سعودی عرب حکومت میں مذہب یا قومیت کی مردم شماری نہیں کراتی [1] لیکن چند جدید سعودی عرب کی بنیاد آل سعود نے 1932ء میں رکھی، جو سنی اسلام کے اس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں جس کو وہابیت یا "وہابی تحریک" کہا جاتا ہے۔ وہابی تحریک کے پیروکار—جن کا مملکت کے مذہبی اداروں، عدالتوں اور تعلیم پر غلبہ ہے[2]—عقیدہ ہے کہ "مسلمانوں کو اسلام کی تشریح کے لیے صرف قرآن اور سنت سے رجوع کرنا چاہیے۔" وہابییت کے پیروکاروں کا عقیدہ ہے کہ "جو مسلمان استعانت اولیا اللہ، جیسا کہ شیعہ ائمہ سے شیعیت میں استعانت چاہی جاتی ہے، ایسا عقیدہ رکھنے والے سچے مسلمان نہیں ہوتے۔"[3][4] جب کہ شیعیوں پر عقیدے کی تبدیلی کے لیے بھی دباؤ ڈالا جاتا ہے، وہ سعودی عرب میں سخت امتیازی سلوک کا سامنا کرتے ہیں، یہاں تک کہ عقیدے کی بنیاد پر سزائے موت (قانونی اور غیر قانونی دونوں طرح) بھی دی جاتی ہے۔

سعودی عرب کے اثنا عشری شیعہ بحرینی، بنیادی طور پر ملک کے مشرقی صوبے میں بستے ہیں، خاص کر قطیف اور الحساء شہروں میں۔ اثنا عشری شیعہ مدینہ منورہ میں بھی پائے جاتے ہیں جو نخاولہ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ اسی طرح، ایک قبائلی شیعہ آبادی علاقہ حجاز میں موجود ہے، جو تین قبیلوں: بنو حسین (الحسینی)، مکہ کے شریف جنھوں نے پانچ صدیوں تک حکومت کی، دو روایتی طور پر خانہ بدوش حجازی قبیلوں حرب (خاص طور پر بنو علی شاخ)[5] اور جہینہ میں منقسم ہے۔بعض مؤرخین کا ہے کہ یہ قبیلے شیعہ تھے نہ کہ زیدی یا اثنا عشری، وہ ان کو نو کیسانیہ عقائد سے منسلک بتاتے ہیں۔ سعودی عرب کے جنوبی علاقوں اور نجران میں یم قبیلہ روایتی طور پر سلیمانی اسماعیلی آبادی والا ہے۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. McKay Hollie (12 دسمبر 2016)۔ "Number of Christians celebrating Christmas in Saudi Arabia growing, but religious liberty isn't"۔ Fox News۔ Fox News۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 دسمبر 2016 
  2. David Commins (2009)۔ The Wahhabi Mission and Saudi Arabia۔ I.B.Tauris۔ صفحہ: 155–6۔ Within Saudi Arabia, official religious institutions under Wahhabi control multiplied at the same time that ulama maintained their hold on religious law courts, presided over the creation of Islamic universities and ensured that children in public schools received a heavy dose of religious instruction. 
  3. David Commins (2009)۔ The Wahhabi Mission and Saudi Arabia۔ I.B.Tauris۔ صفحہ: 155–6۔ Muhammad ibn Abd al-Wahhab […] insisted that invoking and making vows to holy men indeed constituted major idolatry and that it was proper to deem as infidels anyone who failed to view such practices as idolatry. […] He then stated that if one admits that these practices are major idolatry, then fighting is a duty as part of the prophetic mission to destroy idols. Thus, the idolater who call upon a saint for help must repent, If he does so, his repentance is accepted. If not, he is to be killed. 
  4. Hussien Ibn Ghannam (1961)۔ Tarikh najd۔ Cairo۔ صفحہ: 438 
  5. Die Welt des Islams: Zeitschrift der Deutschen Gesellschaft für Islamkunde, Volume 37 page 289

بیرونی روابط

ترمیم