سیاچن تنازعہ
ہمالیہ کے بعد دنیا کے عظیم ترین پہاڑی سلسلے قراقرم کی برفیلی چوٹیوں پر موجود، تین کھرب مکعب فٹ برف سے بنا ہوا 45 میل لمبا اور تقریباً 20000 فٹ کی بلندی سے شروع ہونے والا برف کا یہ منجمد دریا قطب شمالی اور قطب جنوبی کو چھوڑ کر دنیا کا دوسرا سب سے بڑا گلیشیئر ہے۔ ہندوستان نے 70 کلومیٹر طویل (43 میل) سیاچن گلیشیر اور اس کے معاون گلیشیروں کے ساتھ ساتھ گلیشیر کے مغرب میں سلورٹو رج کے تمام اہم گزرگاہوں اور بلندیوں کو بھی سنبھال لیا ، جن میں سیا لا ، بلفونڈ لا اور گیانگ لا شامل ہیں۔ پاکستان سالٹوورو رج کے مغرب میں فورا. ہی برفانی وادیوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ ٹائم میگزین کے مطابق ، سیاچن میں اپنی فوجی کارروائیوں کی وجہ سے ہندوستان نے 2500 کلومیٹر سے زیادہ کے علاقے پر کنٹرول حاصل کر لیا۔[1] شمال مغرب کی جانب سے شروع ہو کر بل کھاتا ہوا یہ گلیشئر جنوب مشرق کی طرف سانپ کی مانند نیچے آتے ہوئے انڈیا کے زیر انتظام وادی نبرا میں ختم ہوتا ہے جہاں جنگلی گلابوں کی بہتات ہے اور اسی مناسبت سے بلتی زبان میں اس گلیشیئر کا نام سیاچن، یعنی جنگلی گلابوں کی سرزمین ہے۔
پاکستان اور انڈیا کے درمیان گذشتہ33 برس سے جاری اس جنگ میں انسانوں کا مقابلہ انسانوں سے کم اور قدرت سے زیادہ ہے۔ سردی کے موسم میں سیاچن گلیشیئر پر درجہ حرارت منفی 60 ڈگری تک گر جاتا ہے اور برفانی طوفان اور ہواؤں کے جھکڑ 200 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتے ہیں اور اپنے ساتھ اوسطً 40 فٹ برفباری لاتے ہیں۔ اس گلیشیئر پر سالانہ آٹھ ماہ برفباری ہوتی ہے اور اونچائی کی وجہ سے صرف 30 فیصد تک آکسیجن رہ جاتی ہے جس کی وجہ سے وہاں سانس لینا دشوار تر ہو جاتا ہے۔ جنگ بندی کے معاہدے کے باوجود دونوں ملکوں کی فوجیں اپنی تیاریاں برقرار رکھتی ہیں۔ یہاں پاکستانی فوجی توپ چلانے کی مشق کر رہے ہیں۔ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اپریل 1984 سے شروع ہونے والی اس جنگ میں پاکستان اور انڈیا کے اب تک تقریباً تین سے پانچ ہزار فوجی جانیں گنوا چکے ہیں جن میں 70 فیصد سے زیادہ اموات موسم اور اس خطے کی دشواریوں کے باعث ہوئی ہیں۔ 2003 میں ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے کے بعد سے سیاچن پر جاری لڑائی اس لحاظ سے دنیا کی منفرد ترین جنگ ہے جہاں 14 سال سے کوئی گولی نہیں چلی اور اس عرصے میں یہاں ہونے والی تمام اموات قدرتی وجوہات کی وجہ سے ہیں۔
2015 میں انڈیا کی لوک سبھا میں جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق انڈین فوج سیاچن کے محاذ پر اپنے سات سے آٹھ ہزار فوجیوں کے لیے تقریباً 500 ملین ڈالر خرچ کرتی ہے جبکہ پاکستان کی فوج اس خطے میں موجود اپنے چار سے پانچ ہزار فوجیوں کے لیے 60 سے 70 ملین ڈالر صرف کرتی ہے۔
1905 میں فرنٹیئر سروے آف برٹش انڈیا کے سپرنٹنڈنٹ تھامس ہالڈرچ نے تنبیہ کی تھی کہ ’سیاچن گلیشئر تک پہنچنا تقریباً ناممکن ہے اور وہ ایسا علاقہ ہے جو مہذب معاشرے سے بہت دور ہے۔ وہاں جانا محض حماقت ہے اور خود کو شرمندہ کرنے کے مترداف ہے۔'
