سائبہ اہل عرب کا بتوں کے نام کی ہوئی اونٹنی کو دیا گیا نام جس کا ذکر قرآن نے المائدہ 103 میں کیا

  • مَا جَعَلَ اللّهُ مِن بَحِيرَةٍ وَلاَ سَآئِبَةٍ وَلاَ وَصِيلَةٍ وَلاَ حَامٍ وَلَـكِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ يَفْتَرُونَ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ وَأَكْثَرُهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ
  • اللہ نے نہ بحیرہ کو مشروع کیا ہے اور نہ سائبہ کو اور نہ وصیلہ کو نہ حامی کو، البتہ جو لوگ کافر ہیں وہی اللہ پر جھوٹ جوڑتے رہتے ہیں۔ اور ان میں سے اکثر عقل سے کام نہیں لیتے۔
  • اس میں بہت اختلاف ہے
  • سائبہ وہ اونٹنی ہوتی ہے جس کو لوگ اپنے بتوں کے لیے کے لیے چھوڑ دیتے تھے۔
  • سائبہ وہ اونٹنی ہے جو متواتر دس اونٹنیاں جنم دے درمیان میں مذکر بچہ نہ ہو نہ اس پر سواری کی جاتی تھی اور نہ اس کی اون کاٹی جاتی تھی اور نہ اس کا دودھ، سوائے مہمان کے کوئی پیتا تھا جو اس کے بعد بھی بچی جنم دیتی تو اس بچی کے کان کاٹے جاتے تھے اور اسے بھی ماں کے ساتھ چھوڑ دیا جاتا تھا اس پر نہ سواری کی جاتی تھی نہ اس کی اون کاٹی جاتی تھی اور اس کا دودھ سوائے مہمان کے کوئی نہیں پیتا تھا جیسا کہ اس کی ماں کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ امام شافعی نے فرمایا : جب اونٹنی پانچ بطنوں سے مادہ ہی جنم دیتی تو اس کے کان کاٹ دیے جاتے اور حرام کردی جاتی تھی۔
  • سائبہ وہ اونٹ ہے جو نذر کی وجہ سے چھوڑا جاتا تھا جو انسان پر ہوتی تھی وہ اس طرح نذر مانتا تھا کہ اگر اللہ نے اس کو مرض سے صحت بخشی یا اسے گھرپہنچایا تو وہ ایسا کرے گا، وہ اونٹ نہ تو کسی چراگاہ سے روکا جاتا اور نہ کسی پانی سے اور نہ کوئی اس پر سوار ہوتا۔ بعض نے فرمایا : سائبۃ وہ اونٹنی ہے جو چھوڑی گئی ہے اس پر کوئی قید نہ ہو اور نہ اس کا چرواہاہو[1]
  • ابو عبید ہ نے کہا منت پر چھوڑے ہوئے سانڈھ اونٹ کو سائبہ کہا جاتا تھا اگر کسی بیمار کی صحت یا مسافر کی واپسی کے لیے منت مانی جاتی تھی تو مراد پوری ہونے پر اونٹ کو سانڈھ بنا کر چھوڑ دیا جاتا تھا اور کسی چراگاہ یا چشمہ سے اس کو نہیں روکا جاتا تھا نہ اس پر کوئی سوار ہوتا تھا گویا بحیرہ کی طرح اس کو بھی سانڈھ بنا دیا جاتا تھا۔ سائبہ نر بھی ہوتا اور مادہ بھی[2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. احکام القرآن، لابن العربی، جلد 2 صفحہ 701بحوالہ قرطبی
  2. تفسیر مظہری قاضی ثناء الل پانی پتی زیر آیت المائدہ 103