سٹیم سیل تھیراپی کا مطلب ہے کہ سٹیم سیلز یعنی غیر متشکل حیاتیاتی خلیوں کو بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کیا جائے سب سے مقبول سٹیم سیل تھیراپی ہڈیوں کے گودے یعنی bone marrow کا ٹرانسپلانٹ ہے – اس کے علاوہ آنول نال کے خون سے لیے گئے سٹیم سیلز بھی ایسی تھیراپی میں استعمال کیے جاتے ہیں – سٹیم سیلز کے حصول کے نت نئے طریقے تلاش کیے جا رہے ہیں اور ان سٹیم سیلز کو اعصابی بیماریوں، ذیابیطس اور دل کی بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کرنے پر ریسرچ کی جا رہی ہے سٹیم سیل تھیراپی کے حوالے سے عوام میں کافی شکوک و شبہات بھی پائے جاتے ہیں - خاص طور پر نامولود جنین سے حاصل کیے گئے سٹٰیم سیلز، somatic cells کے ذریعے بنائے گئے سٹیم سیلز اور ان سے pluripotent stem cells بنانے کے طریقوں پر بہت سے سوال اٹھائے گئے ہیں – ان میں سے زیادہ تر اعتراضات ان لوگوں نے کیے ہیں جو اسقاطِ حمل کے خلاف ہیں یا انسانوں کی کلوننگ کو اخلاقی طور پر ناقابلِ قبول سمجھتے ہیں – اس کے علاوہ آنول نال کے خون کے استعمال کو تجارتی پیمانے پر استعمال کرنے کی بھی مخالفت کی جاتی ہے

طبی استعمالات

ترمیم

کینسر مثلاً لیوکیمیا اور lymphoma کے مریضوں کے علاج کے لیے ہڈیوں کے گودے کا استعمال تیس سال سے زیادہ عرصے سے ہو رہا ہے – سٹٰیم سیل تھیراپی کی یہ واحد شکل ہے جو مقبولِ عام ہے – کیموتھیراپی کے دوران میں انسانی جسم کے ایسے تمام خلیے مر جاتے ہیں جو تیزی سے تقسیم ہونے کے قابل ہوں – لیکن کیموتھیراپی میں استعمال ہونے والے کیمیائی مرکبات کینسر کے خلیات اور ہڈیوں کے گودے کے خلیات میں تفریق نہیں کر پاتے – چنانچہ مریض کے ہڈیوں کے گودے میں بننے والے سٹیم سیلز بھی کیموتھیراپی کے دوران مر جاتے ہیں – سٹیم سیل تھیراپی کے ذریعے اس نقصان کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے – عطیہ دیے گئے ہڈیوں کے گودے سے مریض کے جسم میں سٹیم سیل بننے کا عمل دوبارہ شروع ہوجاتا ہے – اس کے علاوہ عطیہ شدہ ہڈیوں کے گودے میں نئے مدافعتی خلیے پیدا ہوتے ہیں جو کینسر کے خلیوں کو مارنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں – لیکن اگر اس عمل کو کنٹرول نہ کیا جائے تو عطیہ شدہ گودے سے پیدا ہونے والے مدافعتی خلیے مریض کے جسم کو بیرونی جرثومے سمجھ کر اس پر حملہ آور ہونے لگتے ہیں جو اس علاج کا سب سے خطرناک سائیڈ ایفیکٹ ہو سکتا ہے

سنہ 2012 میں کینیڈا کی حکومت نے ایک اور قسم کی سٹیم سیل تھیراپی کے استعمال کی اجازت دی تھی (جسے Prochymal کہا جاتا ہے) جو ایسے بچوں میں سٹیم سیل کے علاج سے پیدا ہونے والے نقصانات کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے جن پر steroids کام نہیں کرتے – یہ ایک allogenic stem therapy ہے جو بالغوں کے عطیہ کیے گئے ہڈیوں کے گودے سے بنے سٹیم سیلز استعمال کرتی ہے – ایک بالغ شخص کے عطیہ کیے گئے گودے سے دوا کی دس ہزار خوراکیں پیدا کی جا سکتی ہیں – یہ خوراکیں فریزر میں محفوظ رکھی جاتی ہیں تاکہ بوقتِ ضرورت انھیں استعمال کیا جاسکے