اس واضح تنبیہ کے تناظر میں دیکھا جائے تو کسی بھی ذی ہوش شخص کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ ایسی دشوار، ناقابل استعمال اور عسکری اعتبار سے غیر کلیدی مقام پر یہ لاحاصل جنگ کیوں جاری ہے اور کب تک جاری رہے گی۔ بنیادی طور پر سیاچن کے تنازع کی جڑ درحقیقت نقشہ کشی اور جغرافیائی وضاحت میں کمی کی وجہ سے ہے اور اس تنازع کو سمجھنے کے لیے تاریخ کے اوراق میں سرحدوں کی حد بندی کے باب کو سمجھنا ضروری ہے۔
اگست 1947 میں تقسیم ہند کے بعد پاکستان اور انڈیا دو علاحدہ ریاستوں کی صورت میں وجود میں آئے۔ مسلم اکثریتی ریاست کشمیر کے حکمران ڈوگرا ہندو مہاراجہ ہری سنگھ نے دو ماہ بعد اکتوبر میں انڈیا کے ساتھ ضم ہونے کا فیصلہ کیا جس کے بعد ریاست کے مسلمانوں کی جانب سے بغاوت کی لہر اٹھی جو 1948 میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان پہلی جنگ کا شاخسانہ بنی۔
اس معاملے کو حل کرنے کے لیے اکتوبر 1949 میں پاکستان کے اُس وقت کے دار الحکومت کراچی میں پاکستانی اور انڈین نمائندوں نے اقوام متحدہ کے اہلکاروں کے ساتھ مل کر سیز فائر لائن پر اتفاق کرنے کے لیے ملاقات کی جس میں نقشے پر سیز فائر لائن کے تحت سرحد کی حدود کا تعین کیا گیا۔
اس معاہدے کے تحت سیز فائر لائن کی آخری حد کو [[[این جے 9842]] کا نام دیا گیا جو سیاچن گلیشیئر کے جنوبی حصے کے قریب واقع ہے۔ معاہدے کے مطابق اس مقام سے ’گلیشیئرز کے شمال کی جانب' حصے کو سرحد تصور کیا گیا اور دونوں فریقین نے اس پر رضامندی کا اظہار کیا۔ اس جملے پر رضامندی کا مطلب تھا کہ سیز فائر لائن کی آخری مقررہ حد کے بعد بھی تقریباً 50 میل کی سرحد غیر مقررہ تھی لیکن کیونکہ وہ علاقہ صرف برف سے لبریز تھا اور انسانی رہائش کے قابل نہیں تھا، پاکستان اور انڈیا نے اس حصے کی حد بندی پر زور نہیں دیا۔
پاکستان اور انڈیا نے اس کے بعد 1965 اور پھر 1971 میں جنگ کے میدان میں سامنا کیا۔ دسمبر 1971 میں مشرقی پاکستان کھونے کے بعد شکست خوردہ پاکستان نے جولائی 1972 میں انڈیا میں شملہ کے مقام پر نئی سرحدوں کی حدود کے معاہدے پر رضامندی ظاہر کی۔
انڈین وزیر اعظم اندرا گاندھی اور پاکستان کے صدر ذو الفقار علی بھٹو نے اس معاہدے پر دستخط کیے لیکن اس دستاویز میں سرحدی حدود کی تعیناتی سیز فائر لائن کی بجائے لائن آف کنٹرول (ایل او سی ) کے نام سے کی گئی اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ ’دونوں فریقین اپنے باہمی اختلافات اور کسی بھی قانونی مداخلت سے بالاتر ہو کر ایل او سی کو یکطرفہ طور پر نہیں بدل سکتے۔' اس معاہدے کو تشکیل دینے والوں نے بھی سرحدوں کی آخری حد این جے 9842 تک جا کر چھوڑ دی۔ ان کو شاید اندازہ نہیں تھا کہ بارہ سال بعد یہاں شروع ہونے والی جنگ کیا مشکلات برپا کرے گی۔
قیام پاکستان کے بعد قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں براستہ بلتستان کوہ پیمائی کرنے والی غیر ملکی ٹیموں نے حکومت پاکستان سے باضابطہ اجازت ناموں کی درخواست کرنی شروع کی اور ایک اندازے کے مطابق 1972 سے لے کر 1980 کے اوائل تک حکومت پاکستان نے تقریباً 21 اجازت نامے جاری کیے جس کے تحت کوپیما ٹیموں نے قراقرم اور سیاچن گلیشیئر کے اطراف میں اپنے مشن پورے کیے۔ کرنل نریندر بل کمار پہلے انڈین فوجی تھے جنھوں نے سیاچن گلیشیئر پر کوہ پیمائی کی تھی سیاچن گلیشیئر پرعسکری جارحیت کے بیج 1977 میں بوئے گئے جب ایک جرمن کوہ پیما نے انڈیا کی سرحد سے قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں جانے کے لیے اجازت طلب کی اور انڈین فوج کے افسر کو امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے بنایا گیا نقشہ دکھایا۔ اس نقشے میں این جے 9842 سے آگے 50 میل کے حصے کو پاکستان کی سرحد میں شامل دکھایا گیا تھا جو اس سے پہلے غیر متعین تھا۔
