سورۃ الفاتحہ ۔۔۔ دبیاچہ قرآن کیوں؟؟
{{نقل:المبشر میگزین[1] سورۃ الفاتحہ --- دبیاچہ قرآن کیوں؟؟
پورے قرآن کے بنیادی مضامین کو سورہ الفاتحہ میں یکجا کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے ہم اسے دبیاچہ قرآن کہہ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر صرف اس سورہ کو پڑھا جائے تو پتا چل جاتا ہے کہ آئندہ قرآن پاک میں کو ن کون سے مضمون آ رہے ہیں۔ یعنی یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی بک کا تعارف یا کسی کہانی کا خلاصہ لکھ دیا جائے۔بالکل اسی طرح سورہ فاتحہ اپنے اندر کاملیت رکھتی ہے کہ اس کو پڑھ کر قرآن کے متن سے تعارف حاصل ہو جاتا ہے ۔ کہ آئندہ قرآن پاک میں کیا کیا مضامین بیان ہوں گے۔ اس لیے اسے قرآن کا دیباچہ کہا جاتا ہے۔ اصل میں یہ سورہ ایسے ہی ہے جیسے دریا کو کوزے میں بند کر دیا گیا ہو۔ کہ ہر پہلو کو اس میں واضع کیا گیا ہے۔ یہ واحد ایسی سورہ ہے جو سب لوازمات سے سجائی گئی ہے ۔ یہاں ہم ان لوازمات کو دیکھتے ہیں۔
اپنے رب کی تعریف و شکر:
جاندار کی فطرت ہوتی کہ وہ اپنے مالک کا وفادار ہوتا اور اپنے اپنے طریقے سے اپنے مالک کی تعریف و شکر کرتا ہے۔ جیسے جب بلی خوش ہو تو وہ اپنے مالک کے پاؤں میں لوٹتی ہے یہ اس کا اظہار تشکر ہے۔ جب کہ اشرف المخلوقات اپنے دنیوی انعام دینے والے کو تعریفوں اور قصیدوں سے نوازتی ہے کیونکہ یہ فطرت ہے جس سے فائدہ ہو، جس کا انسان احسان مند ہو اس کو اچھا سمجھ کر تعریف کرتا اور تہ دل سے اس کا شکر گزار ہوتا ہے۔ اس لیے اس سورہ کی پہلی آیت میں انسان اپنے مالک اور دونوں جہانوں کے مالک (جو اللہ نے انسان کے لیے بنائے) کی تعریف اور شکرکرتا ہے۔یہی تعریف و شکر اور اس عظیم ہستی کے احسانات اگلی سورتوں میں بارہا آتے ہیں۔ دوسری آیت میں انسانی فطرت کے عین مطابق اچھے القابات سے نواز ا گیا ہے ۔ جیسے جب آپ کسی کی مدد کریں تو وہ آپ کو ایک سے زیادہ القاب سے نوازے گا جیسے آپ بہت سخی، اچھے دل اور نیک خیالات کے مالک ہیں وغیرہ۔تا کہ اس کا آپ کے لیے احسان مند ہونا ظاہر ہو۔ اسی لیے اس سورہ میں اللہ نے اس آیت میں انسان کی اسی عادت کو مدِ نظر رکھ کر نازل کیا ہے کہ اتنا بڑا احسان کرنے والی ہستی کی انسان کھل کے تعریف کر سکے اور اپنی احسان مندی ظاہر کرے اچھے اچھے القابات سے نواز کر۔یہ آیت اس بات کو بھی واضح کرتی ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جس کی رحمت ہمارے پیدا ہونے سے آخری سانس تک ہمارے ساتھ ہے اور آئندہ زندگی میں بھی وہی اپنی رحمت کے سائے میں رکھنے والا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی ہستی نہیں جس کی رحمت مسلسل اور دونوں جہانوں میں قائم رہے۔
یوم حساب کا مالک
اس کے بعد بتایا جا رہا ہے کہ یہی اللہ جو اس دنیا میں اختیارِ کل کا مالک ہے وہی اگلے جہان میں جب قیامت برپا ہو گی اور سب کو حساب دینا ہو گا اس دن بھی بس یہی ذات اختیارِ کل کی مالک ہو گی۔یعنی حساب لینے والی ذات اللہ ہی ہے جو یوم حساب ہم سب کا حساب لیں گے۔
وفاداری کا اعلان اور مدد کی درخواست
اس کے بعد انسان اپنی وفاداری کا اعلان کر رہا ہے کہ ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ اس سے ایک تو انسان اپنی وفاداری کا بتا رہا ہے ساتھ ہی اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ تیرے سوا اور کوئی نہیں جس سے ہم مدد مانگ سکیں ۔ یہاں اللہ کا ذات اور صفات میں ایک ہونے کا اقرا ر کیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد انسان دعا کرتا ہے کہ اے اللہ تو ہی ہے جو ہمیں سیدھا راستہ دکھا سکتا ہے اس لیے ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ ساتھ ہی راستے کی وضاحت ہے کہ ایسا راستہ جس پہ چل کر ہمیں تیری رضامندی حاصل ہو وہ والا اور ایسا راستہ مت دکھا جن سے تو راضی نہیں جو گمراہ ہوئے ان کے راستے سے بچا۔
قرآن پاک کے تمام مضامین کا بیان
ان تمام لوازمات کو ہی بعد میں قرآن پاک میں بیان کیا گیا ہے کہ اصل مالک کون ہے اور اس کے اختیارات کتنے ہیں؟ روزِ آخرت کیا ہے؟ جزا کن کو ملے گی اور سزا کے مستحق کون لوگ ہوں گے؟انعام یافتہ ہونے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟ ایسی کون سی خصوصیات ہیں جو ہم اپنے اندر پیدا کریں تو اللہ کی طرف سے انعام کے حق دار ہوں گے؟نیز سزا یافتہ لوگ کو ن تھے؟ ایسی کون سی خصوصیات ہیں جو ہمیں اللہ کی طرف سے غضب کا شکار بنا دیں گی اور ان سے بچنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟ ایک طرح سے یہ سورۃ انسان کے اندر سوالات اٹھاتی ہے جس کے جواب اسے قرآن پاک میں ملتے ہیں۔جیسے کسی میگزین کو مشہور کرنے کے کچھ سوال اشتہارات کے طور پہ دے دیے جاتے ہیں جو انسان کے اندر تجسس جگاتے ہیں اور انسان کے اندر چاہ ہوتی ہے میگزین پڑھنے کی اسی طرح اس سورہ میں کچھ حصوں کو دے دیا گیا ہے جن کا جواب سارا قرآن پاک پڑھ کے ملتا ہے اس لیے اسے دبیاچہ قرآن کہا گیا ہو گا۔ دوسری طرف یہ سورہ قرآن پاک کے تمام مضامین کا مکمل بیان بھی ہے جو آگے تفصیلی طور پر قرآن پاک میں بیان ہوئے ہیں اس لیے بھی اسے دبیاچہ قرآن کی حیثیت حاصل ہے۔
از: عدیلہ کوکب
ماخوذ از: تدبر القرآن از مولانا احسن اصلاحی بشکریہ : المبشر تعلیمی و تربیتی میگزین