FDA نے آنول نال کے خون سے لیے گئے hematopoietic stem sells سے بنی کم از کم پانچ ادویات کی منظوری دے دی ہے

2014 میں یورپ کی میڈیسن ایجنسی نے سٹٰیم سیلز سے تیار کیے گئے علاج کو تمام یورپ کے لیے منظوری دینے کی سفارش کی تھی – یہ علاج ان لوگوں کے لیے ہے جن کی آنکوں کی بینائی آگ میں جلنے کے سبب ضائع ہو گئی ہو – اسی طرح مارچ 2016 میں ADA-SCID کے علاج کے لیے سٹٰیم سیل تھیراپی کی منظوری دی گئی

ریسرچ

ترمیم

سٹیم سیلز پر ریسرچ کی بہت سی وجوہات ہیں – سٹیم سیلز سے خارج ہونے والے مالیکیولز کو بھی ادویات میں استعمال کرنے کے لیے ریسرچ کی جا رہی ہے

نیورو ڈی جینریشن (Neurodegeneration)

ترمیم

جانوروں کے دماغ پر سٹیم سیلز کے ممکنہ اثرات پر ریسرچ کی جا رہی ہے تاکہ پارکنسنز، Amyotrophic lateral sclerosis اور الزائمر جیسی بیماریوں کے علاج دریافت ہوسکیں

صحت مند اور بالغ افراد کے دماغ میں نیورل سٹٰیم سیلز موجود ہوتے ہیں جو تقسیم ہوتے رہتے ہیں تاکہ سٹیم سیلز کی تعداد میں کمی نہ ہونے پائے – ان میں سے کچھ progenitor cells بن جاتے ہیں – صحت مند اور بالغ جانوروں میں یہ سیلز دماغ کے مختلف حصوں میں پہنچتے ہیں اور دماغ کی سونگھنے کی حس کو برقرار رکھتے ہیں – اگر ان سیلز کو دواؤں کے ذریعے لیبارٹری کے بالغ چوہوں کے دماغ کے دوسرے حصوں میں سرگرم کر دیا جائے تو یہ دماغ کے ان حصوں میں موجود زخموں کو مندمل کر کے ان حصوں کے کام کو بحال کر سکتے ہیں

دماغ اور حرام مغز کی چوٹ

ترمیم

سٹروک یا دماغ پر چوٹ لگنے کی صورت میں دماغ کے خلیے مر سکتے ہیں اور دماغ کے اس حصے کی کارکردگی میں کمی آ سکتی ہے – 2013 میں اسکاٹ لینڈ میں ایک سٹڈی کی گئی تھی جس میں سٹروک کے مریضوں کے دماغ میں سٹیم سیلز کے انجکشن لگائے گئے تھے – اس کے علاوہ حرام مغز کے چوٹ کے علاج کے لیے بھی سٹیم سیلز کے استعمال کی سٹڈی کی جاچکی ہے

دل کے بارے میں مشہور سٹڈی جو Bodo-Eckehard Strauer نے کی تھی اب غلط ثابت کی جاچکی ہے – بہت سی سٹڈیز میں یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ بالغوں کے لیے سٹیم سیل تھیراپی محفوظ اور کارآمد ہے – ان میں سے صرف کچھ لیبارٹریز نے ہی اس تھیراپی کو بہت زیادہ کامیاب بتلایا ہے لیکن ان میں دل کی محض چند بیماریوں پر توجہ دی گئی ہے – اگرچہ شروع میں جانوروں پر اس تھیراپی کے بہت عمدہ اثرات رپورٹ کیے گئے تھے، بعد میں کیے گئے کلینیکل ٹرائلز کے نتائج اتنے اچھے نہیں رہے اگرچہ ان میں بھی کچھ مثبت نتائج رپورٹ کیے گئے – اس فرق کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں مریضوں کی عمر، علاج کا وقت (یعنی بیماری کے کتنی دیر بعد علاج شروع کیا گیا) اور آیا دل کی بیماری حالیہ ہے یا پرانی – مزید علاج سے ان وجوہات پر قابو پایا جا سکتا ہے جس سے علاج کو مزید بااثر بنایا جا سکتا ہے – اس کے علاوہ علاج کے طریقوں میں مزید بہتری لائی جا سکتی ہے – موجودہ سٹڈیز میں سٹیم سیلز کی اقسام، علاج کے طریقوں اور سٹیم سیل حاصل کرنے کے طریقوں میں بہت سے اختلافات پائے جاتے ہیں جس وجہ سے ان سٹڈیز کے نتائج کا تقابلی جائزہ مشکل ہے – ضرورت اس امر کی ہے کہ اس علاج کی مزید سٹڈیز کی جائیں