انڈین فوج کے کرنل نریندر بل کمار نے اپنے افسران کو اس نقشے کے بارے میں بتایا جس کے بعد انھیں سیاچن گلیشیئر کی جانب کو پیمائی کرنے کا اور علاقے کی جانچ پڑتال کرنے کا حکم ملا۔ اس واقعہ کے بعد دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کی اس خطے میں نقل و حرکت پر نظر رکھنی شروع کر دی اور غیر ملکی کوہ پیما ٹیموں کا اس علاقے میں داخلہ کم سے کم ہوتا گیا۔
1983 کے وسط میں دونوں فوجوں نے باضابطہ طور پر ایک دوسرے کو شکایتی نوٹس بھیجے اور سرحدی حدود کی خلاف ورزی کرنے کے خلاف تنبیہ کی لیکن اس وقت تک یہ واضح ہو چکا تھا کہ اب یکے بعد دیگرے فوجی دستوں کی اس علاقے میں کوہ پیمائی کے بعد اس بنجر، بیابان، برف کے دریا پر امن کے دن ختم ہونے والے ہیں۔ 13 اپریل 1984 کو انڈین فوج نے آپریشن میگھ دھوت کا آغاز کیا جہاں ہیلی کاپٹروں کی مدد سے چالیس فوجی جوانوں کو اگلے چار دن میں گلیشیئر پر اتارا گیا۔ چار دن بعد 18 اپریل کو پاکستان نے جواب میں اپنے فوجی دستے بھیجنے شروع کیے اور اس کے ساتھ ہی دنیا کا بلند ترین میدان جنگ سج گیا۔ عمومی طور پر یہ کہا اور سمجھا جاتا ہے کہ یہ جنگ سیاچن گلیشئر پر ہو رہی ہے لیکن زمینی حقائق کے مطابق یہ جنگ سیاچن گلیشیئر تک رسائی کے لیے ہو رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 1984 کے بعد سے پاکستانی فوج سیاچن گلیشیئر پر کوئی مستقل چوکی بنانے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ ان کے مقابلے میں انڈین فوج کو بہتر اور اونچی پوزیشن پر رسائی حاصل ہے۔ گلیشیئر کے مغربی سرے پر موجود سالتورو پہاڑی سلسلے پر انھوں نے اپنی مستقل چوکیاں قائم کی ہوئی ہیں جن سے وہ پاکستانی چوکیوں پر نظر رکھتے ہیں۔
سیاچن پر جنگ شروع ہونے کے بعد پہلے پانچ سالوں میں دونوں ممالک کے درمیان کئی جھڑپیں ہوئیں اور دونوں فریقین کے فوجیوں نے بہادری اور ہمت کی ناقابل یقین مثالیں قائم کرتے ہوئے حیران کن جرات کا مظاہرہ کیا لیکن بڑی تعداد میں جنگی اموات اور موسم کی سختیوں کے باعث بہت جلد پاکستان اور انڈیا کی عسکری قیادت کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اس جنگ میں قدرت اورحالات کو شکست دیے بغیر مکمل کامیابی کا دعویٰ کرنا ایک خواب رہے گا۔
پاکستان اور انڈیا کے دیگر سرحدی تنازعات کے برعکس سیاچن کے جنگی محاذ کی خاص بات یہ ہے کہ گذشتہ 33 برس میں ان دونوں ممالک نے جنگی حالات میں رہتے ہوئے بھی اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے کے لیے متعدد بار کوششیں کی ہیں اور اب تک ان دونوں کے درمیان 13 مشترکہ اجلاس منعقد ہو چکے ہیں۔
ان تمام مشترکہ اجلاسوں میں سب سے سودمند ملاقات جون 1989 میں اسلام آباد میں ہوئی تھی اور اس میں شامل چند مندوبین کے مطابق سیاچن پر امن قائم کرنے کا اس سے بہتر موقع دوبارہ کبھی نصیب نہیں ہوا۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Edward W. Desmond/Kashmir (31 July 1989)۔ "The Himalayas War at the Top Of the World"۔ Time.com۔ 14 جنوری 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اکتوبر 2008