سید الورٰی
”سید الورٰی“(In english: SayyedulWara) اردو زبان میں لکھی گئی اول انعام یافتہ کتاب ہے۔یوں تو سرورِ عالم نبی مکرم ﷺ کے سیرت طیبہ پر زمانے کے ہر دور میں اور دنیا کی ہر معروف زبان میں کتب لکھی گئی ہیں، لکھی جا رہی ہیں اور قیامت تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا؛ لیکن حضرت قاضی عبد الدائم دائم صاحب زیدہ مجدہ نے تیرہ (13) سال کی بے پناہ تحقیق سے جو یہ شہکار تخلیق کیا ہے اس میں علمی دنیا کے مسلمہ اصولوں کی روشنی میں معتبر سیرت نگاروں سے بر ملا اختلاف بھی کیا ہے۔۔۔ واقعہ افک، سایہ مصطفی ﷺ جادو اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی بروقت نکاح و رخصتی کی عمر کے متعلق روایات کی جرح و تعدیل کے اصولوں پر مکمل تحقیق کے بعد مصنف سے اپنا نقطہ نظر اہل علم کے سامنے رکھا ہے۔ سیدالوری کی اہمیت اور خوصیات کے حوالہ سے اس کتاب کے مقدمہ سے مرحوم محمد شفیع صابرؔ صاحب کا ایک اقتباس ملاحظہ کریں۔۔۔
مصنف | قاضی عبد الدائم دائمؔ |
---|---|
مصور | قاضی واجد الدائم، اختر، امجد |
مصور سرورق | علم و عرفان پبلشرز |
ملک | پاکستان |
زبان | اردو |
ریلیز عدد | لا تعداد |
موضوع | سیرت نبوی ﷺ |
محل وقوع | دربارِ صدریہ، عید گاہ شریف، ہری پور |
ناشر | علم و عرفان پبلشرز |
تاریخ اشاعت | اشاعتِ اول 1417ھ |
تاریخ اشاعت انگریری | پہلی اشاعت 1996ء |
طرز طباعت | کتاب |
صفحات | تقریباً 1500 ﴿3 جلدیں﴾ |
اعزازات | صدارتی سندِ امتیاز |
ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ |
"قاضی عبد الدائم دائمؔ نے جو کچھ لکھا ہے، اس کی سند بھی دی ہے اس مقصد کے لیے انھوں نے پچھلے تمام دفتر کھنگالے ہیں اور انتہائی مستند کتابوں سے استفادہ کیا ہے۔ سیرت حلبیہ، آثار محمدیہ، البدایہ والنہایہ، طبقات ابن سعد، سیرت ابن ہشام، زرقانی، طبری، مستدرک، تاریخ الخمیس اور صحاح ستہ جیسی بلند پایہ کتب کا کوئی گوشہ ان سے چھپا نہیں تھا نہ متاخرین کی اخلاقی تحریروں کو انھوں نے درخور اعتناء سمجھا اور نہ ہی اپنی طرف سے حشو و زواہد کی ضرورت محسوس کی جہاں ایک واقعہ کے بارے ایک سے زیادہ آراء ہیں وہاں فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب ہی پہلوؤں کا ذکر کرنا ضروری سمجھا ہے۔۔ اور جہاں وہ کسی حتمی فیصلے تک نہیں پہنچ سکے وہاں بھی اعتراف حقیقف سے پہلو تہی نہیں کی۔۔ سیرت رسول ﷺ کے بیان کے ساتھ ساتھ اُس دور کے عرب معاشرہ اور کے مشاہیر، عوام کا رہن سہن، عقائد و عبادات، شعر و ادب، معیشت و معاشرت کی تمام جزئیات سے قارئین کو آگاہ کرنا ضروری سمجھا گیا ہے۔۔۔ اور فٹ نوٹوں سے اس سلسلہ میں بڑا مفید کام لیا گیا ہے اس اعتبار سے شائد ہی سیرت النبی ﷺ کی کوئی کتاب اتنی جامع اور مکمل ہو۔۔۔۔"