دل کے امراض کے علاج کے لیے ہڈیوں کے گودے سے لیے گئے سٹیم سیلز زیادہ استعمال ہوتے ہیں اگرچہ اس کے علاوہ دوسری قسم کے سٹیم سیلز بھی اس علاج کے لیے استعمال کیے جاچکے ہیں – دل کے امراض کے علاج کے لیے سٹٰیم سیل پر مبنی علاج 2007 سے میسر ہے

سٹیم سیل سے دل کے امراض کے علاج میں مندرجہ ذیل طریقہِ کار سے فائدہ ہوتا ہے* دل کے نئے عضلات بن جانا* دل کے دورے سے متاثرہ عضلات میں خون کی نئی رگوں کا بننا* نشو و نما کو فروغ دینے والے ہارمونز کا بننا* کسی اور طریقے سے عضلات کی مدد

ہڈیوں کے گودوں سے لیے گئے سٹیم سیلز سے دل میں موجود مختلف قسم کے خلیے بنائے جا سکتے ہیں

نامولود جنین کے دل کے امراض کے علاج کے لیے سب سے پہلے 2012 میں گنی پگز پر کامیاب تجربات کیے گئے (چوہوں کے دل بہت تیزی سے دھڑکتے ہیں اس لیے وہ ایسے تجربات کے لیے موزوں نہیں ہیں) – ان گنی پگز کو پہلے دل کے دورے دیے گئے جن سے ان کے دل کے عضلات کو نقصان پہنچا – علاج شروع ہونے کے چار ہفتے بعد ان کے دل کے سکڑنے کی قوت کی پیمائش کی گئی – سٹٰیم سیلز کی مدد سے بنے ہوئے عضلات کے نئے خلیوں کو پرانے خلیوں کے ساتھ اکٹھے سکڑتے ہوئے پایا گیا – یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ ان مثبت نتائج کی وجہ انسانی سٹیم سیلز تھے یا کچھ اور – اس سلسلے میں مزید تحقیق کی پلاننگ کی جا رہی ہے جس میں اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ سٹیم سیلز متاثرہ حصے کے ارد گرد مزید مضبوط عضلات پیدا کریں – فی الحال یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ بالغ سٹیم سیلز یا جنین سے لیے گئے سٹیم سیلز اس کام کے لیے زیادہ موزوں ہیں

2013 میں ہڈی کے گودے سے لیے گئے سٹٰیم سیلز کے دل کی کارکردگی پر اثرات کے حوالے سے جاری کردہ رپوٹ میں بہت سے سقم پائے گئے – اس رپورٹ پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ان میں سے 48 رپورٹیں محض پانچ ٹرائلز پر مبنی ہیں اور ایک ہی ٹرائل کے نتائج بہت سی رپورٹوں میں ایک دوسرے کے متضاد معلوم ہوتے ہیں – ایک ہی سٹڈی کو دو مختلف رپورٹوں میں مختلف انداز سے بیان کیا گیا – ایک کا دعویٰ تھا کہ یہ سٹڈی 578 مریضوں پر کی گئی جبکہ دوسری رپورٹ میں اسی سٹڈی کے متعلق کہا گیا کہ یہ 391 مریضوں پر کی گئی تھی – کچھ رپورٹوں میں تو کچھ مریضوں کے نتائج میں منفیstandard deviation بھی پایا گیا جو ناممکن ہے – کچھ میں مریضوں کی تعداد مکسور پائی گئی (یعنی ان میں آدھے یا پونے مریض شمار کیے گئے تھے) – مجموعی طور پر اس رپورٹ میں ان مریضوں کی تعداد حقیقت سے کہیں زیادہ بڑھ چڑھ کر بتلائی گئی تھی جنہیں یہ علاج تجرباتی بنیادوں پر فراہم کیا گیا –

