سندھ طاس کا منصوبہ
1909ء میں منتظمین اور انجینروَں نے پہلی مرتبہ زیریں سندھ طاس کے منصوبے پر مجموعی طور پر غور کرنا شروع کیا ۔ ایک نیا تصور جو اس وقت مکمل طور پر طبع زاد تھا اپنایا گیا اور اس پر عمل درآمد شروع کیا ۔ جس کہ مطابق ایک دریا کے پانی کو دوسرے دریا تک پہنچایا جانا تھا ۔ جہلم کو ایک نہر کے ذریعہ چناب سے ملا دیا گیا ۔ اب انھیں زیادہ تجربہ اور زیادہ موثر مشنری کی مدد حاصل ہو گئی تھی ۔ نہروں اور پنجند اور معاون دریاؤں پر بہت سے بند اور بیراج باندھے گئے ۔ یہ دونوں دریاؤں کو یا نہروں کو قطع کرتی ہوئی دیواروں کی صورت میں تھے ۔ لیکن بند زیادہ اونچے نہیں ہوتے تھے اور ان کا مقصد خشک موسم میں پانی کو روک کر ضرورت کے مطابق اس کا رخ بدلنا تھا ۔ سیلابی پانی ان کے اوپر سے گذر کر ضائع ہوجاتا تھا ۔ بیراجوں پر عمودی گیٹ تھے جن کی بلندی کو کم یا زیادہ کیا جا سکتا تھا ۔ اس طرح یہ سیلاب کے وقت پانی کا ذخیرہ کرلیتے تھے ۔ اس طرح جہاں سیلابوں پر کسی حد تک قابوں پایا جا سکتا تھا اور ان میں جمع شدہ پانی کو سردیوں کے خشک موسم میں استعمال کیا جا سکتا تھا ۔ 1932ء میں سکھر کے مقام پر دریائے سندھ پر تعمیر کیا گیا پہلا بیراج کھول دیا گیا اور دنیا کے سب سے بڑے آبپاشی کے نظام نے کام کرنا شروع کر دیا ۔ تقسیم سے کچھ عرصہ پہلے دوسرا بیراج کالا باغ کے مقام پر تعمیر کیا گیا ۔ جس وقت یونین جیک اتارا گیا اس وقت تک برطانوی انجینیر سندھ طاس کو دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی نظام مہیا کرچکے تھے ۔ یہاں انھوں نے جو فارمولے تشکیل دیے وہ دنیا میں ہر جگہ نہروں کی تعمیر اور ان کو چلانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں ۔
اگرچہ یہ نہروں کے ساتھ یہ علاقہ اتنے بھی ذرخیر نہیں ہوئے کہ ان ہیں برصغیر کے غلے کا گودام کہا جاسکے ۔ تاہم پنجاب اور سندھ ہندوستان کی وسیع آبادی کے لیے کم از کم اتنی زیادہ خوراک پیدا کرنے کے قابل ہو چکے تھے جتنی اس سے پہلے ممکن نہیں تھی ۔ یہاں نہروں کی تعمیر سے قبل زراعت ایک غیر یقینی کاروبار تھا ۔ جب نہروں کی تعمیر کے بعد ہر موسم میں پانی میسر آنے لگا تو بہت سارے میدانی علاقوں میں فضلیں پیدا کی جانے لگیں ۔
بہار کے موسم میں کسان کپاس ، چاول ، باجرہ اور گناہ کاشت کرتے ہیں ۔ جو خزاں میں پک کر تیار ہوجاتے ہیں ۔ یہ خریف کی فضلیں کہلاتی ہیں ، خزاں کے موسم میں ایسی فضلیں بوئی جاتی ہیں جنہیں کم نمی کی ضرورت ہو اور گرمی کو برداشت کرسکیں ۔ ان میں گندم ، جو اور روغنی بیج شامل ہیں ۔ نئی نہروں کے آس پاس آباد کاری کی حوصلہ افزائی کی گئی اور زمینیں باٹی گئیں ۔ کپاس اور گندم کے کھیتوں کے ساتھ مالٹوں ، سنگتروں آموں ، ناشپاتیوں اور آلو بخاروں کے باغات نظر آتے ہیں ۔ یہ اس قدر گھنے اور پھلوں سے لدے ہوتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے بچے انھیں انھیں گوپھن اور غلیلوں کے ذریعہ طوطوں اور دوسرے پرندوں کو اڑاتے ہیں ۔ آبپاشی کے نتیجے میں کھجور کے باغات کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ۔ جن کی بہت سی اقسام ہیں اور ان کے بڑھے انوکھے اور نرالے نام رکھے گئے ہیں ۔
