• کسی، ملک کی قومی آمدنی کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ قومی آمدنی (الیف) مساوی ہوتی ہے اس کے اخراجات ضروریات (ض) جمع اخراجات سرمایاکاری (ک) کے۔ اس اصول کے تحت الیف = ض + ک کے۔ اس مساوات کی دونوں طرح کی علامتیں تبدل پزیر ہیں۔ اس لیے اگر ہم کسی ملک کی قومی آمدنی کو زیادہ بڑھانا چاہتے ہیں، جس کا دوسرے الفاظ میں یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ ہم اس ملک کی پیداواریا ماحصل بڑھانا چاہتے ہیں اور اس طرح بے روزگاری یا پوشیدہ بے روزگاری سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ملک کے معیار زندگی کو بڑھانے کے خواہاں ہیں تو ہمیں ملک کے اخراجات ضروریات یا سرمایا کاری یا دونوں میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرنا ہوگا۔ مختلف ملک ترقی کی مختلف منزلوں پر یہ فیصلہ کریں گے کہ آیا اخراجات ضروریات یا سرمایا کاری یا دونوں میں زیادہ اضافہ کرنا ہوگا۔ کیوں کہ صرف اور سرمایا کاری وونوں تبدل پزیر علامات ہیں۔ حکومت ملک کی معیشت کواس طرح متاثر کر سکتی ہے کہ یا تو اخرجات ضروریات بڑھ جائیں اور یا سرمایا کاری یا دونوں تاکہ ایک کم ترقی یافتہ ملک کم سے کم مدت میں ترقی یافتہ ہو جائے اور ایک ترقی یافتہ ملک اپنے آپ کو کساد بازارہ اور خوش حالی کے مد جزر Trade Cycle سے بچا سکے۔ * اس تجزیہ کے مقصد کے لیے آسان ترین خاکہ مسز جون رابنسن Mrs Joan Rabinson نے اپنے ایک لیکچر ’اقتصادی ترقی کا نظریہ‘ The Theory of Economic Development میں جو کراچی

یونیورسٹی میں میں 01 اگست 1955 میں دیے گئے میں پیش کیا۔

  • اوسط مزدوری ==== 1 ==== G ==== Rs ==== C ==== P ==== W ==== Y ==== K ==
  • پہلا سال============ 500 === 100== 60.0 === 40.0 == 80.0 == 20.0 ==== 4% ==
  • دوسرا سال=========== 520 === 104 = 4. 62 === 41.6 == 83.2 == 20.8 ==== 4% ==
  • اوسط مزدوری === 1.1
  • پہلا سال============ 550 === 100 = 66.0 === 34.0 ==== 83.0 ==== 17.0 ==== 3% ==
  • دوسرا سال=========== 567 === 103 = 68.0 === 35.0 ==== 85.5 ==== 17.5 ==== 3% ==
  • اوسط مزدوری === 0.9
  • پہلا سال========== 450 ==== 100 ==== 54.0 ==== 46.0 ==== 77.0 ==== 23.0 ==== 5 % ==
  • دوسرا سال= ======= 473 ==== 105 ==== 56.7 ==== 48.3 ==== 8.8 ==== 24.1 ==== 5 % ==
  • K= موجودہ مشینری کی قیمت Value of Physical Capital * Y= قومی آمدنی فی سال National Income per year
  • * W= سالانہ مجموعی اجرت یا سالانہ مجموعی مزدور Total Wage per year