ان مسائل کے باوجود دل کے مریضوں کے لیے سٹیم سیل تھیراپی کا سب سے خوش آئند پہلو یہ ہے کہ دل کے دورے کے بعد دل کے عضلات کے نقصانات کی تلافی کی جا سکتی ہے

خون کے خلیات کا بننا

ترمیم

انسان کے مختلف مدافعتی خلیوں میں سے ہر ایک کسی ایک مخصوص جرثومے کو مارنے میں مشاق ہوتے ہیں جس وجہ سے انسان تیزی سے ارتقا پزیر جرثوموں سے بھی محفوظ رہتا ہے کیونکہ نئے مدافعتی خلیے ان تبدیل شدہ جرثوموں کو مارنا سیکھ لیتے ہیں – البتہ کچھ بیماریاں ایسی ہیں جو ان مدافعتی خلیوں کی کارکردگی کو متاثر کرتی ہیں جس وجہ سے انسان کے بیمار ہونے اور بیماریوں سے موت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں - hematopoietic خلیوں کی بیماریوں کو سمجھنے کے لیے پیتھالوجی کا ایک ضمنی شعبہ قائم کیا گیا ہے جسے hematopathology کہا جاتا ہے – چونکہ مدافعتی خلیے ایک مخصوص جرثومے کو مارنے میں ہی مہارت رکھتے ہیں اس لیے مدافعتی خلیوں کی بیماریوں کا علاج زیادہ مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہر مخصوص خلیے کا ممکنہ علاج مختلف ہو سکتا ہے – خلیوں کی ٹرانسپلانٹ کے لیے عطیہ دینے والے اور عطیہ لینے والے کے خلیوں کا یکساں ہونا ضروری ہوتا ہے جو اس صورت میں عملاً ناممکن ہے – البتہ سٹیم سیل کے ذریعے ایسی بیماریوں کا علاج اب ممکن ہو رہا ہے –

hematopoietic سٹیم سیلز (جن سے خون کے خلیے بنتے ہیں) کے استعمال سے خون کے مکمل طور پر تیار خلیے پیدا کیے جا سکتے ہیں – اس کام کے لیے hematopoietic سٹیم سیلز ایسے ماحول میں تیار کیے جاتے ہیں جو ہڈیوں کے گودے سے ملتا جلتا ہو – اس کے علاوہ ان میں کچھ growth factors شامل کیے جاتے ہیں جو سٹیم سیلز کو خون کے خلیوں میں تبدیل ہونے میں مدد دیتے ہیں – اس ضمن میں مزید ریسرچ سے جین تھیراپی، خون کی منتقلی اور جلد پر لگانے والی ادویات بنانے میں مدد ملنے کا امکان ہے

دانتوں کی نشو و نما

ترمیم

سنہ 2004 میں سائنس دانوں نے چوہوں میں نئے دانت اگانے کا طریقہ وضع کیا اور اس کے استعمال سے لیبارٹری میں مصنوعی دانت اگانے میں کامیاب ہوئے – سائنس دانوں کو یقین ہے کہ جلد ہی اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے انسانوں کے ضائع شدہ دانت دوبارہ اگائے جاسکیں گے

اصولاً یہ ممکن ہے کہ سٹیم سیلز کو مناسب ماحول فراہم کیا جائے تو وہ دانتوں میں تبدیل ہو سکتے ہیں جنہیں انسانی مسوڑوں میں نصب کیا جا سکتا ہے اور ایسے دانت تقریباً تین ہفتے میں بن سکتے ہیں – مسوڑوں میں نصب ہونے کے بعد یہ دانت کیمیائی سگنل چھوڑیں گے جس کے نتیجے میں ان میں اعصاب اور خون کی رگیں بن جائیں گی اور یہ جبڑے کی ہڈی کے ساتھ مستقل طور پر جڑ جائیں گے- یہ عمل بالکل وہی ہے جو انسانوں کے نئے دانتوں کی نشو و نما کے دوران میں ہوتا ہے – لیکن سٹیم سیلز سے دانت پیدا کرنے کے عمل کے بہت سے مراحل ابھی باقی ہیں

