سن 1783 عیسوی کے شروع میں تمام سکھ مسلوں نے دلی کے حکمران کو کمزور جان کے اس پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس میں سردار بگھیل سنگھ اور سردار جسا سنگھ رامگڑھیا قائدین اور جرنیل تھے۔ سردار جسا سنگھ رامگڑھیا جی نے دلی پہنچنے سے پہلے بھرتپور کے جاٹ نریش سے ایک لاکھ روپئے نذرانہ وصول کیا۔ اور اس کے بعد دلی میں داخل ہو گئے۔ اس وقت خالصہ کے جوانوں کی تعداد تیس ہزار تھی۔

سردار بگھیل سنگھ اور جسا سنگھ آہلووالیا 40 ہزار سکھ فوجوں کولے کے دریا یمنا کے براڑی گھاٹ کو پار کر کے دلی میں داخل ہوئے۔ دوسری طرف سکھ جرنیل جسا سنگھ رامگڑھیا اپنے 10 ہزار فوجیوں کے ساتھ ہسار والی سمت سے دلی میں داخل ہوا۔ اس وقت دلی کے تخت پر شاہ عالم دوم براجمان تھا۔ سکھ حملے کی خبر سن کے درباری اور شاہ عالم مقابلہ کرنے کی بجائے قلعے کے اندر والے حصے میں جاکر چھپ گئے۔ پورے شہر پر قبضے کے بعد سکھ قوم کے تینوں مشہور جرنیلوں نے ملک کے دار الخلافہ دلی کے لال قلعے کے اوپر کیسری نشان صاحب لہراء کے دنیا کی تاریخ میں ایک اور سنہرا باب رقم کر دیا۔

مغل بادشاہ شاہ عالم دوم اس وقت سکھوں کا سامنا کرنے میں اپنے آپ کو کمزور سمجھ رہا تھا، اس لیے وہ خاموش اور پرامن رہا۔ انجام: سکھ بنا لڑے ہی دلی کے مالک بننے لگ تھے۔ ایک میان دو تلواراں تو رہِ نہیں سکتی تھیں۔ آخر کار بادشاہ شاہ عالم دوم نے سکھوں کو خوش کرنے کی ساری کوششیں کیں اور بہت سارے نذرانے بھی پیش کیے اور آخر میں صلح کا ایک مسودا پیش کیا۔

اس صلح نامے پر سردار بگھیل سنگھ اور وزیر اعظم گوہر نے دستخط کیے تھے– صلح نامے کے اہم نکات درج ذیل تھے 1. . خالصہ دل کو تین لاکھ روپے ہرجانے کے طور پر دیے جائیں گے۔ 2. . شہر کی کوتوالی اور "چنگی وصول" کرنے کا اختیار سردار بگھیل سنگھ کو سونپ دیا جائیگا۔ 3. . جب تک تک گرودواروں کی تعمیر نو مکمل نہیں ہو جاتی، اس وقت تک سردار بگھیل سنگھ چار ہزار فوجی اپنے ساتھ رکھ سکیں گے۔

ماخذ

ترمیم

ویکیپیڈیا پنجابی