  • P= سالانہ مجموعی منافع Total Profits per year
  • C= سالانہ اخراجات ضروریات Consumption per year
  • SیاI = سالانہ بچت یا سالانہ اخراجات سرمایہ کاری Saving or Investment per year
  • G = شرح ترقی سالانہDevelopment Rate per year
  • * فرض کریں کہ ایک سال میں اوسط مزدوری ’1‘ہے۔ ملک میں موجودہ مشینری ’K‘ 500 ہے۔ مزدوروں کا قومی آمدنی ’Y‘ میں حصہ 60 فیصد ہے۔ اس لیے مجموعی مزدوری ’W‘ 60 ہے اور جو حصہ سرمایہ کار کو ملتا ہے 40 فیصد ہے۔ اس لیے مجموعی منافع ’P‘ 40 ہے۔ ملک میں اخراجات ضروریات’C‘ 80 فیصد ہے۔ بچت کا رجحان 20 فیصد ہے اور یہ کہ تمام کا تمام دوبارہ سرمایاکاری پر خرچ کر دیاجاتا ہے۔ اس لحاظ سے مجموعی بچت یا سرمایا کاری 20 فیصد ہے۔ ہم یہ بھی فرض کرتے ہیں کہ مجموعی بچت سرمایاکار ہی کر سکتا ہے اور ایک مزدور بچت نہیں کر سکتا ہے۔* پہلے سال میں شرح ترقی مشینری میں اضافہ 20 کو شروع سال کی سرمایاکاری 500 پر تقسیم کرکے حاصل ہوگی یعنی 500 / 20 جو 4 فیصد کے براب رہے۔
  • دوسرے سال میں سرمایاکاری ’K‘ 500 جمع 20 ہو جائے گی۔ قومی آمدنی ’Y‘ 100 جمع 4 کے حساب سے ترقی 104 ہو جائے گی۔ مزدوری ’W‘ 104 کی 60 فیصد کے حساب سے 62,4 کے برابر ہوگی۔ نفع ’P‘ 104 کا 40 فیصدی کے حساب سے 41,6 کے برابر ہو گا۔ اخراجات ضروریات ’C‘ 104 کا 80 فیصد یعنی 83,2کے برابر ہوگی۔ بچت ’S‘ یا سرمایا کاری I 104 کا 20 فیصد یعنی 20,2 ہوں گے۔ دوسرے سال میں شرح ترقی سرمایاکاری میں اضافہ 20,8 کو دوسرے سال میں شروع کی سرمایاکاری 520 پر تقسیم کرکے حاصل ہوگی یعنی 520 / 20,8 جو چار فیصد کے برابر ہے۔ ملک کی معشت 4 فیصد سالانہ سے ترقی کرتی رہے گی، اگر اوسط مزدوری 1 رکھی جائے۔
  • اب فرض کریں ایک سال میں مزدوروں کی اوسط 1,1 تک بڑھا دی جاتی ہے اور اس سال میں مجموعی سرمایاکاری ’K‘ 550 ہے۔ قومی آمدنی ’Y‘ 100 ہے، مجموعی مزدوری ’W‘ 10 فیصد بڑھ جاتی ہے کیوں کہ اوسط مزدوری اس سال 1,1 ہو گئی ہے، اس لیے یہ ا ب 66 ہوجاتی ہے۔ مجموعی نفع ’P‘ قومی آمدنی 100 اور مجموعی مزدوری کا اوسط کا فرق یعنی 34 ہے۔ اب یہ بھی فرض کریں کہ سرمایاکاروں Entrepreneurs اخرجات صرف رجحا ن2 / 1 ہے۔ یعنی جب ان کی آمدنی میں 6 کی کمی ہوجاتی ہے تو ان کی ضروریات میں 3 کی تخفیف ہوجاتی ہے۔ لیکن مزدورں کی آمدنی میں 6 کا اضافہ ہو گیاہے اور انھوں نے وہ سب آمدنی خرچ کردی کیوں کہ ہم فرض کرچکے ہیں کہ مزدور طبقہ بچت نہیں کرتا ہے، اس لیے اخراجات میں ضروریات میں اضافہ صرف 6 تفریق 3 یعنی 3 ہے۔ اس لیے مجموعی اخراجا ت صرف ’ C‘ 83 ہے۔ ہم نے فرض کیا ہے کہ تمام بچت سرمایہ کار طبقہ Entrepreneurs Class کرتا ہے۔ ان کی مجموعی آمدنی ’P‘ میں 6 کی تخفیف ہو گئی ہے اور انھوں نے اپنے اخراجات ضروریات میں 3 کی کمی کردی ہے، جیسا کہ ہم نے بتایا ہے۔ اس لیے وہ اپنی بچت میں بھی 3 کمی کر دیں گے تاکہ وہ اپنی آمدنی کی 6 تخفیف پورا کرسکیں۔ اس لیے بچت ’S‘ یا سرمایاکاری ’I‘ 20 تفریق 3 یعنی 17 ہوگا۔ پہلے سال کی ترقی، سرمایاکاری میں اضافہ 17 کو سال کی سرمایاکاری 550 پر تقسیم کرکے حاصل ہوگی، یعنی 500 / 17 جو تین فیصدی کے برابر ہے۔اس طرح ملک کی معیشت میں 3 فیصد سالانہ کی شرح سے ترقی کرتی رہے گی۔ اگر اوسط مزدوری 1,1 رکھی جائے۔
  • فرض کریں کسی سال مزدوری گھٹ کر 0,9 فیصد رہ جاتی ہے اور اس سال مجموعی سرمایاکاری ’K‘ 450 ہے۔ قومی آمدنی ’Y‘ 100، مجموعی مزدوری ’W‘ 10 فیصد کم ہونے کی وجہ سے 54 ہے تو مجموعی نفع ’P‘ مجموعی قومی آمدنی 100 اور مجموعی آمدنی 54 کا فرق یعنی 46 ہوگا۔ پہلے یہ فرض کرلیاگیا ہے کہ سرمایاکار طبقہ کا رجحان صرف 2 / 1 ہے۔ اس لیے جب ان کی آمدنی میں 6 فیصد کا اضافہ ہوتا ہے توان کے اخراجات صرف میں بھی 3 فیصدکا اضافہ ہوجاتا ہے۔ لیکن مزدوروں کی آمدنی میں 6فیصد کی تخفیف ہو گئی ہے اور وہ اپنی تمام آمدنی خرچ کرڈالتے ہیں، اس لیے اخراجات ضروریات 80 جمع 3 منفی 6 = 77 ہو گا۔ سرمایاکار طبقہ اپنی اضافہ آمدنی کا نصف حصہ یعنی 3 فیصد اپنے اخراجات صرف میں لے آیا ہے۔ اس لیے باقی ماندہ 3 فیصد کو وہ بچت ’S‘ یا سرمایا کاری ’I‘ پر لگائیں گے، اس لیے بچت ’S‘ یا سرمایاکاری ’I‘ 20 فیصدجمع 23 فیصد کے برابر ہوگی، پہلے سال کی شرح ترقی سرمایا کاری میں اضافہ 23 کو شروع سال کی سرمایا کاری 450 پر تقسیم کرکے حاصل ہوگی یعنی 450 / 23 جو 5 فیصد کے برابر ہے۔

دوسرے سال سرمایاکاری ’K‘ 450 جمع 23 کا اضافہ = 473 ہوگا۔ قومی آمدنی ’Y‘ 100 جمع 5 فیصد کے حساب میں سے ترقی = 105 ہوگی۔ مزدوری ’W‘ 105 کی 54 فیصد = 56,7 ہوگی۔ نفع ‘ P‘ 105 کا 46 فیصد = 48,3 فیصد ہوگا۔ اخراجات ’C‘ صرف 105 کا 77 فیصد = 80,8 ہوگا۔ بچت ’S‘ یا سرمایاکاری’I‘ 105 کا 23 فیصد = 24,1 ہوگی۔ دوسرے سال میں شرح ترقی سرمایا کاری میں اضافہ46,1 دوسرے سال میں شروع کی سرمایا کاری 43 پر تقسیم کرکے حاصل ہوگی، یعنی 473 / 24,1 جو پانچ فیصد کے برابر ہے۔ اس طرح ملکی معیشت 5 فیصد سالانہ کے حساب سے ترقی کرتی رہے گی بشرطیکہ اوسط مزدوری 0,9 فیصد برقرار رکھی جائے۔