آج کل ان مراحل پر تجربات جاری ہیں – اس کے علاوہ مگر مچھ پر بھی ریسرچ کی جا رہی ہے کہ وہ کیسے اپنے ٹوٹے ہوئے دانت دوبارہ پیدا کر لیتے ہیں – مگر مچھ کے دانت اگر 50 دفعہ بھی ٹوٹیں تو ان کی جگہ ازخود نئے دانت پیدا ہوجاتے ہیں

کانوں کے cochlea میں بالوں کی نشو و نما

ترمیم

کانوں کے اندر ایک عضو ہوتا ہے جسے cochlea کہا جاتا ہے – اس کے اندر موجود ننھے منے بال انسانی سماعت کی کارکردگی کے لیے ضروری ہیں – جنین سے لیے گئے سٹیم سیلز کی بدولت ان بالوں کو دوبارہ پیدا کرنے کے تجربات میں کافی کامیابی ہوئی ہے

بینائی کے مسائل

ترمیم

سنہ 2003 سے سائنس دان قورنیہ کی بیماریوں کا سٹیم سیل سے علاج کر کے لوگوں کی بینائی لوٹا رہے ہیں – اسقاط شدہ جنین سے ریٹینا کے خلیوں کی پرتیں اتار کر بینائی کے مریضوں کے قورنیہ پر لگائی جاتی ہیں تو مریضوں کی بینائی رفتہ رفتہ لوٹ آتی ہے کیونکہ یہ سٹیم سیلز قورنیہ کے خلیوں میں تبدیل ہوکر تقسیم ہونے لگتے ہیں اور یوں ایک نیا قورنیہ بن جاتا ہے – اس ضمن میں سب سے حالیہ ریسرچ 2005 میں انگلستان میں کی گئی جہاں اس طریقے کو استعمال کرتے ہوئے چالیس مریضوں کی بینائی بحال کی گئی – اس کے علاوہ بالغ لوگوں کے سٹیم سیلز (جو مریضوں یا ان کے لواحقین سے لیے گئے تھے) سے بھی بینائی کے مسائل حل کیے جاچکے ہیں

سنہ 2005 میں برطانیہ کے ڈاکٹروں نے عطیہ شدہ قورنیہ کے سٹیم سیلز سے ایک ایسی خاتون کی بینائی بحال کی جن کی آنکھیں اس وجہ سے ضائع ہو گئی تھیں کہ کسی نے ان پر تیزاب پھینک دیا تھا – ٹرانسپلانٹ کے لیے قورنیہ خاص طور پر موزوں ہے کیونکہ یہ شفاف ہوتا ہے اور اس میں خون کی رگیں نہیں ہوتیں – دنیا کا سب سے پہلا کامیاب ٹرانسپلانٹ قورنیہ کا ہی تھا – آج بھی قورنیہ کے ٹرانسپلانٹ سے ہر سال ہزاروں لوگوں کی بینائی بحال کی جاتی ہے – سٹٰیم سیل کے ٹرانسپلانٹ سے قورنیہ کہ بحالی کا تناسب 25 فیصد سے 70 فیصد تک ہے

2014 میں ریسرچرز نے یہ ثابت کیا کہ انسانی قورنیہ سے حاصل کیے گئے سٹیم سیلز کو اگر چوہوں کے قورنیہ میں لگایا جائے تو چوہوں کا مدافعتی نظام انھیں مسترد نہیں کرتا اور یوں چوہوں کے قورنیہ پر زخم مکمل طور پر مندمل ہوجاتے ہیں - سنہ 2012 میں ایک پیپر میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ دو ایسی خواتین کے ریٹنا میں جنین سے لیے گئے سٹیم سیل کے انجکشن لگانے سے ان کی بینائی لوٹ آئی جو آنکھوں کی بیماری کی وجہ سے بینائی سے محروم ہو گئی تھیں – سنہ 2015 میں ایک بہت بڑی سٹڈٰی کے ابتدائی نتائج شائع کیے گئے جس کے مطابق بالغوں کی ہڈیوں کے غدود سے لیے گئے سٹیم سیل کے استعمال سے ایک مریض کی بینائی 20/2000 سے 20/40 تک بہتر ہو گئی