سید الورٰی پر جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے شعبہ علوم اسلامیہ کے ایک فاضل حافظ محسن ضیاء نے سیرت نگاری میں قاضی عبد الدائم دائم کا منہج اور تفرادات کے عنوان سے مقالہ لکھ کر ایم فل کی ڈگری حاصل کر لی ہے اور پی ایچ ڈی کر رہے ہیں بہاؤ الدین یونیورسٹی ملتان میں بھی ایک فاضل اس کتاب ہر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔۔۔۔
تعارفِ مصنف
ترمیمحضرت علامہ مولانا قاضی عبد الدائم دائمؔ صاحب مد ظلہ العالی کی ولادت 19 رجب 1364 ھ بمطابق 8 جون 1947 بروز سوموار کو ہری پور کے مضافات میں مشہور بستی درویش میں ہوئی۔۔ آپ نے تمام علوم ظاہری اور باطنی کی تعلیم اپنے والد ماجد اور مرشد گرامی صدر الاولیاء حضرت معظم قاضی محمد صدر الدین رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی۔۔ 1964 میں “دار العلوم نعمانیہ“ لاہور میں دورہ حدیث کا امتحان دیا اور الشہادۃ العالمیہ کی سند خصوصی امتیاز سے حاصل کی جبکہ لطف کی بات یہ ہے کہ جب آپ نے یہ امتحان دیا اس وقت حدیث کی کتب میں سے صرف مشکوۃ شریف ہی سبقا پڑھی تھی۔۔۔ 1969 میں آپ نے اپنے والد ماجد کی درینہ خواہش کی تکمیل کرتے ہوئے 6 ماہ کے مختصر عرصہ میں حفظ قرآن مکمل کیا اور حضرت معظم رحمۃ اللہ علیہ کی قائم کردہ جامع مسجد صدریہ میں 18 سال تک مسلسل تروایح میں سنایا۔۔۔۔ اور آپ کے والد ماجد کی ہی قائم کردہ درس گاہ ”دار العلوم ربانیہ“ میں 10 سال سے زیادہ عرصہ تمام مروجہ علوم و فنون کی کتب پڑھائیں۔۔۔ اصول حدیث، علم نحو، منطق، ادب و معانی آپ کے پسندیدہ علوم رہے ہیں۔۔۔ آپ کی قابلیت اور خداداد صلاحیتوں کے پیش نظر آپ کے والد ماجد حضرت قاضی محمد صدر الدین رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی حیات مبارک میں ہی جامع مسجد صدریہ کی امامت اور خطابت کے فرائض آپ کے ذمہ لگا دیے تھے۔۔۔۔
قبلۂ عالم، پیرِ مکرم، صدر الاولیاء حضرت معظم قاضی محمد صدر الدین رحمۃﷲ علیہ بمطابق 18؍ ربیع الثانی 1398ھ منگل اور بدھ کی درمیانی شب کو جب شام کی اذانیں ہو رہی تھیں خالق کائنات کے بلاوے پر اس دار فانی سے دارالبقا کو تشریف لے گئے۔حضرت معظمؒ کے وصال کے بعد ان کے اکلوتے فرزندِ ارجمند حضرت علامہ قاضی عبد الدائم دائمؔ ”حضرتِ اعلیٰ “مدظلہم العالی، ان کی جانشینی کے منصب پر فائز ہوئے اور اپنی ذمہ داریوں کو اس خوبصورتی اور عمدگی سے نباہا کہ حق ادا کر دیا۔ آپ علم و فضل اور روحانیت میں اپنے والد ماجد کے حقیقی جانشین ثابت ہوئے ہیں جو پودا قاضی صدر الدین علیہ الرحمہ نے لگا تھا آپ نے نہ صرف اس کی جڑوں کو مضبوط کیا بلکہ عملی جد و جہد سے اس کو قد آوار درخت بنا دیا ہے۔۔۔ آپ جہاں خانقاہ میں علم کے جواہر لٹاتے ہیں وہاں سالکین اور متلاشیان حق کی عملی تربیت بھی فرماتے ہیں۔۔۔۔ آپ بہترین شاعر بھی ہیں۔۔ حمد و نعت، نظم، غزل، قصیدہ اور مرثیہ وغیرہ تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی فرماتے رہتے ہیں آپ کا دیوان سید البشر کے نام سے کئی بار چھپ چکا ہے۔۔۔ آپ عربی، اردو، پشتو، انگلش اور ہندکو ان تمام زبانوں پر نمایاں عبور رکھتے ہیں۔۔۔ قاضی عبد الدائم دائم صاحب علم و تحقیق کے میدان کے بھی ماہر شہسوار ہیں۔۔ آپ کے بے شمام تحقیقی مقالہ جات اہل علم و فضل سے داد تحسین پا چکے ہیں۔۔ آپ نے اپنے سفرنامہ حرمین کو بلاوا کے نام سے تالیف کیا جس میں علم و تحقیق کے ساتھ ساتھ مزاح نگاری کو بھی نہایت شستہ پیرائے میں جابجا شامل رکھا۔۔۔آپ نے اپنے والد ماجد کی سوانح عمری بھی حیات صدریہ کے نام سے لکھی جس کا اسلوب سوانح عمریاں لکھنے والوں کے لیے مشعل راہ ہے۔۔۔۔ آپ کا سب سے نمایاں کام سیرت النبی ﷺ کے موضوع پر لکھی گئی کتاب سید الوری ﷺ ہے جو تین مجلدات پر محیط ہے ۔
تاریخِ سید الورٰی
ترمیمملک | پاکستان |
---|---|
زبان | اردو |
ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ |
حضرتِ اعلیٰ چونکہ علم ظاہر اور علم باطن ہر دو پر مکمل دسترس رکھتے ہیں اس لیے آپ ایک بے مثال مقرر و خطیب ہونے کے علاوہ نہایت بلند پایہ اور مسحور کن تحریر کے مالکِ ادیب بھی ہیں۔ اسی علمی و ادبی ذوق کی آبیاری کے لیے آپ نے اپریل 1984ء سے ایک ماہنامہ ”جام عرفاں“ کے نام سے جاری فرمایا جو مادہ پرستی اور بے راہ روی کے اس دور میں علم و آگہی، تفہیم دین، مسائل تصوف اور علمی مضامین کے ساتھ ادبی تحقیقات اور اہم عالمی واقعات پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ اس ماہنامے میں ”رونمائی“ اور خاص کر سیرت نبویﷺ پر ”سیّد الورٰی“ کے عنوان سے آپ کی دلپذیر تحریریں تیرہ (13) سال تک رسالے کی جان اور قارئین کے دلوں کی دھڑکن بنی رہیں۔ بعد ازاں اس انمول اور بے مثال خزانہ کو محفوظ کرنے کے لیے آپ نے سیّدالورٰی کو کتابی شکل دی۔
اس سے قبل مختلف موضوعات پر حضرت کی نثری تخلیقات مُلک کے اربابِ علم و دانش سے خراجِ تحسین وصول کر چُکی ہیں، لیکن کتابِ سیرت کے ذریعے تو حضرت ِاعلیٰ نے ایک جّیِدعالم دین، بُلند پایہ محقّق و نقّاد اور ایک صاحبِ طرز سیرت نگار کی حیثیت سے اپنی خداداد صلاحیّتوں کا ایسا لوہا منوایا کہ ”سید الورٰی“نے سیرت نگاری کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا اور بے انتہا شہرت و مقبولیت حاصل کی اور مقابلہ کتب سیرت سال 1998ء میں صدارتی اوّل انعام کی مستحق قرار پائی اور حکومت پاکستان کی طرف سے سیرت کانفرنس میں وزیر اعظم پاکستان نے نقد انعام کے ساتھ ساتھ سندِ امتیاز سے بھی نوازا۔
مقدمۂ سید الورٰی سے چند اقتباسات
ترمیم
