سندھ تہذیب کا شہری منصوبہ بندی اور بلدیاتی نظام
اس مضمون کی ویکائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ ویکیپیڈیا کے اسلوب تحریر سے ہم آہنگ ہو سکے۔ براہ کرم اس مضمون کی ویکائی میں مدد کریں۔ |
دنیا کے بڑے دریاؤں کا جائزہ لیں تو ان میں سے صرف چار نے اپنے کناروں پر بڑی تہذیبوں کو جنم دیا ہے۔ نیل، دجلہ و فرات اور سندھ۔ باقی دریاؤں کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ دریائے سندھ کے کنارے ایک تو زمینیں ذرخیز تھیں، بے شمار جنگل بھی تھے اور ارد گرد صحرا بھی تھے۔ جب شہر بسائے گئے تو عمارتی لکڑی کی ضرورت پیش آئی اور ایندھن کی لکڑی بھی۔ پختہ اینٹوں کے بھٹے جلانے کے لیے لکڑی پاس موجود تھی۔ ان اسباب کی بنا پر وادی سندھ کی شہری تہذیب کا فروغ ممکن ہوا۔ وادیِ سندھ کی تہذیب کو ہڑپہ کی تہذیب کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
شہری منصوبہ بندی
ترمیمموہنجوداڑو میں پہلی آبادی سے لے کر آخری تک شہر کا نقشہ جوں کا توں وہی رہا۔ مکانوں کا گلی میں کھلنے راستہ اور بغلی گلیاں سب اپنی جگہ بار بار بنتی رہیں۔ اس سے پگٹ نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ان تمام برسوں میں یا تو ایک ہی خاندان کی حکومت رہی اور اگر خاندان تبدیل بھی ہوا تو بھی قدیم روایات بغیر کسی گڑبڑ کہ من وغن منتقل ہوتی رہی ہیں اور ایسا مذہبی تسلسل کے ذریعے ممکن ہوا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ پیداواری آلات ذرائع اور نظام معیشت میں تبدیلی نہیں ہوتی ہوگی۔ ملکی قوانین مذہبی عقائد کی شکل میں رائج ہوں گے۔ نہ سماج میں واضح ترقی ہوتی ہوگی، نہ عقائد بدلے ہوں گے۔ ہڑپہ اور مونجوداڑو دونوں شہروں کی پلانگ ایک جیسی ہے۔ شہر کے مغربی کنارے پر ایک بڑا قلعہ ہے۔ جو تقریباً مستطیل شکل کا ہے۔ جس کا طول شمالاً جنوباً چار سو گز ہے اور عرض شرقاً غرباً دو سو گز ہے۔ قلعہ 03 فٹ اونچے چبوترے پر بنایا گیا ہے۔ اس چبوترے کے گرد پکی اینٹوں کی مظبوط دیوار ہے اور اس کا پیٹ کچی اینٹوں سے بھرا گیا ہے۔ اس قلعے کے اندر بڑے بڑے ہال کمرے ہیں۔ بڑے بڑے دروازے اور چبوترے ہیں۔ قلعے کے باہر شہر کے مکانات ہیں اور غلاموں کے کواٹر ہیں، ان کے پاس گندم پیسنے کے فرش بنے ہیں اور ان کے آگے عظیم اناج گھر ہے۔ بڑی گلیاں زاویہ قائمہ پر مڑتی تھیں اور ان میں سے باقیدہ سیدھی گلیاں اور کوچے نکلتے تھے۔ شہر میں کسی جگہ کھلے میدان، پارک یا باغات نہ تھے۔ گھروں کے اندرنی نقشہ ہر دور میں بدل جاتے تھے۔ لیکن کنواں وہی رہتا تھا۔ اس کے اوپر مزید گول دیوار کھڑی جاتی تھی۔ چنانچہ اب کنواں کھود کر نکالے ہیں تو وہ بیس سے تیس فٹ اونچے کھڑے ہیں۔