لبلبہ (pancreas) کے خلیے

ترمیم

ذیابیطس کے مریضوں میں لبلبہ میں موجود beta cells انسولین بنانا چھوڑ دیتے ہیں – حال ہی میں کچھ تجربات میں سائنس دانوں نے جنین کے سٹیم سیلز کو لبلبہ کے beta cells میں تبدیل کرنا سیکھ لیا ہے – سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اگر ان خلیوں کو انسانی لبلبہ میں ٹرانسپلانٹ کیا جائے تو وہ لبلبہ کے ناکارہ خلیوں کی جگہ لے کر انسولین بنانا شروع کر دیں گے

انتقالِ عضویات Transplantation

ترمیم

انسانی جنین کے سٹیم سیلز کو لیبارٹری میں سیل کلچر میں نشو و نما دلانے کے بعد انھیں انسولین بنانا سکھایا جا سکتا ہے اور اس کے بعد انھیں مریض کے جسم میں منتقل کیا جا سکتا ہے – تاہم اس امر میں کامیابی کے لیے مندرجہ ذیل شرائط ہیں* منتقل شدہ خلیات کو جسم میں تقسیم ہو کر پھلنا پھولنا چاہیے* ان خلیات کو وہ مخصوص نظام سنبھالنا چاہیے جس کے لیے انھیں منتقل کیا گیا ہے* منتقل شدہ خلیات کو زندہ رہنا چاہیے (یعنی انھیں وصول کرنے والے جسم کو یہ سکھانا ہوگا کہ ان خلیات کو مدافعتی نظام اپنے جسم کا حصہ سمجھے، انھیں غیر سمجھ کر ان پر حملہ نہ کر دے* منتقل شدہ خلیات کو جسم کے باقی خلیات کے ساتھ منسلک ہوجانا چاہیے* منتقل شدہ خلیات کو جسم کے اس عضو کا نظم و نسق سنبھال لینا چاہیے جہاں انھیں نصب کیا گیا ہے

ہڈیوں اور جوڑوں کا علاج

ترمیم

ہڈیوں کے علاج کے لیے سٹیم سیلز کے استعمال میں کچھ کامیابی ہوئی ہے – ہڈیوں کے علاج کی ضمن میں زیادہ تر mesenchymal stem cells استعمال کیے گئے ہیں جو ہڈیوں کے خلیات میں تبدیل ہو سکتے ہیں – ان سٹٰیم سیلز کے استعمال سے کچھ لوگوں کی ہڈیوں کے حجم میں اضافے کے ثبوت کے لیے MRI سٹڈیز کو پیش کیا گیا ہے – تاہم ابھی تک کوئی بڑے پیمانے پر ایسی سٹڈی نہیں کی گئی – تاہم ایک ضمنی سٹڈی میں 227 مریضوں پر یہ طریقہ 3-4 سال تک آزمایا گیا اور اسے محفوظ پایا گیا اور اس میں مرض میں پیچیدگیاں بہت کم پائی گئیں - ایک اور سٹڈی میں پانچ لوگوں پر یہ طریقہ آزمایا گیا اور ان کے گھٹنوں میں موجود نقائص کو دور کر دیا گیا

زخموں کا مندمل ہونا

ترمیم

سٹیم سیلز کو انسانی عضلات کے ریشوں کی نشو و نما کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے – بالغوں میں زخمی ریشے عام طور پر کھرنڈ میں تبدیل ہوجاتے ہیں جس میں جلد پر کولیجن کے بے ہنگم سٹرکچر نمودار ہوجاتے ہیں، اس حصے سے بال گر جاتے ہیں اور خون کی رگیں ٹیڑھی میڑھی ہوجاتی ہیں – لیکن اگر اسی قسم کا زخم جنین (فیٹس) میں ہو تو سٹیم سیلز کی موجودگی کی وجہ سے وہاں نارمل عضلات دوبارہ بن جاتے ہیں – چنانچہ بالغوں میں زخموں کے نشان مٹانے کا ایک ممکنہ طریقہ یہ ہے کہ زخم کی جگہ پر سٹیم سیلز کی پیوندکاری کر دی جائے اور ان سٹٰیم سیلز کو عضلات کی مرمت کرنے کا موقع دیا جائے – اس طریقے سے جنین میں موجود زخم مندمل کرنے کی صلاحیت کو بالغوں میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے – اس سلسلے میں بہت سی ریسرچ جاری ہے تاکہ سٹیم سیلز کی پیوند کاری کی ٹیکنالوجی کو بہتر بنایا جاسکے

