سالم بن عبید اشجعی صحابی رسول اصحاب صفہ میں شمار کیے جاتے ہیں۔
سالم بن عبید ہ کے شاگرد نبیط بن شریط اور نعیم بن ابی ہندنے سالم کو اصحابِ صفہ میں شمارکیا ہے ۔[1] سالم نام، والد کانام عبید، قبیلۂ اشجع سے تعلق رکھتے ہیں ، علامہ ابن حجر فرماتے ہیں ان کی صرف تین احادیث ہیں ۔ جن میں سے دوروایتیں اصحاب السنن (سننِ ابوداؤد ، سننِ نسائی، سننِ ترمذی اور سننِ ابن ماجہ) نے ’’باب العطاس‘‘ میں نقل کی ہیں اور ایک روایت میں انھوں نے عمر فاروق کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الوفات کے وقت کی کیفیت نقل کی ہے ، سالم بن عبید اصحابِ صفہ میں ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا جس وقت مرض بڑھتا گیا اور آپ علیہ الصلاۃ والسلام پربے ہوشی طاری ہوتی چلی گئی اس وقت آپ ہوش میں آئے تو فرمایا: تم لوگ بلال کو اذان دینے کا حکم دو اور ابوبکر کولوگوں کی امامت کرنے کا حکم دو، یہ فرماتے ہی بے ہوش ہو گئے ۔ جب افاقہ ہواتو عائشہ نے عرض کیا: میرے والد محترم بڑے نرم دل ہیں ، کاش! آپ ان کے علاوہ کسی اور کوامامت کرنے کا حکم دیتے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ یوسف علیہ السلام کی عورتوں کے مانند ہو۔ جاؤ! بلال کو اذان دینے کاحکم دو اور ابوبکر کو لوگوں کی امامت کا حکم دو۔ [2] سالم بن عبید کے فیض یافتگان میں ہلال بن یساف اور خالد بن عرفطہ ہیں ۔[3]۔

سالم بن عبید الاشجعی
معلومات شخصیت

حوالہ جات

ترمیم
  1. حلیۃ الأولیاء:1/371
  2. المغازي: 3/1074
  3. الإصابۃ : 2/ 5، الإستیعاب: 2/68