معلوم ہوتا ہے اس نظام کا ایک انتہائی ترقی یافتہ افسر شاہی مشنری پر مشتمل مذہبی بادشاہت کا نظام تھا۔ لوگ مذہب کو مانتے تھے اور اس مستعد اور ماہرانہ نظام سے مطمئن تھے یا اسے نوشتہ تقدیر سمجھ کر راضی برضا تھے۔ بڑی اجناس گندم اور جو تھیں، اس کے علاوہ تل اور مٹر بھی کاشت کیے جاتے تھے۔ وادی سندھ میں گندم 0003 ق م سے بھی پہلے کاشت کی جاری تھی۔ ریاست غلاموں سے سرکاری سطح پر اجتماعی مشقت لیتی تھی۔ اس میں جو کا چھڑانا اور گندم کا آٹا پیسنا، جنگلات کی دیکھ بھال، لکڑی کاٹنا اور ملک کے طول و عرض میں پہچانا، خشت سازی، سرکاری سطح پر تھوک پیداوار کے حساب سے ہوتی تھی۔ اینٹوں کے بھٹے شہر کے قریب نہیں ملے۔ جس کا مطلب ہے یہ شہر سے بہت دور ہوتے تھے اور ریاستی منصوبہ بندی کے تحت تھے۔ موہنجودڑو کے دور زوال میں برتن پکانے کی بھٹیاں شہر کے اندر گھر میں اور گلی میں ملی ہیں۔
قدیم ہڑپہ کے مقام سے موجوددہ دریائے راوی تقریباً چھ میل دور ہے۔ لیکن جب یہ شہر آباد تھا تو راوی اس کے قریب بہتا تھا۔ اس لیے ہڑپہ کے قلعے کے قدیم دور میں اس کے ساتھ کچی اینٹوں اور مٹی سے ایک بڑا حفاظتی بند بنایا گیا ہے۔ جب کبھی راوی میں سیلاب آیا کرتا ہوگا تو یہ بند قلعے کی حفاظت کرتا تھا۔ اسی طرح موہنجودڑو تو دریائے سندھ کے اندر ایک جزیرہ نما خشکی پر واقع تھا۔ اس کے ایک طرف دریائے سندھ تھا اور دوسری طرح دریائے سندھ سے نکلنے والا نالہ ) جسے نارا کہتے ہیں ( بہتا تھا۔ یہ آگے جا کر واپس دریا میں مل جاتا تھا۔ اسی لیے شہر کی حفاظت کے لیے ایک میل لمبا حفاظتی بند باندھا گیا تھا۔ موہنجودڑو میں بار بار سیلاب کی تباہ کاریوں کا ثبوت ملتا ہے۔ سیلاب کی لائی ہوئی گاد سے اس شہر کی سطح زمین سے تیس فٹ بلند ہو گئی۔
ہڑپہ اور موہنجودڑو دونوں شہروں کا نقشہ اور ترتیب آپس میں انتہائی مشابہت رکھتے ہیں۔ اگرچہ ہڑپہ سے ان گنت اینٹیں لوگوں نے چوری کرکے نئی تعمیرات میں استعمال کیں اور لاہور ملتان ریلوے لائین بچھانے کے سلسلے میں یہاں سے ملبہ اٹھا کر استعمال کیا گیا۔ جس وجہ سے ہڑپہ کی مکمل شکل و صورت ماہرین آثار کے سامنے نہیں آسکی۔ پھر بھی جو کچھ بچا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہڑپہ کا عمومی نقشہ موہونجودڑو جیسا تھا۔
دونوں شہروں کا رقبہ تین میل سے اوپر تھا۔ دونوں شہروں میں قلعہ معین شکل کا ہے۔ شمالاً جنوباً چار یا پنچ سو گز تھا اور شرقاً غرباً تین سو گز تھا اور سطح زمین سے چالیس فٹ اونچا تھا۔ دونوں قلعوں کا طول شمالاً جنوباً ہے اور عرض شرقاً غرباً ہے۔ موہنجودڑو میں قلعہ اصل شہر اندر ایک منفرد اور ممتاز حثیت رکھتا تھا۔ جس کے ارد گرد گلیاں ایک جال کی شکل میں پھیلی ہوئی ہیں اور گلیوں کے اس جال میں جگہ جگہ عمارتوں کے بلاک میں قلعہ اور شہر اور قلعے کے درمیان ایک واضح خلا ہے۔ ہو سکتا ہے قلعہ کے ارد گرد وسیع اور گہری خندق ہو۔ جس میں پانی چھوڑا گیا ہو یا پھر دریا کا پانی لایا گیا ہو یا قدرتی طور پر دریا کی ایک شاخ نے اس کو جزیرے کی شکل میں گھیر رکھا ہو۔
اکثر شہروں میں قلعہ بھی ملا ہے۔ سندھ میں علی مراد کے مقام پر پتھر کی بنی ہوئی دیوار ملی ہے۔ جو تین سے لے کر پانچ فٹ تک موٹی ہے۔ یہ ایک مستطیل قسم کے رقبہ کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کے اندر کئی مکانات ہیں اور ایک کنواں ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا قبضہ معلوم ہوتا ہے جس کے گرد فصیل ہے۔ گویا یہ آزاد بستی ہے۔