بانجھ پن

ترمیم

انسان کے جنین سے لیے گئے سٹیم سیلز کو اگر بانجھ خواتین کی ovaries میں نصب کر دیا جائے تو یہ سٹٰیم سیلز بیضوں میں تبدیل ہو سکتے ہیں – لیبارٹری میں انسانی جنین کے سٹٰیم سیلز کو کامیابی سے سپرم میں تبدیل کیا جاچکا ہے اگرچہ یہ سپرم نارمل معلوم نہیں ہوتے اور ناقص معلوم ہوتے ہیں – سنہ 2012 میں انسانوں اور چوہوں کی ovaries سے سٹیم سیلز حاصل کیے گئے اور یہ ثابت کیا گیا کہ انھیں لیبارٹری میں کامیابی سے مکمل بیضوں میں ڈھالا جا سکتا ہے – یہ طریقہ علاج بانجھ پن کے لیے بہت کامیاب ثابت ہو سکتا ہے

HIV/AIDS

ترمیم

انسان کے مدافعتی نظام کی HIV کے ہاتھوں تباہی خون اورnodes lymph میں T cells کے معدوم ہوجانے سے ہوتی ہے – HIV کا وائرس ان خلیات میں ایک مخصوص receptor کو استعمال کرتے ہوئے داخل ہوتا ہے – کیونکہ وائرس کو اپنی کاپیاں بنانے کے لیے T cells کے جینز کی ضرورت پڑتی ہے اس لیے فعال T cells ہی HIV کے پھیلنے کا ذریعہ بنتے ہیں – سائنس دان اب ایسے T-cells بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جو HIV کی وائرس کو اپنے اندر داخل نہ ہونے دیں –

کلینیکل ٹرائلز

ترمیم

سنہ 2009 میں امریکا کی حکومت نے Geron Corporation کو جنین سے بنائے گئے سٹٰیم سیلز کی انسانوں پر ٹرائل کی منظوری دی – اس ٹرائل کا مقصد جنین کے سٹیم سیل سے تیار کی گئی دوا GRNOPC1 کی ریڑھ کی ہڈی اور حرام مغز کی چوٹوں کو درست کرنے کی قابلیت کا اندازہ لگانا تھا – تاہم فنڈز کی کمی کے باعث یہ ٹرائل سنہ 2011 میں بند کردیے گئے – اس کمپنی کو سنہ 2013 میں BioTime نامی کمپنی کے خرید لیا تاکہ ان ٹرائلز کو دوبارہ شروع کیا جاسکے

موجودہ ریسرچ

ترمیم

بالغ انسانوں کے اعضا کے لیے سٹٰیم سیلز کو لیبارٹری میں پیدا کرنے کی صلاحیت نئی دواؤں کی ریسرچ کے لیے بہت سے نئے مواقع پیدا کر رہی ہے – ان سٹیم سیلز کی بدولت انسانی ٹشو لیبارٹری میں پیدا کیا جا سکتا ہے اور نئی ادویات کو انسانوں پر استعمال کرنے سے پہلے ان کے اثرات لیبارٹری میں ہی دیکھے جا سکتے ہیں – ان سٹیم سیلز کی بدولت دواؤں کے جانورں اور انسانوں پر تجربات کی ضرورت کم ہوتی جا رہی ہے – اس کے علاوہ لیبارٹری میں پیدا کیے گئے انسانی ٹشو پر دوا کے اثرات بلاواسطہ طور پر معلوم کیے جا سکتے ہیں

سٹیم سیلز کی ٹیکنالوجی کی بدولت ایسے جانوروں کی نسل بڑھانا ممکن ہو گیا ہے جن کے معدوم ہوجانے کا خطرہ ہے – بجائے اس کے کہ ایسے جانوروں کی مادہ سے بیضے حاصل کیے جائیں (جو تعداد میں ہمیشہ بہت کم ہوتے ہیں) ان کے سٹٰیم سیلز حاصل کیے جا سکتے ہیں جو تعداد میں بہت زیادہ ہوتے ہیں – اس عمل میں جانور کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ بھی بہت کم ہوتا ہے – اس کے علاوہ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک معدوم ہوتے جانور کے سٹٰیم سیلز کو اس سے ملتے جلتے جانور کی مادہ کے رحم میں ڈال کر معدوم نسل کے بہت سے بچے پیدا کر کے اس نسل کو معدوم ہونے سے بچایا جائے

