صدیوں کی سُرکتھا ابتدائے کائنات سے اب تک انسان نے اپنی فطری حسں لطافت اور جمال پسندی کی طمانیت و تسکین کے لیے مختلف فنون ایجاد کیے اور ارتقا کے بعد انھیں مستند روپ میں ڈھالا۔ فنون لطیف میں فن غنایت ایسا فن ہے جو اپنی افادیت اور تاثیر کی وجہ سے دیگر فنون میں منفرد، اعلیٰ وارفع اور اُتم فن ہے۔ سُر، لے اور تال کے امتزاج کو سنگیت یا موسیقی کہا جاتا ہے جس کی پیدائش، ابتدا و ارتقا کے متعلق دنیا کی ہر تہذیب میں مختلف روایات مشہور ہیں۔ ان میں سے تو کئی ایک تو محض قرین قیاس اور تخیل آرائی سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ روایات مستند یا معقول ہوں نہ ہوں لیکن بہرحال ان کی اساطیری اہمیت اپنی جگہ ہے۔ کوئی محقق ان روایات کو یکسر نظر انداز کر کے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ برصغیر پاک و ہند میں فن موسیقی کی روایات دور افتادہ صدیوں پر محیط طویل کہانی ہے جسے کسی ایک نشست میں بیان کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ برصغیر کا اہم ترین علاقہ وادی سندھ اور اس کے کشادہ سینے پر پھیلا عظیم سرائیکی خطہ جسے عرف عام میں روہ، روہی، تھل، دمان کہا جاتا ہے، میں دل کی طرح دھڑکتا دل یعنی ازل آشنا شہر ملتان ازمنہ قدیم سے اب تک تہ در تہ مختلف ادوار پر محیط تہذیبی و ثقافتی تاریخ کا امین ہے۔ بہت سی تہذیبوں نے قطار اندر قطار اس عظیم شہر کی گود میں جنم لیا اور قصہ پارینہ ہوگئیں۔ ملتان میں تہذیب انسانی نے جہاں زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقی کی وہاں فنون لطیفہ کی مختلف اقسام نے ارتقائی سفر طے کیا۔ ان مستند فنون میں سے ایک ’’فن موسیقی‘‘ بھی ہے۔ جس کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط سریلی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ خطہ ملتان اور اس کے وسیب کے گوشے گوشے میں امرت گھولتی ان گنت آوازوں نے سرسنگیت کی وہ داستانیں رقم کیں کہ تاریخ موسیقی ان امر آوازوں کی ’’سُر کتھا‘‘ بیان کرتے ہوئے مدہوش سی ہوجاتی ہے۔ فن سنگیت کی مختلف اصناف میں لوک موسیقی ایسی صنف ہے جسے سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔ وہ اس لیے کہ یہ انسان کے احساسات و جذبات کے فطری عمل کا نتیجہ ہوتی ہے جس میں زندگی کے تمام مناظر کی رنگا رنگی، حسن و سرمستی اور دلکشی نظر آتی ہے۔ لوک موسیقی جب سماعتوں میں اترتی ہے تو ایک نئی کیفیت، مدہوشی و سرشاری سے ہمکنار کرتی ہے اور عوام میں مقبولیت کا ایک راز یہ بھی ہے کہ لوک موسیقی میں نہ بناوٹ ہوتی ہے اور نہ کوئی فنی پیچیدگی، لوک سنگیت استادانہ کلا کاری سے بھی یکسر آزاد ہوتی ہے۔ اس میں جو کسک اور درد و کرب کی لہریں ہیں وہ ایک مشترکہ انسانی ورثہ ہے۔ ملتان میں لوک موسیقی کی روایت کو ہم تین اہم حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ پہلا حصہ ازمنہ قدیم سے جنگ آزادی تک ہے۔ جب یہاں کی موسیقی اس شہر میں آباد مختلف مذاہب کے لوگوں کی عبادت گاہوں تک محدود تھی اور مختلف سنگیت ودیالوں میں رقص اور موسیقی کا مظاہرہ ہوتا تھا اور اس وقت کی گائیکی دُھر پدگائیکی سے ملتی جلتی تھی او راہل ملتان موسیقی میں اس قدر دلچسپی رکھتے تھے کہ برصغیر پاک و ہند میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ راگ ملتانی، ملتانی دھنا سری، ملتانی ٹوڈی اس روایت کی اہم مثالیں ہیں۔ ملتان میں موسیقی کی روایت کو مضبوط کرنے میں یہاں کے صوفیا کا بھی اہم کردار رہا ہے اور انھوں نے فن موسیقی کو اس قدر عروج بخشا کہ یہ نظر یہ غلط ثابت ہو گیا کہ فن موسیقی ہندوؤں کا ورثہ ہے۔ ان دنوں مسلمان موسیقاروں کی تعداد ہندوؤں سے کہیں زیادہ نظر آنے لگی اور یہاں لوک موسیقی، کلاسیکل اور کافی گائیکی کو کہیں فروغ حاصل ہوا۔ لوک موسیقی کی اگر بات کریں تو 20 ویں صدی میں لوک موسیقی کے حوالے سے ایسے بڑے بڑے نام موجود ہیں جنھوں نے ملتان میں لوک موسیقی کی روایت کو مضبوط بنیادیں فراہم کیں۔ دوسری جنگ عظیم تک ملتان میں موسیقی کے حوالے سے بڑے بڑے نام موجود تھے۔ ملتان میں نقارہ اور شہنائی دو ایسے ساز ہیں جنہیں وسیب کے معروف اور نمائندہ ساز کہے جا سکتے ہیں۔ ان دو سازوں کے حوالے سے ملتان میں بڑے بڑے نام موجود رہے ہیں جنھوں نے ان سازوں کی بدولت لوک موسیقی کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ 20ویں صدی کو ایجادات کی صدی بھی کہا جاتا ہے۔ 20 صدی کے آغاز میں گراموفون کی آمد نے دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ اس سے پہلے ملتان میں لوک موسیقی صرف میلوں، ٹھیلوں اور لوک تھیٹروں تک ہی محدود تھی کیونکہ ان دنوں ریڈیو اور ٹیلی ویژن نہیں آیا تھا۔ لوک گائیکوں نے اپنے فن کے اظہار کے لیے دو راستے اختیار کیے ایک تھا گراموفون ریکارڈز جسے عرف عام میں ’’تھالی واجہ‘‘ کہتے تھے اور دوسرا ذریعہ لوک تھیٹر کا تھا، لوک تھیٹر کی موسیقی کا ارتقا بیان کرنے سے پہلے میں گراموفون کی آمد اور 20ویں صدی کے آغاز سے 60ء کی دہائی تک گرامو فون Records میں ملتان کی لوک موسیقی اور گلوکاروں کا تذکرہ کرنا چاہوں گا، جن کے گراموفون ریکارڈز تیار ہوئے۔ 1910ء کی بات ہے کہ جب کلکتہ میں (16-RPM) ریکارڈز کی تیاری کا آغاز ہوا تو برصغیر پاک و ہند کے دیگر حصوں کی طرح ملتان سے بھی لوک گائیکوں کی ایک کھیپ نے ریکارڈنگ کے لیے کلکتہ کا رخ کیا اور ان Records پر لفظ ’’ملتانی‘‘ لکھا گیا یعنی ’’ملتانی لوک گیت ’’ملتانی کافی، ملتانی نوحہ، ملتانی مرثیہ‘‘ وغیرہ جن نایاب آوازوں میں لوک موسیقی، کافیاں ودیگر اصناف گائیکی ریکارڈز کی گئیں ان میں استاد عاشق علی خان، حافظ عبد الرحمن، سید علی نقی شاہ، پنڈت گھن پت، مس بدرو ملتانی، استاد عبد الکریم، غلام حیدر ملتانی، الٰہی جان، کالو جان، استاد فیض بخش، استاد امیر بخش، چودھری نور محمد، ماسٹر پرمانند، بھگت جارارام، سیئں فضل عباس، استاد محمد نواز، عنایت بائی، ڈھیرووالی، مائی بادلی، موتی جان جیسے نام شامل ہیں۔ ان لوک فنکاروں کی آواز میں ملتانی لوک سنگیت کا کافی ورثہ (16RPM) اور بعد میں (78RPM) ریکارڈز کے کالے کالے گول دائروں میں محفوظ ہوا۔ ان دنوں ریکارڈنگ کمپنیاں گویوں کا نام ریکارڈ پر لکھا کرتی تھیں۔ شاعر کا نام ریکارڈ پر درج نہیں ہوتا تھا اور گلوکار گانے کے آخر میں اپنا نام بتایا کرتا تھا۔ مثال کے طور پر اگر لوک فنکارہ بدرو ملتانی کا ریکارڈ ہوتا تھا تو وہ آخر میں کہتی کہ ’’آئی ایم مس بدرو ملتانی‘‘ یعنی میں ہوں مس بدرو ملتانی، تو یوں ملتان اور اس کے وسیب کے کئی لوک فنکاروں کی آوازوں کا نور پہلی جنگ عظیم سے لے کر تقسیم ہند کے بعد 60ء کی دہائی تک گراموفون ریکارڈز میں محفوظ ہوا۔ اس کے بعد 70ء کی دہائی میں کیسٹ ریکارڈز کی آمد سے گراموفون صنعت کو زوال آ گیا۔ ملتانی لوک موسیقی کے فروغ میں سب سے اہم اور بنیادی کردار ان لوک تھیٹریکل کمپنیوں کا رہا ہے جن کے پلیٹ فارم سے ان گنت لوک گائیکوں نے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔ 20ویں صدی کے آغاز میں ممبئی، کلکتہ، دہلی، امرتسر، لدھیانہ، انبالہ کی طرح ملتان بھی تھیٹر کا گڑھ تھا۔ مختلف پارسی وسکھ سیٹھ مالکان کی تھیٹر کمپنیاں ملتان میں پڑائو ڈالتی تھیں اور ڈرامے سٹیج کرتی تھیں، کہتے ہیں جس تھیٹر کمپنی کا ڈراما ملتان میں کامیاب ہو جاتا وہ پورے برصغیر میں کامیابی کے جھنڈے گاڑتی تھی لیکن ان میں قباحت یہ تھی کہ یہ تھیٹر کمپنیاں اردو منظوم ڈرامے سٹیج کیا کرتی تھیں۔ تو ان کے مقابلے میں ملتان کی مقامی ’’لوک تھیٹر کمپنیوں‘‘ نے اپنے قدم جمانے شروع کیے اور لوگ اپنی ماں بولی میں تھیٹر تماشا دیکھنے کی طرف متوجہ ہوئے۔ 1930ء تک ملتان میں کم و بیش 60 کے لگ بھگ مقامی لوک منڈلیاں اور لوک تھیٹرزموجو د تھے جن میں سینکڑوں کی تعداد میں اداکار، ساز کار اور لوک گلوکار پرفارم کیا کرتے تھے۔ان دنوں صوفیائے کرام کے اعراس ، موسمی تہوار اور سنگ میلے ان کے خاص مراکز تھے۔ جہاں یہ لوک تھیٹرز کمپنیاں پرفارم کرتی تھیں۔ ملتان میں لوک تھیٹرز کے حوالے سے اوّلین نام استاد نورن گدائی کا آتا ہے،جنھوں نے ملتان اور سرائیکی وسیب میں لوک تھیٹرز کی روایت کو مضبوط بنیادیں فراہم کیں، اسی لیے انھیں ’’بابائے لوک تھیٹر‘‘ کہا جاتا ہے ۔ فن موسیقی خصوصاً لوک موسیقی کے فروغ کے لیے استاد نورن گدائی کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ فنون لطیفہ کے ہر شعبے میں باصلاحیت اور خداداد تخلیقی صلاحیتوں کے حامل آرٹسٹوں کو گمنام گلیوں سے دریافت کرکے شہرت کی بلندیوں تک پہنچانے والے قدرتی صلاحیتوں سے مالا مال ہشت پہلو شخصیت استاد نورن گدائی کی فنی پرواز سات آسمانوں تک تھی، وہ ماہر موسیقی ، شاعر، ڈراما نگار، قصہ گو، ہدایت کار، گائیک غرض کون ساشعبہ ہوگا جس میں نورن گدائی کا مل دسترس نہ رکھتے ہوں؟ ان کی فنی اڑان کا پھیلائو ایک صدی سے زائد عرصے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس وقت کے بڑے بڑے موسیقار، شاعر، ڈراما نگار اور گائیک استاد نورن گدائی کو اپنا استاد تسلیم کرتے تھے جنھوں نے فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں استاد نورن گدائی سے فنی رہنمائی لی۔ 20ویں صدی کی پہلی 5 دہائیوں میں استاد نورن گدائی کا کوئی مد مقابل نہ تھا۔ 20ویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں جب اردو تھیٹر ڈراما عروج پر تھا تو آغا حشر سمیت مختلف تھیٹر کمپنیاں ملتان میں ڈرامے کے لیے آئے روز پڑائو ڈالتی رہتی تھیں جو مذہبی و تاریخی نوعیت کے ڈرامے پروڈیوس کرتی تھیں، ان کی موسیقی بھی مذہبی دائرے میں مقید ہو چکی تھی۔ ان حالات میں استاد نورن گدائی نے پہلی جنگ عظیم کے دوران ’’ مار کہ نورن گدائی‘‘ کے نام سے تھیٹرکمپنی بنائی۔ جس کو ملتان کی سب سے بڑی اور ابتدائی لوک تھیٹر کمپنی کا اعزاز حاصل ہے چونکہ پہلی جنگ عظیم کا زمانہ تھا او ر لوگ اپنی ماں بولی میں موسیقی، شاعری اور ڈراما دیکھنے اور سننے کے متمنی تھے، استاد نور ن گدائی کے مارکے نے سرائیکی فنون کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ۔ استاد نورن گدائی کا اصل نام نور محمد تھا اور آپ 1865ء میں بہاولپور کے ایک لاہر بلوچ خاندان میں پیدا ہوئے ان کا خاندان ان کے بچپن ہی میں اندرون پاک گیٹ ملتان او ر خونی برج کے درمیان قدیمی محلے قصاب پورہ منتقل ہوا۔ یہاں نورن گدائی نے لوک تھیٹر کمپنی بنائی جن میں ملتان کے مختلف ذاتوں اور پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوک گائیک، ساز کار اور ایکٹر موجود تھے۔ بھیڈی پوترہ اور نقارچی خاندان کے طبلہ نواز، سارنگی نواز، بانسری نواز، پکھاوجی اور ہار مونیم نواز بھی شامل تھے۔ ویسے تو استاد نورن گدائی نے سینکڑوں کی تعداد میں لوک گائیک و ساز کار اور موسیقار متعارف کرائے جن کے ناموں پر ابھی تک گمنامی کی گرد پڑی ہے۔ راقم الحروف استاد نورن گدائی کمپنی کے جن آرٹسٹوں کے ناموں کاکھوج لگا سکا ہے ان میں خونی برج والے بہادر خان بلوچ، احمد خان بلوچ، استاد فتح محمد خان آڑھتی، استاد امیر بخش نثار لوک گائیک وہارمونیم نواز، استاد نذر، دلدار خان بلوچ، میرو مائی، استاد منے خان، اللہ ڈوایاقوال، بکھو سجھ ابھارا، عاشق جوگی، امیر بخش سری ساڑ جیسے لوک فنکار شامل تھے۔ بعد میں نقشبند پل والے آرٹسٹ بھی نورن گدائی کی کمپنی میں شامل ہوئے۔ اس کے علاوہ اندرون شہر محلہ ٹہل رام و محلہ بھیتیسرائے،خونی برج ،چونگی نمبر14،کوٹلہ تولے خان، دہلی گیٹ، محلہ آغا پورہ کے کم و بیش 60کی تعدادمیں آرٹسٹ شامل تھے۔ استادنورن گدائی کے شاگردوں میںملتان کے عہدساز موسیقار ،اداکار اور تھیٹریکل شخصیات استادگانمن، استادپیر بخش پیرن، پاک مائی قبرستان والے اور سردار بخش سردارا جیسے نام شامل تھے۔ جنھوں نے بعد میں علاحدہ علاحدہ تھیٹریکل کمپنیاں بنائیں۔ ان میں گانمن تھیٹر نے توپورے ملک میں اپنی کارکردگی اور مقبولیت کاسکہ جمایا۔ استاد گانمن کے لوک موسیقی پربے پناہ احسانات ہیں۔ پہلے استادنورن گدائی اور ان کے بعد اُستاد گانمن کی لوک تھیٹر کمپنی نے ملتان اور سرائیکی وسیب میں فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والا ٹیلنٹ متعارف کرایا ۔ کمال یہ ہے کہ جب سرائیکی و سیب کاپہلاریڈیوسٹیشن ملتان میں قائم ہوا تووہ ابتدائی لوک گائیک جنھوں نے ریڈیوملتان سے اپنے فنی سفرکا  آغاز کرتے ہوئے وسیبی میلوڈی میں رچے جولوک گیت،دوہڑے اور مخلف موضوعاتی گیت ریکارڈکرائے وہ گانمن لوک تھیٹر پر گائیک برسوں سے گاتے چلے آ رہے تھے۔ ریڈیو ملتان کی اس حوالے سے خدمات ناقابل فراموش ہیں کہ سرائیکی وسیب میں مختلف علاقوں میںبکھری صدیوںقدیم سینکڑوں کی  تعداد میں وہ لوک دھنیں اور لوک گیت جوہزاروں سال کے تہذیبی سفرمیں سینہ بہ سینہ سفرکرتے اورارتقاء کی منازل طے کر رہے تھے ۔ ان کوہمیشہ کے لیے ٹیپ کے فیتوں میں محفوظ کیے جانے کے لیے ایک مضبوط پلیٹ فار م مل گیا تھااور ریڈیو ملتان کے ابتدائی لوک فنکار استادگانمن  کے تھیٹرسٹیج سے ہی اٹھ کر ریڈیوملتان کے سٹوڈیوتک پہنچے تھے توبات استادنورن گدائی کی ہورہی تھی  استاد نورن گدائی کا 24جولائی 1946ء کوانتقال ہو گیا اور سٹی اسٹیشن کی بغل میں موجود وسیع وعریض ملتان کے قدیمی قبرستان میںسپردخاک ہوئے۔ راقم نے 2008ء میں جب استاد نورن گدائی کی قبردریافت کی تھی،فاتحہ بھی پڑھی اور تصویربھی بنائی۔ المیہ یہ ہے کہ 20ویں صدی کے ملتان میں فن موسیقی کے اہم نام جنھوں نے ملتان میں فن موسیقی کے فروغ کے لیے  اپنی زندگیاں پھونک دیں ۔ ان میں اکثریت کی قبریں پاک مائی قبرستان میں ہیں۔ بقول استاد حسین بخش خان سارنگی نواز بھیڈی پوترہ والے کے ملتان میں لودھی گھرانے میں کل 7بھائیوں کے فنکار گھرانوں اور بھیڈی پوترہ ،نقارچی خاندان ودیگر موسیقاروںاور سازکاروں کی سینکڑوں قبریں پاک مائی قبرستان میںموجود ہیں۔ جن میں کئی ایک قبریں ختم ہو گئی ہیںا ور اب اندازے سے گورکن بتاتے ہیں کہ یہاں فلاں گائیک یاگائیکہ کی قبرتھی۔اب قدیم گورکن بھی ایک ایک کرکے دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔ اب نشان دہی کرنے والے بھی چند گورکن بچے ہیں کہ جوبتاسکیں کہ فلاں آرٹسٹ کی قبر کہاں ہے؟ استادنورن گدائی کی قبراستاد پیربخش پیرن نے بنوائی تھی جونورن گدائی کے شاگردتھے اور انھوں نے گانمن کے دور میں بھی پیرن تھیٹرکمیٹی بنائی تھی جن کااحوال آگے آرہاہے۔ استاد نورن کی وفات کے بعد استاد گانمن نے تھیٹرکمپنی بنائی جن میں کم وبیش 150کے لگ بھگ آرٹسٹ کام کیاکرتے تھے جن میں لوک گائیک، موسیقار،بانسری نواز،طبلہ نواز اوردیگر کریکٹرایکٹر  موجود تھے۔ استاد گانمن بھی بذا ت خود ماہرموسیقی تھے۔ ساتھ ہی شاعر بھی قادر الکلامی کایہ عالم تھا کہ ایک ہی نشست میںکئی کئی دوہڑے لکھ دیتے تھے۔ بعض اوقات تو یہ صورت حال ہوتی تھی کہ ادھرچھولداری میں استادگانمن تازہ دوہڑے لکھ کردیتے جا رہے ہیں اور لوک گائیک تھیٹر کے سٹیج پرگاتے جا رہے ہیں۔ اے ڈی ساغر، شفیع کنول، آزادملتانی، نوازمیانی والا، استاد سرداربخش سردارا اور ان جیسے کئی لوک فنکاروں نے اپنے فنی سفر کا آغازاستادگانمن کے تھیٹر سے کیا۔ کہتے ہیں کہ مہدی حسن جنھوں نے کافی عرصہ گمنامی میں گزاراانہوں نے بھی گانمن کے تھیٹر میں گایاتھا لیکن استادگانمن نے یہ کہہ کر مہدی حسن کوتھیٹر میں کام نہ دیاکہ مہدی حسن کاانداز گائیکی تھیٹریکل دنیا کے لیے بالکل موزوں نہیں تھا۔ استادگانمن کے ساتھ ان کے بھائی استادواحدبخش اورشاگرداستاداللہ بخش روانی والے بھی سنگیت کے اسرارو رموز سے آگاہ تھے۔ استادگانمن جن کااصلی نام منشی غلام حسین تھا میاں عبد اللہ پٹھان کے ہاں 1891ء میں لطف آبادمیں پیداہوئے۔ان کابچپن قادرپورراں کے نواحی موضع روانی میں گذرا۔استادگانمن کاانتقال 8فروری 1986ء بروزپیرہوا جبکہ ان کے بھائی واحدبخش کا انتقال 15دسمبر1988ء کوہوا۔ استادگانمن کے ایک اور شاگرد خادم حسین پردیسی کا انتقال 17نومبر1991ء کو ہوااوراستاد گانمن کے نواسے مختار حسین جنھوں نے استادگانمن کے تھیٹر کی روایت کوان کی وفات کے بعد جاری رکھاتھا کاانتقال 16دسمبر 2013ء کوہوا ہے۔ دنیائے لوک تھیٹرکی ان تمام لیجنڈ شخصیات کی قبریں لطف آباد عیدگاہ پیرمحمدغازی قبرستان میں موجود ہیں۔ ان تمام قبروں کی دیکھ بھال استادگانمن کے نواسے اور تاحیات خدمت گاراللہ دتہ بھٹی المعروف شہنشاہ کرتے ہیں۔ راقم الحروف سرائیکی لوک تھیٹر کے شہنشاہ استاد گانمن کے تھیٹر کی قبرپرکئی بارفاتحہ پڑھ چکا ہے اوران کی قبروں کی تصاویربھی راقم کے پاس موجود ہیں۔ استادگانمن کے تھیٹر کی ایک خاص بات یہ تھی کہ ان کے تھیٹر میں کبھی کسی عورت نے کام نہیں کیا تھا۔ استادعبدالرحمن عرف مانا‘ استادگانمن کے معروف پیٹی ماسٹراور موسیقارتھے جوان کے ڈوہڑوں اور لوگ گیتوں کی کمال دھنیں بنایاکرتے تھے۔ایک بارگانمن کی تھیٹرکمپنی کے ٹرک کوحادثہ پیش آیا جس کے نتیجے میں استاد عبد الرحمن کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئی تھیں اور ان کی زندگی کے آخری ایام انتہائی کسمپرسی کی حالت میں گذرے۔ استاد عبد الرحمن عرف مانا نے موسیقی کی تعلیم ماسٹرخادم حسین ہارمونیم نواز سے حاصل کی تھی جوگراموفون سنگرنگینہ جان کے بھائی تھے۔ استادخادم حسین کوڑے خا ن طبلہ نواز کے ہم عصر تھے۔زندگی کے آخری دنوں میں استاد خادم حسین کی بینائی چلی گئی اور گمنامی میں انتقال کرگئے۔ استاد گانمن کے تھیٹرمیں کا م کرنیوالے ایک اورعہدساز آرٹسٹ ‘گائیک اور 1973ء میں شاعر سرداربخش سردارا تھے۔ بہت کمال گاتے تھے اور ایک بار سوہنی مہینوال کاڈرامہ حافظ شاہ جمال روڈ مٹھوشاہ دربارکے احاطے میں ہواتوڈرامے کے ایک منظر میں سوہنی مہینوال سے مچھلی کھانے کی خواہش کااظہار کرتی ہے تو سرداربخش سردارا نے کھیل میں حقیقت کارنگ بھرنے کے لیے استرے سے حقیقت میں مچھلی کی جگہ اپنی ران سے گوشت کاٹکڑا کاٹ کرسوہنی کودے دیا۔ اس منظر پر وہاں موجود حاضرین کی چیخیں نکل گئیں اور کئی کمزوردل حضرات بے ہوش ہو گئے۔سرداربخش سردارا کوکسی نے سیندور کھلا دیاتھا جس کی وجہ سے وہ زندگی بھرنہ گاسکے۔ اسی غم میں گھل گھل کرفوت ہو گئے۔راقم الحروف نے سرداربخش سرداراکی شخصیت اورفن پرکافی تحقیق کی ہے۔کہتے ہیں کہ سرداربخش سردارا کی زندگی کاآخری حصہ ایک دربار کی مجاوری کرتے ہوئے گزرااور دربار کے احاطے ہی میں انتہائی کسمپرسی اور گمنامی کی حالت میں انتقال ہوا۔دولت گیٹ مچھلی منڈی کے عقب میں استاد سردار بخش سردارا کا خاندان آج بھی آبادہے جن کاپیشہ سڑکوں‘ گلیوں میں جھاڑودینااور نالیوں کی صفائی کرناہے لیکن کمال کی بات ہے کہ ایسے لوگوںمیں سے ایک شخص اٹھااور ملتان کی دنیائے فن یعنی لوک تھیٹرولوک موسیقی میں ہلچل مچاکرچلاگیا۔ راقم سردار بخش سردارا کی تصویرتلاش کرنے کے لیے ان کے ساتھی آرٹسٹ نکادرزی سے ملاجوعقب مچھلی منڈی میں رہائش پذیرتھا۔ راقم نے نکادرزی کوزندگی کے آخری دنوں میں دولت گیٹ چوک پربھیک مانگتے بھی دیکھا ہے اوراسی کسمپرسی اور گمنامی کی حالت میں ان کاانتقال ہوا۔ سرداربخش سردارا کے عہدمیں ہی بابا صادق تھے جو ستارہ ٹاکیز( حشمت محل سینماجوپہلی جنگ عظیم کے زمانے میں تھیٹرہوا کرتا تھا مختلف پارسی اور ہندو تھیٹرکمپنیاں یہاں ڈرامے کیا کرتی تھیں)میں جب گاتے تھے تو ان کی آواز اتنی گرج دار تھی کہ دہلی گیٹ تک جاتی تھی۔ اسی طرح ایک اورلوک گائیک استاد کمترتھے۔ اسی طرح شاہ نذر بھی قدیم لوک گائیک تھے۔ عشق میں ناکام ہوئے اور سارادن پیرعمرقبرستان میں پڑے روتے رہتے اور اونچی تانو ں میں لوک گیت اور لوک دوہڑے گاتے رہتے۔ کئی لوک فنکاراس گائیک کے شاگردتھے۔ اس لوک فنکار کی ماہر موسیقی اورسرائیکی کے پہلے ڈراما نگار منشی غلام رسول حسرت ملتانی نے بھی تعریف کی ہے ۔ قیام پاکستان سے قبل ایک اور لوک فنکار ’’ہری چند‘‘ تھے شادی بیاہ اور لوک تھیٹروں میں گاتے تھے۔ اسلام قبول کیا اور عاشق حسین حسینی نام رکھا۔ اہل بیت سے عقیدت تھی۔ حسینی ڈوہڑے پڑھتے رہے۔ ذاکر بنے، مڈل پاس تھے کچھ عرصہ ملتان ضلع کچہری میں عرض نویسی کے طور پر بھی کام کرتے رہے۔ قیام پاکستان سے قبل ملتان کی دو گلوکارائیں اللہ بندی اور اللہ وسائی ملتان میں مقیم ہوئیں تو انھوں نے آغا حشر کا شمیری کے ڈراموں میں گایا بھی اور اداکاری بھی کی اور اسی طرح الٰہی جان، حیدر باندی، زرو کہروڑ پکا والی، لالاں موچانی، کالو جان، نگینہ جان، نواب ککی بھی لوک موسیقی کے حوالے سے قیام پاکستان سے قبل لوک موسیقی کے حوالے سے نایاب آوازیں تھیں۔ ایک اور لوک فنکار گلاب شاہ تھے جو پاک گیٹ کے رہائشی تھے۔ ملتان کے تمام ’’زنخے‘‘ انھیں اپنا ’’گرو‘‘ مانتے تھے۔ تمام ’’خسرے‘‘ کام پر جانے سے پہلے گلاب شاہ کے پاس حاضری دیتے تھے۔ گلاب شاہ  بہت اچھا شاعر اور گلوکار تھا۔ ہارمونیم خود بجاتا تھا اقبال عرف بالا نامی طبلچی ہر وقت اس کے ساتھ رہتا اور جب گلاب شاہ گاتا تو بالا طلبلچی سنگت کرتا۔ سردار بخش سردار بھی اکثر ان کے ہاں آیا کرتا تھا۔ اقبال صابرہ ، سیاں (ریما کی والدہ) اور نذیراں بہاولپورن (انجمن کی والدہ) اور عذرا (والدہ مینا لودھی) کی والدہ بھی اپنے وقت کی معروف گائیکہ تھیں۔ ملتان میں لوک موسیقی کے ارتقا اور فروغ میں ایک معروف کاروباری اور ثقافتی شخصیت کا ذکر لازمی کرنا ہوگا اور وہ ہیں ’’واحد بخش لاریاں والا‘‘ جس کی ملتان میں قدیم ٹرانسپورٹ کمپنی تھی۔ ملتان، شجاع آباد، بند بوسن اور ملتان کے مضافاتی علاقوں میں ان کی بسیں چلا کرتی تھیں۔ واحد بخش لاریاں والا نے ملتان کے قدیم موسیقی اور لوک تھیٹر کے گھرانوں اور آرٹسٹوں کی کفالت کی۔ حرم گیٹ گل روڈ کے اندر ایک قدیم سرائے ہوا کرتی تھی، ایک بار ملتان کے معروف اور عہد ساز مصور استاد جہانگیر راقم الحروف کو بتا رہے تھے کہ اس سرائے میں ہندو اور مسلمان آرٹسٹ اور گلوکار گایا اور ڈرامے کیا کرتے تھے۔ منشی غلام رسول حسرت ملتانی (وفات 21اگست 1972ء ) کو سرائے میں کھیلے جانے والے ڈراموں کے لیے نت نئے ڈرامے لکھا کرتے تھے اور یہاں کی لوک گلوکارائیں ان کے ڈوہڑے گایا کرتی تھیں۔ منشی حسرت ملتانی اپنے عہد کے نامور شاعر تھے۔ انھوں نے ملتان اور شجاع آباد کے لوک تھیٹروں کے لیے ان گنت ڈرامے لکھے لیکن افسوس سرائیکی کے اس عہد ساز تخلیق کارکو بھلا دیا گیا اور کسی کو ان کے تخلیقی کام پر تحقیق کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ استاد گانمن کی وفات کے بعد پاک مائی کے استاد پیر بخش پیرن نے بھی تھیٹر کمپنی بنائی۔ اسی طرح نقشبند پل والے، سوتری وٹ والے، چک والے، مٹی پٹ والے، بوڈ پوروالے، قاسم بیلے والے ان جیسے کئی ایک تھیٹر تھے جو وسیب میں تماشا کرتے تھے۔ ان میں کئی سریلے لوک گائیک موجود تھے۔ استاد پیرن بخش پیرن جن کا یکم مارچ 1978ء کو 96سال کی عمر میں انتقال ہوا کی لوک تھیٹر پارٹی میں عاشق جوگی واجے والا، خدا بخش آجڑی، فدا حسین محلہ نقشبند والا، کریم بخش واجے والا، مولا بخش پیٹی ماسٹر قادر بخش پیٹی ماسٹر جیسے آرٹسٹ شامل تھے۔ اسی طرح 50 کی دہائی میں بدھلہ روڈ موضع میانی 18کسی کے استاد محمد بخش المعروف ’’مماں تھانیدار‘‘ کی لوک تھیٹر کمپنی معروف ہوئی۔ استاد مماں معروف ریڈیو سنگر محمد نواز میانی والے کے والد تھے۔ محمد نواز میانی والا فقیر محمد فقیرا بھی لوک گائیک تھے۔ ان کے نانا اللہ وسایا گھڑیالی تھے جوکوٹلہ تولے خان کے معروف سارنگی نواز تھے ۔ کوٹلہ تولے خان کے لوک آرٹسٹ قادر بخش المعروف قادر قوال اور ان کے بھائی واحد بخش ان کے ہمصر تھے۔ 70کی دہائی تک استاد مماں کی لوک تھیٹر کمپنی کا بہت شہرہ تھا۔ اس لوک تھیٹر میں کریم بخش کریمن راجا پور والا، ملازم حسین 19کسی والا، ماسٹر اللہ بخش چھوٹا میانی والا، اللہ بخش پیٹی ماسٹر، فلک شیر، ملازم حسین، استاد فضل الٰہی ترمپٹ نواز، میر اللہ ڈیوایا موضع میانی والا کے علاوہ استاد فتح دین کلارنٹ نواز بھی کام کرتے رہے تھے۔ استاد فتح دین معروف ریڈیو سنگر اے ڈی ساغر کے سسر تھے۔ اسی طرح قاسم بیلہ‘ محمد پور گھوٹہ‘ نواب پور‘ شیر شاہ یعنی دریائے چناب کے بیٹ کے بھی کئی ایک لوک گائیک معروف تھے۔ ان میں استاد رحیم بخش‘ میر عالم موضع ٹھٹھی کھہاوڑ والا‘ اللہ وسایا کھوکھر مسعود پور ٹھٹھی کھہاوڑ والا‘ استاد گانمن جھبیل‘ اللہ ڈوایا موہانہ‘ استاد غلام حسین شرنانواز‘ موضع بھکری والا‘ محمد نواز سندو‘ فیض بخش ملتانی‘محمد رمضان موہانہ‘ اللہ دتہ خوش دل شامل ہیں۔اسی طرح کالونی ٹیکسٹائل مل میں بھی تھیٹر اور موسیقی کی مضبوط روایت رہی۔ ریشماں‘کوثر ملک‘ اے ڈی ساغر‘ بالی جٹی سمیت کئی فنکاروں نے کالونی کی ثقافتی تقریبات میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ 21 نومبر 1970ء میں ریڈیو ملتان نے جب اپنی نشریات کا آغاز کیا تو لوک موسیقی کو ایک توانائی ملی۔ 1970ء میں ریڈیو ملتان کے آغاز سے قبل ملتان آرٹسٹ ریکارڈنگ کے لیے ریڈیو لاہور جایا کرتے تھے۔ ریڈیو ملتان کے قیام سے یہ دیرینہ خواب پورا ہوا اور لوک فنکاروں کو اپنی ماں بولی میں لوک گیت‘ کافیاں اور گیت ریکارڈ کروانے کے مواقع میسر آئے۔ ریڈیو ملتان نے اپنے قیام سے ہی موسیقی جیسے اہم ترین شعبے پر بطور خاص توجہ دی۔ سرائیکی موسیقی میں زیادہ تر توجہ لوک موسیقی پر دی گئی وہ لوک دھنیں اور گیت جو سندھ وادی میں صدیوں سے سینہ بہ سینہ سفر کرتے ہوئے ختم ہونے کے قریب تھے ان کو فوراً ریکارڈ کیا گیا۔ یوں سرائیکی لوک سنگیت کا ورثہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گیا۔ریڈیو ملتان کے اولین باصلاحیت موسیقاروں استاد عبد الباری خان‘منظور حسین شامی‘ مراد علی حیدری نے سرائیکی موسیقی کے فروغ کے لیے انتھک محنت کی اور ان کی ان گنت لازوال گیت تیار کیے پھر بعد میں آنے والے کمپوزروں استاد اقبال‘ جاوید انور‘ گلزار مختار‘محی الدین صحرائی کی خدمات بھی ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ لوک فنکاروں میں کوثر ملک‘ اے ڈی ساغر‘ سلیم گردیزی‘ آزاد ملتانی‘ قمر اقبال‘ منصور ملنگی‘ شفیع کنول‘ نگینہ نرگس‘امبر آفتاب‘ پروین نذر‘نواز میانی والا‘ گلبہار بانو‘نسیم اختر جیسی باکمال آوازوں نے لوک موسیقی کو توقیر بخشی۔ آج ریڈیو ملتان کی میوزک لائبریری میں کم و بیش 25 ہزار کے لگ بھگ سرائیکی آئٹم موجود ہیں۔ یوں گذشتہ 50 سالوں میں ملتان اور وسیب کی سنگیت کا کم و بیش تمام ورثہ محفوظ ہو چکا ہے۔آج میڈیا نے بہت ترقی کرلی ہے بہت سے ٹی وی چینلز اورایف ایم ریڈیو سٹیشنز نے کام شروع کر دیا لیکن افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ آج سرائیکی لوک موسیقی کے فروغ کے لیے کسی ٹی وی یا ایف ایم چینل نے سنجیدگی سے کام نہیں کیا۔ آج کے گائیک لوک گائیک تو کہلواتے ہیں لیکن ان کے ریلیز ہونے والے البمز میں ایک بھی لوک گیت شامل نہیںہوتا‘ یوں لوک موسیقی مرتی جارہی ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ قدیم لوک گیتوں کی دھنوں اور بولوں کو ان کی اوریجنل حالت میں محفوظ کیا جاتا بلکہ اس کے برعکس ہمارے اس قدیم ورثے کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا گیا ہے۔ لوک موسیقی کے ساتھ ساتھ لوک ساز اور سازندے بھی قصہ پارینہ ہو گئے ہیں۔ ملتان میں سارنگی‘ بانسری‘تان پورہ‘ الغوزہ‘ بینجو اور ان جیسے کئی ساز ختم ہو گئے ہیں۔ گذشتہ پندرہ‘بیس سالوں میں لوک گلوکاروں کی جو کھیپ منظر عام پر آئی ہے ان میں ایک گلوکار بھی ایسا نہیں جو حقیقی طور پر لوک گائیکی کا نمائندہ کہلایا جاسکے۔ ان کے میوزک البموں میں غیر معیاری شاعری کی بھرمار ہوتی ہے۔ ہمارے وسیب کے ہرگاؤں‘ بستی اور دریا کنارے آباد قدیمی بیٹ میں لوک ورثہ بکھرا پڑا ہے۔ وسیب کے ثقافتی کرداروں مثلاً موہانے‘جھبیل‘ گھاڑو‘ چاہڑے‘کھاٹے‘جتوال‘ مور‘ ٹرکرے بدھنے اور ان جیسے کئی ثقافتی کرداروں کے گیت گمنام ہوتے جا رہے ہیں۔ آج کی نسل کونہ ان فوک کرداروں کا علم ہے اور نہ ان کرداروں سے وابستہ لوک شاعری کا‘ لوک ادب پر کام کرنے والے ریسرچ سکالرز‘ ٹی وی اور ایف ایم چینلز اور خاص طور پر لوک گائیکوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ لوک موسیقی جیسے قیمتی وسیبی ورثے کو محفوظ کرنے کے لیے کردار ادا کریں۔ لوک گیتوں کوکتابوں اور اپنی میوزک لائبریریوں میں محفوظ کریں کیونکہ وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جو اپنے خطے کے تہذیبی‘ ثقافتی اقدار کے احیاء اور فروغ کے لیے کام کرتی ہیں۔ ملتان اور اس کے وسیبی علاقوں کی موسیقی ہزاروں سالوں سے اس خطے کی فضاؤں میں اپنی سریلی دھنوں کی مٹھاس کا امرت گھول رہی ہے۔ وسیب کی مٹی سے ماں دھرتی سے محبت‘ پیار اور خلوص کے سچے جذبے جنم لیتے ہیں۔ لوک موسیقی ایک ایسا مستحکم ذریعہ ہے جو ہماری تہذیبی‘تمدنی و ثقافتی جڑت کو قائم رکھتا ہے اور یہی ابدی تاثیر ہماری لوک موسیقی کی معراج ہے۔ ٭٭٭ قاسم رضا   (ملتان)

حوالے ترمیم

/https://www.punjnud.com/multan-mein-lok-music-ki-riwayat-ka-irtiqa/