سندھ میں تھارو میں فصیل شہر ملی ہے۔ اس قسم کے متعدد فصیل بند قبضات کا وجود یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ بنیادی طور پر ایک زرعی معاشرہ تھا۔ جو زراعت کی مدد کرنے والی مصنوعات بھی تیار کرتا تھا، یہ دیہات قبضات اور شہروں منقسم تھا۔ وادی سندھ کی شہری تہذیب کی بنیاد اسی زراعت پر تھی۔ زراعت اور مصنوعات کی وسیع پیمانے پر اندرونی اور بین الاقوامی تجارت کے بے شمار شواہد ملے ہیں۔ ان چھوٹے قلعہ بند قبضات میں لازماً بہت ساری تجارتی چوکیاں ہوں گی۔ جہاں سامان تجارت لے جانے والے قافلے عارضی قیام کرتے تھے۔ اس سلسلے میں خاص طور پر دابر کوٹ اور ستکاگن دڑو کا نام لیا جاتا ہے۔ سندھ میں میلانو ایک سرائے کی حثیت رکھتی تھی۔ کیوں کہ یہ بہت چھوٹی جگہ ہے اور اسے باقیدہ شہر سمجھنا مشکل ہے۔ ایسی ہی اور بے شمار سرائیں، تجارتی شاہراہوں کے ساتھ ساتھ ہوتی ہوں گی۔ جگہ جگہ قلعہ بند فوج سامان تجارت کی نقل و حمل کی حفاظت اور کاشت کاروں سے زائد پیداوار کی وصولی کے لیے تعینات ہوگی۔
بلدیاتی اتنظام
ترمیمدونوں شہروں میں نقشے کی مماثلت قدیم ترین زمانے سے پائی جاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں میسوپوٹیمیا میں ار شہر کا نقشہ ہے اس میں سارا شہر ایک بڑی گلی سے پھوٹتا ہے۔ جو ٹیرھی میڑھی گھومتی ہوئی جاتی ہے۔ گلیوں کا بے ترتیب یا گولائی میں ہونا خودرو گاؤں کی خصوصیت۔ جب کہ قائمۃ الزاویہ پر کاٹتی ہوئی ترتیب دار گلیاں منصوبہ سے بنائے ہوئے شہر کی خاصیت ہوتی ہے۔ شہر اور گاؤں کے درمیان ایک واضح فرق۔ اس معیار کو پرکھیں تو وادی سندھ کے تمام شہر ٹاؤن پلانگ کے پختہ دور کی پیدوار ہیں۔ کوسمبی کے خیال میں ہڑپہ اور موہنجودڑو کے شہر میسوپوٹیمیا کے بادشاہ سارگون کے عہد سے بھی قدیم تر ہیں۔ ان کی ٹاؤن پلانگ اور زیر زمین نکاسی آب کا انتظام میسوپوٹیمیا میں نہیں ملتا ہے۔ نسل در نسل گلیوں کی حد بندیوں کو نہ ٹوڑنا بھی میسو پوٹیمیا کے برعکس ہے۔ قدامت سے بھی زیادہ ہے۔ لہذا یہ تہذیب میسوپوٹیمیا سے مستعار یا متاثر نہیں۔
شہر کا نقشہ، اس کے بساؤ کا طریقہ، اس کی سڑکیں اور دیگر انتظامات کو دیکھ کر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وادی سندھ کے باشندے بہت ہی صفائی پسند، ممتدن اور خوش باش تھے۔ مروجہ قوانین کی سختی سے پابندی کرتے تھے۔ کوئی مکان یا کسی کی ذاتی تعمیر شاہراہ یا دیگر رفائ عام کے مقامات پر نہیں ہو سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے سڑکیں کھلی ہوئی اور کشادہ ہیں۔ ہر چوراہے پر ایک سڑک دوسری کو زاویہ قائمہ پر کاٹتی ہے۔ شاہراہوں کی چورائی 33 فٹ ہے۔ سڑکوں کے علاوہ بے انتہا کوچے و گلیاں ہیں۔ مگر سب سیدھی اور چوڑی ہیں نچلی منزل پر پاخانے بھی ہیں۔ غسل خانے اور پاخانے عموماً نچلی منزل پر ہیں۔ مگر بعض مکانات میں یہ دوسری منزل میں ان کے نشانات بھی ملتے ہیں۔ گھروں کا گندہ پانی جانے کے لیے نالیوں کا انتظام ہے۔ جن کی تعمیر میں حفظان صحت کا پورا خیال رکھا گیا ہے۔ غسل خانے اور پاخانے مکان کی حدود میں سڑک کی طرف واقع ہیں۔ ان کے فرش ایک طرف کو ڈھلواں ہیں۔ ان کا پانی نالیوں کے راستے باہر سڑک کی جانب بڑے نالے میں گرتا ہے۔ اس پورے شہر کا گندہ پانی زمین دوز نالیوں کے ذریعے شہر سے باہر چلا جاتا ہے۔ جو نالے سڑک کے کنارے سے گزرتے ہیں وہ اس طرح پاٹے گئے ہیں کہ ان کا سوراخ بھی نظر نہیں آتا ہے۔ ان تعمیرات اور منصوبہ بندیوں کو دیکھ کر آثار قدیمہ کے ماہرین دنگ رہے گئے۔ کھلی ہوئی بات یہ ہے کہ گھریلیوں اور عوامی زندگی کے درمیان اتنا گہرا ربط بلدیہ کے انتظام کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہ نظام کس طرح قائم تھا اس کی ہیت طرکیبی بتانے سے ہم قاصر ہیں۔
امیر گھروں میں تو نجی کنویں تھے۔ لیکن عوام کے لیے پبلک کنویں بکثرت ہوتے تھے۔ پبلک کنویں پر پانی کی سبیلیں بنی ہوئی تھیں۔ قریب ڈھیروں کی تعداد میں مٹی کے ٹوٹے ہوئے بادیے ملے ہیں۔ جو شاید اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایک بار پانی پیبنے کے بعد پھینک دیے جاتے تھے۔ اگر ایسا تھا تو مزید ثبوت اس بات کا ہے کہ ذات پات کا نظام منظم ہو چکا تھا اور چھوت چھات موجود تھی۔
عام طور پر اس دونوں شہروں کی عمارتیں پختہ اینٹوں سے بنی ہیں۔ رہائشی مکانات چھوٹے اور بڑے کثیر تعداد میں ہیں۔ چھوٹا مکان دو کمرے کا ملتا ہے اور سب سے بڑے مکان کا رقبہ 33000 مربع فٹ ہے۔ مکانات عموماً ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ گھروں میں وسیع صحن ہے۔ اکثر مکانات دو منزلہ ہیں اور بلندی پر تعمیر کیے گئے ہیں۔ بڑے مکانوں میں پھاٹک سے متصل ایک کمرہ دربان کے لیے مخصوص ہے۔ تقریباً ہر مکان میں ایک کنواں ہے۔ ہر مکان میں بھی ایک غسل خانے کا پتہ چلتا ہے۔ اس میں مٹی کے بڑے بڑے مٹکے رکھے رہتے تھے۔ جن کو کنویں سے پانی سے بھر لیا جاتا۔ اس سے لوٹے کے ذریعے پانی کو بدن پر ڈالتے تھے۔ لگتا ہے کہ لوگ کھڑے ہوکر نہاتے تھے۔ غسل خانوں کے فرش کی گھسی ہوئی اینٹیں عام ملی ہیں۔ ایسا بھی ثبوت ملا ہے کہ لوگ بدن پر تیل ملتے تھے۔ بڑے مکانوں میں جابجا کھڑکیوں اور دریچوں کے نشانات ملتے ہیں۔ زمین کا فرش مسطح و ہموار ہے۔ دوسری منزل پر جانے کے لیے اینٹوں کی تنگ سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں۔ بعض سیڑھیاں اتنی تنگ ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ یعنی ان کی چوڑائی صرف پانچ انچ ہے اور ایک سیڑھی سے دوسری سیڑھی کا فاصلہ پندرہ انچ ہے۔ بعض مکانات میں زینے کے نشانات نہیں ملتے ہیں۔ شاید لکڑی کے ہوں گے، ان کے نشانات امتداد زمانہ سے مٹ گئے ہوں گے۔ ایک حیرت انگیز بات یہ ہے ان کے بڑے سے بڑے مکان کا دروازہ تنگ اور پست ہے۔ عام رہائشی عمارتوں کے علاوہ بڑی عمارتیں ہیں۔ یہ بتانا مشکل ہے کہ ان کا واقعی کیا مصرف تھا۔ شہر ایک گوشے میں ایک وسیع اطاق پچاسی فٹ مربع نکلا ہوا ہے۔ جس میں دوکانوں کی طرح چھوٹے کمرے بنے ہوئے ہیں۔ شاید یہ بازار تھا اور لوگ یہاں خرید و فروخت کے لیے جمع ہوتے تھے۔[1][2][3][4][5]