جانِ دوعالمﷺکی سیرت نگاری کاشرف حاصل کرنا ہر صاحبِ علم مسلمان کی ہمیشہ سے آرزو رہی ہے اور بقول علامہ شبلی --- ”مسلمانوں کے اس فخر کا قیامت تک کوئی حریف نہیں ہو سکتا کہ انھوں نے اپنے پیغمبرﷺکے حالات و واقعات کا ایک ایک حرف اس استقصاء کے ساتھ محفوظ رکھا کہ کسی شخص کے حالات آج تک اس جامعیت کے ساتھ قلمبند نہیں ہو سکے اور نہ آئندہ کے لیے کیے جا سکتے ہیں۔”
مشہور مستشرق شپرنگر کی رائے میں ---”نہ کوئی قوم دنیا میں گذری، نہ آج موجود ہے، جس نے مسلمانوں کی طرح اسماءالرجال کا سا عظیم الشان فن ایجاد کیا، جس کی بدولت آج پانچ لاکھ اشخاص کا حال معلوم ہے۔۔۔۔۔۔۔یہ ساری کاوشیں اس لیے ہوئیں کہ رسول پاک، جان دوعالمﷺکے صحیح ترین اور مستند ترین حالات کی تدوین ہو سکے۔“
انھیں چھوڑیئے، یہ تو انسانی آرا ہیں---خود اللہ تعالیٰ اپنے رسولِ مقبولﷺکو ”وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکَ” کی یقین دہانی کراتا ہے--- اﷲ کا آخری کلام قرآن مجید، شروع سے آخر تک حضور سرورِ کائنات، فخر موجوداتﷺکی عظمت و رسالت کی شہادت نہیں تو اور کیا ہے---؟ حضورﷺکے اخلاق کریمانہ کا قصیدہ نہیں تو اور کیاہے---؟قرآن کا اعلان ہے ”جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ ہی کی اطاعت کی“---”ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر“ ---” اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہو، تو میری (جانِ دوعالمﷺ کی) پیروی کرو“ ---”جو رسولِ خدا تمھیں دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں، اس سے رک جاؤ۔“---”رسولﷲﷺ کا اسوہ حسنہ تمھارے لیے بہترین نمونہ ہے۔“ گویا اللہ ایک اور لاثانی ہے تو جانِ دوعالمﷺ بھی یکتا اور لاثانی --- نہ اللہ کے بغیر کوئی معبودہے، نہ رسول اللہﷺجیسا کوئی نبی اور پیغمبرِ خدا۔
رسول اللہﷺ کی سیرت طیّبہ کی جامعیت کا بیان بھی سید سلیمان ندوی سے بہتر انداز میں اور کون کر سکے گا --- وہ بتاتے ہیں کہ
”عزم،استقلال، شجاعت، صبر، شکر، توّکل، رضا بتقدیر، مصیبتوں کی برداشت، قربانی، قناعت، استغناء، ایثار، جود، تواضع، خاکساری، مسکنت --- غرض نشیب و فراز، بلند و پست تمام اخلاقی پہلوؤں کے لیے جو مختلف انسانوں کو، مختلف حالتوں میں یا ہر انسان کو مختلف صورتوں میں پیش آتے ہیں،ہم کو عملی ہدایت اور مثال کی ضرورت ہے، مگر وہ کہاں سے مل سکتی ہے؟ صرف مُحَمَّدٌ رسول اللہﷺکے پاس۔۔۔
”سیدالورٰی“ کو جوبات سیرت النبی ﷺ کی دوسری کتابوں سے ممیز کرتی ہے، وہ یہی ہے کہ اس میں محض تاریخی واقعات کو صحت و صفائی ہی سے پیش نہیں کیا گیا؛ بلکہ جو کچھ لکھا گیا ہے، محبت میں ڈوب کر لکھا گیا ہے۔ ہر واقعہ عقیدت کا رنگ لیے ہوئے ہے اور ہر تحریر عظمتِ رسول میں اضافہ کرنے کا باعث ہے۔
فرطِ جذبات میں قلم اور زبان پر قابو پانا کوئی آسان بات نہیں۔ لیکن مؤلفِ والا جاہ اس کٹھن آزمائش میں پورے اترے ہیں، ان کے احساسِ ذمہ داری کا یہ عالم ہے کہ قارئین کو یہ باور کرانا بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ
”آپ یقین کیجئے کہ جو کچھ لکھا ہے، اس احساس کے ساتھ لکھا ہے کہ بروز قیامت اس کے حرف حرف کا جواب دینا ہے۔ اس لیے حتی الوسع پوری کوشش کی ہے کہ ترتیب درست ہو۔“
علما و اہلِ دانش کے چند تأثرات
ترمیم
”اردو میں سیرت نگاری کی آگے ہی آگے بڑھتی روایت میں کتاب ”سیّدالورٰی” بہت وقیع و رفیع اضافہ ہے۔ اس کتاب کے فاضل مصنف حضرت علامہ قاضی عبد الدائم دائمؔ دامت برکاتہ ہیں جو خانقاہ نقشبندیہ مجددیہ ہری پور کے سجادہ نشین، دارا لعلوم ربانیہ کے سربراہ و سرپرست، ماہنامہ ”جامِ عرفاں”کے مدیر اور عارف ربانی حضرت معظمؒ قاضی محمد صدر الدینؒ کے فرزند ارجمند اور وارث معنوی ہیں۔وہ ایک بے بدل عالم، باعمل صوفی، صاحبِ طرز ادیب و شاعر اور ماہرالسنہ شرقیہ ہیں۔ انھوں نے اہم اور بنیادی سرچشمہ ہائے سیرت سے استفادہ کرتے ہوئے ”سیّدالورٰی” کو عشقِ نبیﷺ سے مملو، دل میں اُترتے چلے جانے والے ادب آفرین اسلوبِ نگارش سے آراستہ و پیراستہ کیا ہے۔ ان کی شعوری کوشش رہی ہے کہ ہر حوالہ مستند ہو، ہر حوالہ معتبر ہو اور حقیقت نگاری کی شان ہر کہیں قائم رہے اور اس مقصد کے حصول میں انھیں بہت نمایاں کامیابی حاصل ہو ئی ہے۔ یوں ان کے علم و عرفان، ذوق و شوق، نیاز و گداز، شبانہ روز عرق ریزی اور بہاریں اندازِ تحریر نے مل کر ”سیّدالورٰی” کو ایک لازوال و بے مثال کتاب سیرت بنا دیا۔ کتاب اس قدر دلچسپ اور معلومات افزا ہے کہ اگلی جلدوں کا شدت سے انتظار رہے گا۔“
پروفیسر حفیظ تائبؔ، شعبہ پنجابی، اورئنٹل کالج، لاہور
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
جانِ دوعالمﷺ کی سیرت پر یہ دلآویز، بے مثل اور لازوال کتاب ماہنامہ جامِ عرفاں کے مدیرِ اعلیٰ ادیبِ دلپذیر علامہ قاضی عبد الدائم دائمؔ کی شب بیداریوں، عرق ریزیوں، بے لوث کاوشوں، انتھک کوششوں، لگاتار محنتوں، عقیدت و محبت، وجد و کیف اور ذوق و شوق کے بیکراں جذبوں سے لیس جانکاہ فکر کا درخشاں، شیریں اور دل ستاں ثمر ہے۔یوں تو سرکارِ دوعالم، نورِ مجسمﷺ کی سیرت طیبہ پر ہر دور میں، ہر معروف زبان میں کتابیں لکھی گئیں اور”وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکْ ” کے مصداق یہ سلسلۂ حسیں، قیامت تک جاری رہے گا اور عاشقانِ مصطفی، سرکارِ دوجہاں، سرورِ دل و جاںﷺ کی بیکراں عظمتوں اور بے بہا رفعتوں کے گیت گاتے رہیں گے مگر قاضی عبد الدائم دائمؔ کی کتاب ”سیّدالورٰی” جیسی دلنشیں، سلیس، آسان، دلچسپ اور دلکش کتاب شاید ہی لکھی جائے۔
کتاب کا انداز محققانہ اور جداگانہ تو ہے ہی، انتہائی عالمانہ، عاشقانہ اور والہانہ بھی ہے۔ میں نے متعدد بار اس کی گہر بار اقساط پڑھیں تو گوشۂ تنہائی میں لذتِ آشنائی کے تصور سے سرشار ہوکر اشکبار ہو گیا۔