مندرجہ بالا تجزیہ سے واضح ہوتا ہے کہ شرح ترقی کی زیادتی یعنی 5 فیصد کے لیے اوسط مزدوری کم ہونا چاہیے اور منافع زیادہ ہونا چاہیے اور اس شرح کی ترقی کو برقرار رکنے کے لیے ضروری کہ یہ سب کا سب منافع تخلیق سرمایہ کاری Capital Formation میں خرچ کیا جائے۔ کم ترقی یافتہ ممالک اسی صورت میں ترقی کرسکتے ہیں کہ وہ اپنی مزدوری کم رکھیں اور نتیجا اخراجات بھی کم رکھیں گے۔ کیوں کہ ہم نے یہ فرض کیاہے کہ مزدور با لکل بچت نہیں کرتے ہیں اور اپنی تمام آمدنی خرچ کردیتے ہیں۔ لیکن مزدور طبقہ کو اس صبر آزما مصیبت میں مبتلا کرکے کوئی ترقی پزیر ملک اسی صورت میں ترقی کر سکتا ہے، جب کہ تمام کا تمام منافع ترقی کے لیے سرمایا کاری میں لگایا جائے۔ اس قسم کی ضمانت کے لیے شخصی کاروبار پر پورے طور پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے ترقی پزیر ممالک کو ترقی کے ابتدائی مراحل پر حکومتی مداخلت کی زیادہ ضرورت ہے۔

  • حکومتی سرمایہ کاری * پروفیسر نرکسے Prof Essor Nurkse اپنی تصنیف کم ترقی پزیر ممالک میں تخلیق سرمایا کے مسائل‘Problems of Capital Formation in Underdeveloped Countries میں لکھتے ہیں کہ“ جاپان پر نظر ڈالو ترقی کے ابتدائی دور میں بالخصوص 1870 سے 1890 کے زمانے میں حکومت نے ترقی کے لیے سرمایاکی فراہمی میں نمایاں حصہ لیا۔ آخر ان کاموں کے لیے سرمایاکس طرح حاصل کیا گیا؟ سخت محصول نافذ کرکے، خصوصیت سے زراعت پیشہ آبادی پر، کبھی کبھی جبری قرضوں سے، جو شہری آبادی کے متوسط سرمایاکاروں سے وصول کیے جاتے تھے اور توسیع زر سے، لیکن یہ توسع زر اس پیمانے پر نہیں ہوتی تھی کہ افراط زر کا خطرہ پیداہوجاتا، کیوں کہ یہ توسیع ملک میں صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ روپیہ کی فراہمی کی ضرورت پوری کرتی تھی۔“ * ڈبلیو آرتھر لیوس W. Arthur Lewis نے ’اقتصادی ترقی کا نظریہ‘ Theory of Economic Growth میں لکھا ہے کہ ترقی پزیر ممالک کی قومی آمدنی 4 یا5 فیصد ہے۔ ترقی پزیر ممالک میں یہ اخراجات قومی آمدنی کے 21 سے 31 فیصد تک ہوتے ہیں۔ مجموعی سرمایاکاری میں 02 فیصدمیں ٹوٹ پھوٹ کے اخراجات اخراجات 7 یا 8 فی صد ہوتے ہیں۔ کیوں کہ کسی ملک کی پیداوار کا انحصارا س ملک میں موجود سرمایاکاری پرہوتا ہے، اس لیے ترقی پزیر اور ترقی یافتہ ممالک کی پیداوار میں دن بدن فرق برھتا جا رہا ہے،جس کا متیجہ یہ ہے کہ ترقی پزیر ممالک کی ترقی یافتہ ممالک کے برابر آنے کی امیدیں دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے۔ ترقی کے موجودہ فرق ہی کو کم از کم برقرار رکھنے کے لیے ترقی پذیرممالک کو اپنی بچت یعنی تخلیق سرمایا کو 5 فیصد سے بڑھا کر 21 فیصدکرنا ہوگا۔ یہ ایک بڑی ذمہ داری ہے اور یہ صرف حکومت ہی پورا کرسکتی ہے کہ سرمایاکاری کے شعبہ میں کمی کوپورا کرسکے۔ کیوں کہ نجی سرمایادار کسی تجویز کو نفع بخش ہونے کی صورت میں اپنائیں گے، نہ کہ اقتصادی ترقی ضرورت محسوس کرکے۔ جب کوئی ملک اس قدر ترقی کرلے کہ تخلیق سرمایا کی زیادہ گنجائش نہ رہے اور اس کے لیے ترقی کی کم شرح کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسا کہ مندرجہ بالا خاکہ میں مثال کے طور پر 3 فیصد، تو اس قسم کی معیشت میں مزدوری زیادہ ہو نی چاہیے اور شرح منافع کم۔ تاکہ مزدور پیشہ قومی آمدنی کا نسبتأئ زیادہ حصہ ضروریات پر خرچ کرسکیں اور ترقی کی کم شرح کو برقرار رکھ سکیں۔ اس طرح کساد بازاری دور کرنے میں مدد ملتی ہے، کیوں کہ ہم نے فرض کیا ہے کہ وہ اپنی آمدنی صرف پر خرچ کرلیتے ہیں۔
  • 29 تا 1933 کی عالمی کساد بازاری کے زمانے سے جب حکومت کی مداخلت کو نہ پسند کرنے والے ممالک خالص پرانے سرمایہ دارانہ Laissez Faire طریقوں پر عمل پیرا ہوکر ترقی کرنے کے بعدشدید کساد بازاری اور عام بے روزگاری Unemployment کے جان لیوا درد میں مبتلا ہو گئے تھے۔ حکومت کے اس حق کو مان لیا کہ وہ ترقی یافتہ ممالک کی معیشت کی رہنمائی کرسکتی ہے یا ان کے اقتصادی معالات میں مداخلت کرسکتی ہے۔ یہ کساد بازاری تجارتی مدو جزر کا ایک مظہر تھی، جو حکومت کی مداخلت سے مبرا سرمایادارانہ نظام معیشت کاجز و لاینفک ہے۔ جس کا وقوع اس دور میں ہوا، جب کہ اقتصادی معاملات میں حکومت کی مداخلت شجر ممنوع کی حیثیت رکھتی تھی۔ لیکن اس مرتبہ کسادبازاری اتنی شدید تھی کہ سرمایادارانہ ممالک کو اپنا نقطہ نظر بدلنا پڑا اور حکومت کو ملک کے اقتصادی معاملات میں مداخلت کا حق منظور کیا اور دنیابھر کے ترقی یافتہ ممالک نے اس کے لیے قوانین مرتب کیے۔ * ماہرین معاشیات نے ریاضیاتی زائچہ کے ذریعے یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچادی ہے کہ تعمیر عامہ یا سرمایا کاری کے ابتدائی اضافہ شدہ بڑھتی ہوئی قومی آمدنی کی وجہ سے طلب اشیائے ضروریات میں 10 فیصدی کو قائم رکھنے کے لیے مجموعی ثانوی سرمایا کاری میں 100 فیصدی اضافہ کرنا ضروری ہے۔ اس لیے وہ کہ نجی سرمایا کاروں کے مقابلہ خود بخود سرمایا کاری کے عمل یعنی حکومت کے وسیلہ سے سرمایاکاری کی حمایت کرتے ہیں۔ کیوں کہ نجی ادارے نفع کے چکر میں پڑ کر ثانوی سرمایاکاری میں یکساں شرح کو برقرار نہیں رکھ سکتے ہیں۔ جہاں تک حکومت کی ابتدائی سرمایا کاری کا تعلق ہے کینز Keynes اس کے لیے رفع عامہ کے شعبے میں سرمایاکاری کی سفارش کرتا ہے۔ * کینز Keynes کا کہنا ہے کہ کساد بازاری کے زمانے میں جب حکومت سرمایا کاری پر روپیہ لگاتی ہے تو وہ مزدور جنہیں روزگارEmployment ملتا ہے اپنی آمدنی سے اشیائے ضرورت پر خرچ کرتے ہیں، اس لیے اشیائے ضروریات کی طلب بڑھتی ہے۔ تاجر کارخانوں کو آڈر دیتے ہیں۔ کارخانہ دار اس بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں، اس لیے وہ اپنی مجموعی پیدا وار میں اضافہ کردیتے ہیں۔ اس مقصد کی خا طر وہ زیادہ مزدور لگادیتے ہیں اور زیادہ مشینری کا آڈر دیتے ہیں۔ مشینیں تیار کرنے والے کارخانے بھی زیادہ مشینیں بنانے لگتے ہیں۔ جس کے لیے انھیں زیادہ مزدور لگانے پڑتے ہیں اس طرح روزگار میں ہر طرف اضافہ ہو جاتا ہے۔ اور نتیجتأئ قومی آمدنی میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ کینز Keynes اس حاصل ضرب کو جو قومی آمدنی کے تغیر اور ابتدائی خرچ کے تغیر کا تناسب ہے (یہاں مراد اس خرچ سے ہے جو حکومت کی سرمایاکاری کے متعلق ہے) مضروب فیہ Multiplier کہتا ہے۔ اس تناسب کی دائمی بقا یعنی قومی آمدنی یا سطح روزگار کے استقلال کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس بچت کو جو اضافہ شدہ آمدنی سے حاصل ہو دوبارہ سرمایاکاری پر لگایا جائے یا دوسرے الفاظ میں ابتدائی خرچ جو سرمایا کاری پر خرچ ہوا ہو کی وجہ سے طلب اشیائے ضروریات میں جو بیشی ہوئی اس کو برقرار رکھنے کے لیے ثانوی سرمایا کاری ضروری ہے۔ * بے روز گاری جو قدیم مکتب کا لازمی نقص ہے اس کو دور کرنے کے لیے ریاست کی مداخلت ضروری ہے کہ وہ سرمایا کاری یعنی تعمیرات عامہ کے پروگراموں کو اختیار کریں۔ اس مکتبہ خیال کے لوگوں کا کہنا ہے کہ جب کوئی فرد نفع و نقصان کی تحریک سے محرک ہو کر قوم کی اقتصادی سعی میں حصہ لیتا ہے تب فرد کا فائدہ قوم سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے اور یہ کہ ان دونوں میں قدرتی ہم آہنگی پیدا ہو جاتی ہے۔ آدم اسمتھ Adem Smith نے اس کو قدرتی حرکت کہا ہے۔ لیکن کینز Keynes نے اس کو غلط ثابت کر دیاہے۔ اس کا کہنا ہے جب کوئی شخص بچت کرتا ہے تو یہ بچت اس کی اپنی ذات کے مفید ہو سکتی ہے، لیکن جب تمام معاشر ہ ضروریات اور سرمایا کاری کی مدوں سے بچانا شروع کر دے تو قومی آمدنی اور نتیجیتأئ جیسا کہ کینز Keynes نے مساوات آمدنی کے ذریعے ظاہر کیا ہے کہ مجموعی قومی بچت گرجاتی ہے۔ * قدیم معاشیات دانوں کا یہ خیال تھا کہ تعمیرات عامہ مثلأئ سڑکوں اور پلوں کی تعمیر تجارتی اشیاء کی قیمت میں تخفیف کا باعث ہوتی ہے۔ کیوں کہ کرایا بار برداری کم ہو جاتا ہے۔ اس طرح غریب سے غریب اشخاص بھی یہ چیزیں حاصل کرسکتے ہیں اور اس طرح ان کا معیار زندگی بہتر ہوجا تا ہے۔ لیکن کینزKeynes نے یہ ثابت کیا ہے کہ اس علاوہ یہ فائدہ بھی ہوتا ہے کہ سرمایا کاری قومی دولت میں اضافہ کا باعث ہوتی ہے اور ملک میں مکمل روزگار کے مواقع پیدا کر دیتی ہے۔ * پروفیسر ہن سن Prof Hansen اپنی کتاب ’مالی نظریہ اور مالیاتی پالیسی‘ Monetary Theory and Fiscal Policy میں لکھتا ہے کہ ”ان لوگوں نے جو عوامی قرضے کی مسلسل تخفیف کے بارے میں نہایت چرب زبانی سے گفتگو کرتے ہیں۔ مقدار زر سے تعلق کی حکمت عملی کی پیچیدگیوں پر غور کیے بغیر حقائق کو نظر انداز کر دیا ہے۔ ایک پھولتی ہوئی مشیت کے لیے کثیر زر کی ضرورت ہوتی ہے۔ تجارت کے مروجہ مالی رواج بہ شمول رائج شدہ مالی و بینکاری اداروں کے مد نظر جیسا تجربہ بناتا ہے۔ اب ہم اس مسئلہ کے فیصلہ کن مراحل پر پہنچ گئے ہیں، جب آپ زیادہ قومی آمدنی اور کامل روزگار کے خیال سے اپنی معیشت کی ترقی کے خواہاں ہوتے ہیں، تب آپ کو رسد زر یا مقدار زر میں اضافہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ * ایک وقت میں معاشرے کے اخراجات اور ضروریات تقریبأ بندھے ہوتے ہیں۔ اس لیے جو کچھ بچت یا ذخیرہ اندوزی ہوتی ہے وہ سرمایا کاری کی مدمیں ہوتی ہے۔ اس بچت کو سرمایا کاری میں لگانے کے لیے (اور اگر روزگار Employment کامل کے مقاصد کے لیے سرمایاکاری بڑھانے کی ضرورت بھی ہو تو اس کے لیے بھی) کینز Keynesسرکاری سرمایا کاری تعمیر عامہ میں کرنے کی سفارش کرتا ہے۔
  • کم ترقی یافتہ ملکوں میں سرمایا کاری، نفس کشی اور رضاء کارانہ بچت کے اقدامات زیادہ نہیں ہوتے ہیں اور چوں کہ سماجی پیداوار اضافے کے لیے حکومتی سرمایا کاری ضروری ہے۔ اس کے لیے ترقی کی رفتاربڑھانے کے لیے حکومت خسارے کی سرمایا کاری کرتی ہے۔ یہ اقدام طلبی دباؤ اور رسدی سکراؤ دونوں ہی افراد زر کا باعث بنتے ہیں۔ کیوں کہ اس کے حصول کے لیے زرکی اضافی شرحوں پر اندرونی قرضوں اوربھاری پر بیرونی قرضہ جات سے پورے کیے جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں افراط زر ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔ قومی قرض میں غیر ملکوں کو واجب الادا رقوم زیادہ پریشان کن حالات کی حامل ہوتی ہیں۔ کیوں کہ اس پر سود کی ادائیگی زر مبادلہ میں ادا کرنی پڑتی ہے اور بیرونی کرنسیوں کی قدر کاانحصار کھلی منڈی پر ہو تا ہے۔
  • ماخذ
  • نصیر احمد شیخ اسلامی دستور اور اسلامی اقتصادیات کے چند پہلو۔ 1959 نصیر احمد شیخ میکلوڈ روڈ کراچی
  • 1997 کی اسٹیٹ بنک کی سالانہ رپورٹ جنگ کراچی، 6 جون1997)