آب پاشی کو فروغ دینے کے ساتھ سیلابوں کو کنٹرول کرنے کے پہلووَں کو نظر انداز نہیں کیا گیا ۔ نازک مقامات پر حفاظتی پشتے تعمیر کیے گئے اور نئے بیراج بیک وقت دو اغراض پوری کرتے تھے ۔ دریا کے پانی کو روک کر سیلابوں قابوں میں کرنے میں مدد دیتے تھے اور پانی کے ذخائر مہیا کرتے تھے ۔ جن سے نہریں نکالیں جا سکتی تھیں ۔ 1870ء کی ڈھائی میں برطانویوں نے مختلف مقامات پر جہاں سے یہ بڑے دریا پہاڑوں سے نکلتے تھے مشاہداتی اسٹیشن قائم کیے اور یہاں کے پانی کے اخراج کا تفصیلی ریکاڈ مرتب کرنا شروع کیا ۔ صرف اس قسم کے کئی سالوں پر محیط ریکاڈ کی مدد سے ہی دریاؤں میں ہونے والی مستقل تبدیلیوں کے بارے میں وثوق کے ساتھ کسی قسم کی پیشنگوئیاں ممکن ہیں ۔
آبپاشی کے لیے کیے گئے انتظامات کئی قسم کے اثرات کے حامل ہوتے ہیں ۔ نہروں کا جال جو برطانوی انجینئروں نے بڑے اعتماد اور نیک ارادوں کے ساتھ بچھایا تھا اس نے سیم تھوڑ کا مسلہ پیدا کر دیا ۔ یہ بات بڑی عجیب لگتی ہے کہ صحرا سیم کا شکار ہوجائے ۔ لیکن پنجاب اور سندھ میں ریت کے نیچے جو اکثر گہرائی میں نہیں ہوتا ہے پانی کی ایک تہ پائی جاتی ہے ۔ جس کا کسانوں کو علم ہے اور ہزاروں کنووَں کے ذریعے یہاں سے پانی نکالا جارہا تھا ۔ کیوں کہ آبپاشی کے بغیر زمین بے کار ہوتی ہے ۔ اس لیے زمین کی پیمائش تقریباً پچیس ایکڑ عام طور پر کنویں سے کی جاتی ہے ۔
ایک مرتبہ جب نہریں تیار ہوگئیں اور پانی آسانی سے میسر آنے لگا تو کسانوں نے بڑی فراخدلی سے اس کا استعمال شروع کیا ۔ نہریں بھی زیادہ تر کچے کناروں والی تھیں ۔ لہذا پانی جذب ہوتا رہتا تھا ۔ بتدیح پانی کی سطح بلند ہوتی چلی گئی اور بعض جگہوں پر یہ صرف زمین کی سطح سے پانچ فٹ نیچے ہے ۔ دہکتا سورج بھی پانی کو کھیچ کر سطح پر لے آتا ہے ۔ بدقسمتی سے یہ پانی اوپر آتے ہوئے اپنے ساتھ زہریلے نمکیات بھی لے آتا ہے اور پانی خود تو بخارات بن کر اڑ جاتا ہے ۔ لیکن سطح زمین پر اپنے پیچھے نمکیات چھوڑ جاتا ہے ۔ سب سے پہلے کپاس کی فضل متاثر ہوئی اور پھر دیگر دوسری فضلیں متاثر ہونے لگیں ۔ اب تمام میدانی علاقے سفید نظر آنے لگے اور یہ مکمل طور پر بنجر ہو گئے ۔ بہت سے ٹیوب ویل جن کے کھوکھلے پاءپ جن کے ساتھ پمپ فٹ تھے زمین کے اندر پہنچائے گئے تاکہ تازہ پانی حاصل ہو سکے اور پانی کی سطح کو نیچے لے جایا جاسکے اور زہریلے نمکیات سے زمین کی سطح سے صاف کیا جاسکے ۔ لیکن یہ عمل مہنگا اور بہت جلد زوال پزیر ہوجاتا ہے ۔ 1948ء میں ایک برطانوی انجینر نے لکھا ہے کہ اگر پنجاب کو بچانا ہے تو جرات مند اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان نے مدد کے لیے غیر ملکی ماہرین کو بلوایا ، بہت سے علاقوں میں ٹیوب ویل پائلٹ پروجیکٹ کا آغاز کیا ۔ لیکن جلد ہی عیاں ہو گیا کہ اس پر قابو پانے کے لیے ایک بڑے اجتماعی حملے کی ضرورت ہے ۔ چھوٹی چھوٹی سکی میں عملی طور پر ناکام ہیں ۔ 1963ء میں 2000 ایک خاص وضع کے ٹیوب ویل راوی اور چناب کے درمیان 1;46;1200;46;000 ایکڑ کے علاقے میں نصب کیے گئے ۔ ایک سال کے بعد پانی کی سطح نیچے چلی گئی اور فضلوں میں عمومی بہتری کے آثار پیدا ہونے لگے ۔ لیکن اس مہم پر تقریبا 35 میلن امریکی ڈالر خرچ ہوئے اور ٹیوب ویل کے زوال پریز ہونے کے عمل پر صرف ضروری حد تک قابو پایا جاسکا تھا ۔ اس کے علاوہ جنوب میں کچھ علاقے ٹیوب ویلوں کے لیے موزوں نہ تھے اور پانی کی نکاس کے لیے دوسرے طریقوں کا استعمال ضروری تھا ۔
تقریباً پچاس سال تک صحرا میں پانی کے مسلہ کو میدانوں میں ان طاقتور دریاءوں کو قابو میں رکھنے اور لگام ڈالنے کا کام ایک مکمل وحدت کے طور پر انجام دیا جاتا رہا ۔ مگر 1947ء کی تقسیم کے بعد سب کچھ بدل گیا ۔ سر سیرل کلف اس کمیشن کا چیرمین تھا ۔ برطانیہ کو اپنے اس نہری نظام پر فخر تھا اور قدرتی طور پر اس کی خواہش تھی کہ کامیابی سے چلتا رہے ۔ اس لیے سر سیرل کلف نے تقسیم کے وقت نہروں اور دریاؤں کو کنٹرول کرنے کے اس نظام کی اہمیت پوری طرح دونوں فریقوں پر واضح کردی اور برطانوی خواہش کے مطابق تجویز پیش کی کہ دونوں ملک ایک معاہدہ کر لیں کہ وہ اس سارے نظام کو ایک اکائی کی طرح چلائیں ۔ مگر دونوں فریق ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور بڑی سختی سے یہ تجویز دونوں نے رد کردی گئی ۔ تقسیم کے وقت ظاہری طور پر پاکستان فائدے میں نظر آتا تھا کہ پنجاب کی 23 مستقل نہروں میں سے 21 پاکستان کے قبضہ میں آگئیں ۔ بھارت نے کشمیر پر قبضہ کے پنڈت نہرو کی امیدوں کے عین مطابق اب بھارت ہر وہ دریا پر جو پاکستان کی نہروں کو پانی مہیا کرتے تھے مکمل قابض ہو چکا تھا ۔ پجند کے پانچوں دریا مغرب میں پاکستان پہنچنے سے پہلے اس علاقے سے بہتے ہوئے آتے تھے جس پر پر اب بھارت قابض ہو چکا تھا ۔ خاص طور پر ستلج بھارت کے میدانوں میں میلوں چکر کاٹ کر آتا ہے ۔ اس کے علاوہ پانی کی تقسیم کے لیے دونوں دریاؤں راوی اور ستلج کے پر قائم تمام اہم ہیڈ ورکس بھی بھارت کے قبضہ میں آگئے تھے ۔ یہ وہ ہیڈورکس تھے جو پچاس سال سے ان کھیتوں کو پانی پہنچا رہے تھے جو پاکستان کے علاقے میں تھے ۔ بھارت اس پوزیشن میں تھا وہ جب چاہتا وہ پاکستان کو پانی کی سپلائی روک سکتا تھا اور ہوا بھی یہی ۔ اس نے آزادی کے فوراًً بعد پاکستان کا پانی روک لیا ۔ یہ تنازع بڑھا آخر کار عالمی طاقتوں نے سندھ طاس کا معاہدہ کروایا جس کے تحت بیاس ، ستلج اور راوی مکمل طور پر بھارت کے حوالے کردیے گئے اور پاکستان کے حصہ میں جناب ، جہلم اور سندھ آئے ۔
دریائے سندھ ۔ جین فیرلی