کبھی تو کوئی واقعہ، کوئی حوالہ، کوئی جملہ بے ساختہ رُلا دیتا، عجیب وجد و کیف کی دولت ملتی اور کئی بار حلقۂ یاراں میں مجھے کہنا پڑا کہ سیّدالورٰی چھپ گئی تو انشاء اللہ اہل قلب و نظر کے اذہان پر چھا جائے گی اور اس کو پڑھنے والی ہر ہستی مراد پا جائے گی۔ ہماری دعا ہے کہ یہ عظیم کتاب ہر صاحبِ ہوش کی نظر سے گزرجائے۔
قاضی عبد الدائم دائمؔ نے عشق و محبت میں ڈوب کرانتہائی محنت اور بے پناہ تحقیق کے بعد یہ شہکار تخلیق کیا ہے۔ بعض نامور سیرت نگاروں سے علمی دنیا کے مسلمہ اصولوں کے مطابق برملااختلاف کیا ہے۔ جاندار حوالہ جات، مستند واقعات، سبق آموز حکایات اور والہانہ انداز ”سیّدالورٰی” کی انفرادیت پر شاہد ہیں۔ یارانِ مصطفیﷺکے امتیازات،اوصاف اور کمالات کو اس ادا سے بیان کیا ہے کہ پڑھتے وقت اہل دل کو سرور آ جاتا ہے۔
اگر آپ سیرت طیبہ کے تقدس مآب موضوع پر کوئی جذب آمیز کتاب پڑھنا چاہتے ہیں تو ”سیّدالورٰی” ضرور پڑھیے۔ ایسی کتاب کہیں صدیوں میں منظرِعام پر آتی ہے۔
مولانا محمد صحبت خان کوہاٹی، مدیر ماہنامہ کاروانِ قمر،کراچی
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
دو لب اک دوسرے کو باری باری چوم لیتے ہیں --- حلاوت کس قدر ہے یا خدا نامِ پیمبر میں
عزیز فیضانیؔ
ہمارے آقاﷺ کے نام کی حلاوت کا کیا کہنا! لیکن قاضی محمد عبد الدائم دائمؔ مدظلہ‘ نے ”سیّدالورٰی” کی تین جلدوں میں حضورﷺ کی سیرت کو محنت اور محبت کے امتزاج سے اس عمدہ اور دلکش پیرائے میں لکھاہے کہ اس کی حلاوت بھی اجاگر کر دی ہے اور تحقیق کا حق بھی ادا کر دیا ہے۔ اوّل تو جہاد بالقلم کی توفیق بہت کم لوگوں کو ملتی ہے، پھر ایسے لوگ اور بھی کم ہیں جواس کی کماحقہ‘ صلاحیت سے بھی مالامال ہوں۔ مجھے یہ لکھتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ قاضی صاحب میں یہ صلاحیت بھرپور ہے اور اس کے لیے محنت و تحقیق کرنے کے لیے پوری طرح مستعد ہیں۔ محنت اور محبت میں صرف ایک نقطے کے اوپر نیچے کرنے کا فرق ہے لیکن اصل فرق کا اندازہ اہلِ بصیرت بخوبی کر سکتے ہیں۔ ”سیّدالورٰی” کی تینوں جلدوں کے مطالعہ سے نہ صرف سیرت نبویﷺ کے ہر پہلو سے کماحقہ‘ آگاہی حاصل ہوتی ہے ؛بلکہ سُنّتِ نبویﷺ پر چلنے کی ترغیب بھی ملتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ قاضی صاحب کی اس خدمت کو قبول فرمائے اور انھیں مزید ایسی کاوشوں کی توفیق دے۔آمین۔ مجھے یقین ہے کہ قاضی صاحب کی یہ کاوش انشاء اللہ بارگاہِ رسالت میں بھی مقبول ہو گی۔
ڈاکٹر محمود فیضانی، ایبٹ آباد
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
سیّدالورٰی---
عشق و مستی کی کہانی، وجد و کیف کی زبانی۔انوکھی شان، والہانہ انداز، دلنشیں طرز---حرف حرف عقیدت، لفظ لفظ محبت--- شگفتگی و تازگی، سلاست اور سادگی۔ پڑھنا شروع کیجئے تو پھر پڑھتے ہی چلے جائیے!
