سورہ بینہ

قرآن مجید کی 98 ویں سورت

نام پہلی آیت کے لفظ البینہ کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔

البینہ
اعداد و شمار
عددِ سورت98
عددِ پارہ30
تعداد آیات8
گذشتہالقدر
آئندہالزلزال

زمانۂ نزول

اس کے مکی اور مدنی ہونے میں اختلاف ہے۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ جمہور کے نزدیک یہ مکی ہے اور بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ جمہور کے نزدیک مدنی ہے۔ ابن الزبیراور عطاء بن یسار کا قول ہے کہ یہ مدنی ہے۔ ابن عباس اور قتادہ کے دو قول منقول ہیں۔ ایک یہ کہ یہ مکی ہے اور دوسرا یہ کہ مدنی ہے۔ حضرت عائشہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا اسے مکی قرار دیتی ہیں۔ ابو حیان صاحب بحر المحیط اور عبد المنعم ابن الفرس صاحب احکام القرآن اس کے مکی ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جہاں تک اس کے مضمون کا تعلق ہے، اس میں کوئي علامت ایسی نہیں پائی جاتی جو اس کے مکی یا مدنی ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہو۔

موضوع اور مضمون

قرآن مجید کی ترتیب میں اس کو سورۂ لق اور سورۂ قدر کے بعد رکھنا بہت معنی خیز ہے۔ سورۂ علق میں پہلی وحی درج کی گئی ہے۔ سورۂ قدر میں بتایا گیا ہے کہ وہ کب نازل ہوئی اور اس سورت میں بتایا گیا ہے کہ اس کتاب پاک کے ساتھ ایک رسول بھیجنا کیوں ضروری تھا۔ سب سے پہلے رسول بھیجنے کی ضرورت بیان کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ دنیا کے لوگ،خواہ وہ اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرکین میں سے، جس کفر کی حالت میں مبتلا تھے اُس سے اُن کا نکلنا اِس کے بغیر ممکن نہ تھا کہ ایک ایسا رسول بھیجا جائے جس کا وجود خود اپنی رسالت پر دلیل روشن ہو اور وہ لوگوں کے سامنے خدا کی کتاب کو اس کی اصلی اور صحیح صورت میں پیش کرے جو باطل کی ان تمام آمیزشوں سے پاک ہو جن سے پچھلی کتب آسمانی کو آلودہ کر دیا گیا ہے اور بالکل راست اور درست تعلقات پر مشتمل ہو۔ اس کے بعد اہل کتاب کی گمراہیوں کے متعلق وضاحت کی گئی ہے کہ ان کے ان مختلف راستوں میں بھٹکنے کی وجہ یہ نہ تھی کہ اللہ تعالٰی نے ان کی کوئی رہنمائی نہ کی تھی بلکہ وہ اس کے بعد بھٹکے کہ راہ راست کا بیانِ واضح ان کے پاس آ چکا تھا۔ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اپنی گمراہیوں کے وہ خود ذمہ دار ہیں اور اب پھر اللہ کے اس رسول کے ذریعے سے بیانِ واضح آ جانے کے بعد بھی اگر وہ بھٹکتے ہی رہیں گے تو ان کی ذمہ داری اور زیادہ بڑھ جائے گی۔ اس سلسلے میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے جو انبیا بھی آئے تھے اور جو کتب بھی بھیجی گئی تھیں، انھوں نے اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا تھا کہ سب طریقوں کو چھوڑ کر خالص اللہ کی بندگی کاطریقہ اختیار کیا جائے، کسی اور کی عبادت و بندگی اور اطاعت و پرستش کو اس کے ساتھ شامل نہ کیا جائے، نماز قائم کی جائے اور زکٰوۃ ادا کی جائے یہی ہمیشہ سے ایک صحیح دین رہا ہے۔ اس سے بھی یہ نتیجہ خود بخود برآمد ہوتا ہے کہ اہل کتاب نے اس اصل دین سے ہٹ کر اپنے مذہبوں میں جن نئی نئی باتوں کا اضافہ کر لیا ہے وہ سب باطل ہیں اور اللہ کا یہ رسول جو اب آیا ہے اسی اصل دین کی طرف پلٹنے کی انھیں دعوت دے رہا ہے۔ آخر میں صاف صاف ارشاد ہوا ہے کہ جو اہل کتاب اور مشرکین اس رسول کو ماننے سے انکار کریں گے وہ بدترین خلائق ہیں، ان کی سزا ابدی جہنم ہے اور جو لوگ ایمان لا کر عملِ صالح کا طریقہ اختیار کر لیں گے اور دنیا میں خدا سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کریں گے وہ بہترینِ خلائق ہیں، ان کی جزا یہ ہے کہ وہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے۔