زانو پر سر رکھ کر ایک طویل نیند لے لوں۔ پھر تمھارا ساتھ دینے کے لیے ضرور ہی اُٹھ کھڑی ہوں گی۔"