سیّدالورٰی---
فکر و تدبر کا حسن---واقعات کی صحت۔ مستند حوالے، معتبر روایات، معنی خیزی اور اثر آفرینی۔۔۔علم و یقیں کی گیرائی، فکر و نظر کی گہرائی۔بادہ نوشانِ علم و عرفان کے لیے انمول تحفہ۔
سیّدالورٰی---
عشق و محبت، جذب و عقیدت، حزم و احتیاط، حقیقت نگاری و سنجیدہ گفتاری کا ایک منہ بولتا حسین مرقع۔ روایت و درایت اور جرح و تعدیل کا عالمانہ معیار۔نہ زبان میں کہیں جھول، نہ بیان میں کوئی ابہام۔
سیّدالورٰی---
سیرت نگاری کے میدان میں ایک اہم پیش رفت اور گرانقدر اضافہ---سیرت سرورِ کائناتﷺ کا مستند حوالہ جاتی سا ئیکلوپیڈیا اور لازوال و بے مثال شہکار۔
محمد سعد ﷲ کھتران، واہوا، ڈیرہ غازی خان
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
منظوم کلام
زمیں آراستہ کی سیرتِ سرور کی دائمؔ نے | خجل جس کے مقابل خوبیٔ چرخِ زبر جَد ہے | |
وقار و احتشام، اربابِ علم و فن کی محفل کا | بُزرگانِ طریقت کا وہ فخر و نازِ مَسند ہے | |
زباں کا اس کی ہر لفظ انتہائی آگہی آور | قلم کی اُس کے ہر تحریر پُر تاثیر بے حد ہے | |
رضائے مصطفی، خوشنودی حق کے لئے کوشاں | یہی ہے دائمی راحت، یہی عیشِ مُخلِّد ہے | |
نہیں آساں احاطہ اُس کے افضال و محاسن کا | وہ افخم ہے، وہ افضل ہے، وہ اسعد ہے، وہ ارشد ہے | |
لکھی ہے سیرتِ محبوب حق پر وہ کتاب اُس نے | جہانِ لفظ میں، دنیائے معنی میں جو مُفرد ہے | |
گلِ رعنائے باغِ سیرتِ پیغمبرِ رحمت | یہ دل آویز نقشِ حُسنِ کردارِ محمد ہے | |
چھَپی کب اس سے پہلے نادر و جامع کتاب ایسی | بجا ہے جس قدر بھی فرحتِ عشّاقِ احمد ہے | |
برائے عاشقانِ سرورِ عالم یہ مجموعہ | بہ ہر دور، انتہائی فیض بخش و کار آمد ہے | |
“ادب” سے اس کی تاریخ طباعت یوں کہی طارقؔ | عجب ایمان پرور “خُوبی و تفضِیلِ احمد” ہے |
زمیں آراستہ کی سیرتِ سرور کی دائمؔ نے | خجل جس کے مقابل خوبیٔ چرخِ زبر جَد ہے | |
وقار و احتشام، اربابِ علم و فن کی محفل کا | بُزرگانِ طریقت کا وہ فخر و نازِ مَسند ہے | |
زباں کا اس کی ہر لفظ انتہائی آگہی آور | قلم کی اُس کے ہر تحریر پُر تاثیر بے حد ہے | |
رضائے مصطفی، خوشنودی حق کے لیے کوشاں | یہی ہے دائمی راحت، یہی عیشِ مُخلِّد ہے | |
نہیں آساں احاطہ اُس کے افضال و محاسن کا | وہ افخم ہے، وہ افضل ہے، وہ اسعد ہے، وہ ارشد ہے | |
لکھی ہے سیرتِ محبوب حق پر وہ کتاب اُس نے | جہانِ لفظ میں، دنیائے معنی میں جو مُفرد ہے | |
گلِ رعنائے باغِ سیرتِ پیغمبرِ رحمت | یہ دل آویز نقشِ حُسنِ کردارِ محمد ہے | |
