سردار کوڑا خان جتوئی
نواب سردار کوڑا خان جتوئی (انگریزی: Sardar Kaura Khan Jatoi) کا تعلق نخلستان موجودہ نام مظفرگڑھ سے تھا۔ وہ عظیم جنگجو اور فاتح ہندوستان میر بجار خان کی اولاد میں سے ہے۔ فاتح ھندوستان میر بجار خان نے کم و بیش 1555میں ھندوستان کو فتح کر کے سلطنت نصیرالدین محمد ھمایوں مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین محمد بابر کے بیٹے اور جلال الدین محمد اکبر کے والد کو واپس دلائی جس پر بادشاہ ھمایوں نے دہلی پنجاب ساھیوال چیچہ وطنی جھنگ اور ملتان اور ہندوستان کی دو قیمتی اثاثے نخلستان کی سرزمین اور تجارتی بندرگاہ میروا کی ملکیت میر بجارخان کو عطا کر دی۔ میر بجار خان نے ساہی وال اور ملتان نخلستان اور میرواہ کا علاقہ اپنے پاس رکھا اور باقی علاقے میر چاکر خان کی مشاورت سے باقی بلوچ قبیلوں میں تقسیم کر دیا۔ میر بجار خان نے اپنے بڑے بیٹے میر نوتک خان کو ملتان میں آباد کیا۔اور میر نوتک خان(تمام بلوچ قبائل کا سردار اعلیٰ) نے اپنے بڑے بیٹے میر لوہار خان (تمام بلوچ قبائل کا سردار اور اس کی اولاد لوہارات کہلاتی ہے کو یہاں کا سردار اور سپہ سالار مقرر کیا۔ بلوچی قاعدے کے مطابق صرف لوہارات ہی اصل سردار فیملی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر جتوئی ایک مخصوص علاقے یا حدود تک کے سردار کہلاتے ہیں ) کو سردار مقرر کر دیا۔ تقریبا"200 سال قبل انگریزوں نے طاقت ور قبیلے جتوئی کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا اور آس پاس کی جاگیرتحفتا" دینے کی پیش کش کی مگر اس وقت کے جتوئی سردار اور جنگجو میر بلوچ خان(لوہارات) نے انگریزوں کی پیش کش کو ٹھکرا دیا جس پر انگریزوں نے عوام کی فلاح و بہبود۔ امن اور علاقے کی ترقی کے لیے اپنے نظام کو بڑھانے کے لیے تعاون کی درخواست جس کو قبول کرتے ھوئے میر بلوچ خان نے اپنے بھانجے اور داماد کوڑے خان کو علاقے کا سردار مقرر کر دیا ااپنے بھتیجے اور میر ہیبت خان لوہارات مرحوم فاتح ملتان(لنگاہوں سے ملتان کو فتح کر کے شاہ پور یا شاہ گڑھ میں نیا شہر آباد کیا۔ قلعے کے ساتھ منسلک جائداد اسی قبیلے کے اعزاز میں دے دی گئی اور قلعہ کا دروازہ لوہاری گیٹ کا نام بھی ان کے نام سے منسوب کیا گیا) کے اکلوتے پوتے اور میر رحیم خان کے بیٹے میر مزار خان جتوئی کو سپہ سالار اور سردار اعلیٰ مقرر کیا شاہ پور ملتان اور ڈیرہ غازیخان راجن پور اور خانپورسمیت تمام بلوچوں کے علاقوں اور دریائی گذرگاہوں کا انتظام اور جنگی حکمت عملی(سپہ سالاری) کی باگ ڈور کے ساتھ تمام قبائل کی سرداری(تمام بلوچ قبائل میر مزار خان کی اولاد کو نہایت محترم اور مکرم سمجھتے ہیں) سنبھال دی۔ اور انگریزوں نے پورے علاقے کی عملداری(مجسٹریٹی) اور قانون کی مہر کوڑے خان کے سپرد کر دی اور مظفر گڑھ کو ضلع کا درجہ بھی دیدیا گیا۔ ضلع کا انتظام و انصرام سنبھالنے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے لیے میر بلوچ خان نے لیہ اور مظفر گڑھ میں ایک لاکھ کنال رقبہ ضلع مظفر گڑھ کی سرکاری ملکیت میں منتقل کر دی اور ملتان ڈیرہ غازیخان راجن پور اور رحیم یار خان (میر رحیم خان کے نام سے منسوب ہے) کی کثیر جائداد ان اضلاع کے انتظام چلانے کے لیے بھی وقف کر دی جو آج پنجاب حکومت کی ملکیت ہے۔ میر بلوچ خان اور میر مزار خان کا مقبرہ جتوئی شہر کے جنوب میں سلطان محمود غزنوی قبرستان میں ہے۔ جہاں روزانہ سینکڑوں لوگ دعا اور منتیں مانگنے کے لیے جاتے ہیں۔ (انگریزوں کی تاریخ میں بلوچ اقوام کی تاریخ میں درج ہے کہ جتوئی قبیلہ سخاوت اور نیک نامی میں سب سے آگے ہے)۔ سردار کوڑے خان نے اپنی ذاتی آمدنی سے سرکاری عمارتیں سرائے سڑکیں اور مساجد تعمیر کرائیں اور دریا چناب پر لوھے کا پل تعمیر کرایا اور میر بلوچ خان کے معاہدے مطابق انگریزوں سے کاروبار اور آمدو رفت کے لیے ریلوے لائینیں سڑکیں اور آبپاشی کے لیے نہری نظام کا کام مکمل کرایا۔
بعد ازاں اپنی زندگی کے آخری ایام میں انھوں نے اپنی زیراستعمال جائداد کا 1/3 حصہ رفاہ عامہ کو وقف کر دیا جبکہ باقی 2/6 حصہ اپنی چھ منکوحہ کے نام منتقل کر دیا۔یہ وسیبار کوڑا خان ایک خدا ترس انسان تھے۔ انھوں نے اپجائیداد میں سے نی 97,474 کنال ارارفاہفاد عامہ کے کاموں کے لیے وقف کر دی۔سردار کوڑا خان کی کوئی اولاد نہ تھی لیکن ان کی آل اور حقیقی وارث میر مزار کی اولاد جتوئی خاندان کے آبائی علاقہ میروالہ میں آباد ہے۔ ٹرسٹ کا انتظام اور دیکھ بھال سردار کوڑے خان لینڈ پراپرٹی ٹرسٹ کرتا ہے
یہ وسیب کے ایک عظیم ہیرو تھے
ان کی خدمات کو نا صرف مسلمانوں نے بلکہ انگریزوں نے بھی مانا انگریزوں نے ان کو نواب اور محسن مظفرگڑھ کے القاب سے بھی نوازا۔ان کے آبا و اجداد اور انھوں
نہوں نے جو وسیب کی مالی اور معاشی طور پراور تحفظ خامت کی ہے
تاریخ میں آج تک کسی اور مسلمان حکمران نے نہ کی ہو گی۔ تمام بلوچ قبائل آج بھی جتوئی قبیلے کی سخاوت پر فخر محسوس کرتے ہیں۔
ہمیں اس دھرتی کی عظیم ہستی نواب سردار کوڑے خان پر فخر ہے۔ وہ ایک خدا ترس انسان تھے[1]۔ انھوں نے اپنی 97,474 کنال اراضی مفاد عامہ کے کاموں کے لیے وقف کر دی۔ اس اراضی کا انتظام سردار کوڑے خان لینڈ ٹرسٹ کرتا ہے۔[2]