سٹیم سیلز کو انسانی جگر کے امراض کے علاج کے لیے استعمال کرنے پر بہت ریسرچ ہو رہی ہے – جگر کے خلیے خود بخود تقسیم ہونے کی قابلیت رکھتے ہیں اس لیے جگر کو معمولی نقصان کی تلافی از خود ہوجاتی ہے – اگر جگر کو شدید بیماری لاحق ہو جس میں بہت سے خلیے مر جائیں تو اس کی ازخود تلافی ناممکن ہوتی ہے – جگر اور لبلبے کی بیماریوں (مثلاً ذیابیطس) کے علاج کے لیے سٹیم سیل استعمال کرنے کے لیے بہت زیادہ ریسرچ کی جا رہی ہے لیکن فی الحال اس قسم کا کوئی علاج عوام کے لیے میسر نہیں ہے

آج کل Mesenchymal سٹیم سیلز پر ریسرچ کی جا رہی ہے تاکہ اعضا کی پیوند کاری کے بعد جسم کا مدافعتی نظام ان اعضا کو رد نہ کر دے – allogenic سٹیم سیلز کے استعمال سے جسم کے مدافعتی نظام کو اس قابل بنایا جا سکتا ہے کہ وہ پیوند شدہ اعضا کو اپنے جسم کا ہی حصہ سمجھے – اگر یہ ریسرچ کامیاب رہی تو عین ممکن ہے کہ ایسی ادویات بنائی جاسکیں جو انسانوں اور جانوروں میں پیوند کاری کو آسان بنا دیں – سٹیم سیلز کے ذریعے جسم کے مدافعتی نظام کو ری پروگرام کرنے کے حوالے سے بھی بہت سی ریسرچ کی جا رہی ہے جس سے الرجی اور اس جیسے دوسرے autoimmune امراض کا علاج ممکن ہوگا

اتھلیٹکس کے شوقین حضرات کو کھیلوں کے دوران میں ہڈی، جوڑوں یا عضلات کی چوٹٰیں لگ جانا معمولی بات ہے – ایسے مریضوں کی اپنی ہڈیوں کے گودے سے لیے گئے سٹیم سیلز سے ان چوٹوں کے جلد علاج کے لیے کلینیکل ٹرائلز جاری ہیں – ایسی ٹیکنالوجیزکے میسر ہونے سے فوری علاج تو ممکن ہوگا ہی لیکن اس پر بھی ریسرچ کی اشد ضرورت ہے کہ ایسے علاج کے دور رس نتائج کیا ہوں گے – جانوروں کے علاج میں نئی ٹیکنالوجی کے استعمال سے پالتو جانورں اور مویشیوں کی اوسط عمر میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے لیکن اس کے ساتھ جانوروں کی ادھیڑ عمر کی بیماریوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے – سٹیم سیل ٹیکنالوجی کے ذریعے گھوڑوں، کتوں اور دوسرے پالتو جانوروں کے جوڑوں اور ہڈیوں کے مسائل سے نمٹنے میں بہت مدد مل سکتی ہے

جنین کے سٹیم سیل کے استعمال پر تنازع

ترمیم

بہت سے لوگ جنین کے سٹٰیم سیل کے استعمال پر اخلاقی اور مذہبی بنیادوں پر اعتراض کرتے ہیں – سب سے زیادہ اعتراض ان طریقوں پر کیا جاتا ہے جن میں سٹیم سیل کے حصول کے لیے blastocyst کو ضائع کیا جاتا ہے – سٹیم سیلز حاصل کرنے کے بہت سے نئے طریقے بھی ایجاد ہو چکے ہیں جن میں یہ اخلاقی مسائل موجود نہیں ہیں – مثال کے طور پر بالغوں کے سٹٰیم سیلز کا استعمال یا بالغوں کے جسم سے لیے گئے عام خلیات کو سٹٰیم سیل میں تبدیل کرنے کی ٹیکنالوجی میں کسی جنین کو تباہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔[1]

حوالہ جات

ترمیم

سانچہ:Stem cells