سٹینڈنگ سٹون
ضلع صوابی کے مشرق تحصیل رزڑ کے تاریخی موضع شیوہ جو مغرب کی جانب کڑہ مار پہاڑی سلسلہ جو رومانی داستان یوسف خان شیربانوکی وجہ سے مشہور ہیں دوسری جانب ضلع بونیر اور خدوخیل کا پہاڑی سلسلہ منسلک ہے شیوہ کی تاریخی و قدیمی قبرستان سڑک کے کنارے زمانہ قبل مسیح سے قائم سٹینڈنگ سٹون (لکی تیلی)30 کی تعداد میں موجود ہیں جس کی لمبائی 15 سے زائد نمایاں ہیں متحدہ ہندوستان سے شائع شدہ ریسرچ رسالہ میں کرنل آرتھر 1870ء میں ایک تصویر شائع کیا ہے جس میں ایک ہندو مزہبی شخص اس سٹینڈنگ سٹون کیساتھ کھڑا نظر آرہا ہے اور تاریخ کے طور پر اس کو آئرن ایج دور کا ہے جو کہ1000ہزار قبل مسیح ہندووں بدھ مت کے پیروکاروں اور سورج کو پوجھنے والوں کی یاد گار ہیں کیونکہ ساتھ ہی آسوٹا گاؤں آباد ہے جو سو سے نکلا ہے اور سو کو ہندی میں کا کہا جاتا ہے یہ سولر کلاک کی شکل میں 50پٹ پر محیط ہیں اور ہر پتھرکا دوسرے پتھر سے 4فٹ کے قریب ہیں اس وقت کے سائنٹسٹ نے کلینڈر کے طور پر سول کلاک قائم کیا تھا ایک طرف کلینڈر کا کام لیتے تھے تو دوسری طرففصلوں کے لیے مناسب اوقات و موسم بھی انہی کھڑے پتھروں کی مدد سے معلوم کرتے تھے شیوہ گاؤں کے متعلق عام تاثر ہے کہ یہاں پر شیوہ درخت(شیشم) تھا اور گاؤں کا نام اسی سے پڑا ہے جو غلظ ہے وہاں پر انگریزوں کے زمانے کی رسٹ ہاؤس پر SHEWA لکھا گیا ہے جس سے طلب ہندوں کو بھگوان شیوہ زیادہ موزوں لگتا ہے آس پاس کے تما گاؤں کے نام بھی ہندوؤں کے نام پر اب بھی موجود ہیں سٹینڈنگ سٹون کھڑے پتھروں کی زمین سے اونچائی بھی کسی صورت 15فٹ سے کم نہیں جب کہ زمین کے اندر بھی ان کی گہرائی زیادہ ہے ایک پتھر کا وزن بھی ٹن کے قریب ہے جو اس زمانہ میں ہاتھیوں کی مدد سے قریبی پہاڑی یا ترلاندی کے پہاڑوں سے لائی گئی ہے مقامی لوگ ان پتھروں کو لکی تیلی کہتے ہیں اور فرضی روایات اور داستانیں بھی منسوب کیے ہیں جس میں کہا جاتا ہے کہ یہاں سے ایک بارات گزررہی تھی ایک ہندو سادھو کو ناگوار گذری اور تمام باراتیوں کو پتھروں میں تبدیل کیا گیا یہاں پر شیوہ اور آس پاس کی باسیوں کے جد امجد حیدر بابا کا قبر بھی 1870ء کے وقت کی موجود ہیں