چھَپی کب اس سے پہلے نادر و جامع کتاب ایسی | بجا ہے جس قدر بھی فرحتِ عشّاقِ احمد ہے | |
برائے عاشقانِ سرورِ عالم یہ مجموعہ | بہ ہر دور، انتہائی فیض بخش و کار آمد ہے | |
“ادب” سے اس کی تاریخ طباعت یوں کہی طارقؔ | عجب ایمان پرور “خُوبی و تفضِیلِ احمد” ہے |
طارقؔ سلطان پوری (حسن ابدال)
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
حضرت العلّام مولانا قاضی عبد الدائم دائمؔ مدظلہ‘ العالی زیبِ سجادۂ آستانہ عالیہ نقشبندیہّ، مجددیہّ ہری پور ہزارہ اِس دور کے وہ صاحبِ عرفان و ایقان، پیرِ ارشاد و احسان، دریائے فیوضِ فراوان اور مصنفِ ذیشان ہیں جن کے افکار عالیہ، تحقیق انیق، تدقیق عجیب، تفحیص نادر، بحوثِ دلآرا اور نصوصِ حقائق افشاں پر مبنی و موسّس ہیں۔
آپ کی تصنیف “سیّدالورٰی” کا مطالعہ شبستان محبت و مودّت کے بِسرامیوں کے لیے باعثِ طمانینت، وجہِ فرحتِ جان، سبب ازدِیاد ایمان، ذریعۂ حصولِ رضائے رحمٰن اور ضمانِ خوشنودیٔ سیّدانس و جان ہے۔ اِس تصنیفِ منیف میں قاضی صاحب نے صدیوں سے اذہان میں سَم گھولتے ہوئے اشکالات کا ازالہ کر کے اصح ترین روایات و مراجع سے تاریخ سیرت سیّدالورٰی کی تزئین و آرائش کی ہے اور اسی ایک مہتم بالشان بات کے باعث سیّدالورٰی نے گذشتہ ڈیڑھ سو سال سے سیرتِ طیّبہ پر لکھی جانے والی کتب پر فوقیت حاصل کر لی ہے۔ کتاب سیّدالورٰی سے قاضی ؔ صاحب کی لوذعیّت و یلمعیت کا اظہار ہوتا ہے اور قاریٔ کتاب ایک ایک سطر کی خواندگی سے آپ کے علم و فضل کا دل و جان سے اقرار کر لیتا ہے اور دورانِ مطالعہ میں کہتا جاتا ہے
؎ ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند۔
بحمدا اللہ! سیّدالورٰی کی جلد اوّل ودُوُم کو دربارِ مصطفوی علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ سے ایسی سند قبولیت و طغرائے پزیرائی ملا کہ ہر عارف و عامی نے اس کے مافیہات کو سامانِ نورِ جان اور سرمایۂ ایمان سمجھ کر تعریف و تحسین کی۔ اب اسی کتاب کی جلد سِوُم آپ کے سامنے ہے جس میں حسبِ سابق قاضی صاحب نے توفیق ربّانی سے تحقیق لاثانی کا حق ادا کر دیا ہے۔ شمائل نبویہ اور معجزات پر یوں تو ہر سیرت نگار نے لکھا ہے مگر قاضی صاحب جیسا زندہ و تابندہ اسلوب بیان کس کو نصیب ہے! حقیقت یا فسانہ، نکاح سیّدہ زینبؓ اور تحقیق عمر سیّدہ عائشہؓ جلد سِوُم کے وہ روشن، تاباں اور درخشاں ابواب ہیں جن میںمصنف مبجَّل نے جدید تحقیق اور عمیق تبحّر و تمہّر سے صدیوں کے متنازع مسائل کو اصح ترین اسانید و مراجع سے استفادہ کرتے ہوئے حل کر دیا ہے اور ہر قاری کے دل میں عظمت و تقدیس شانِ رسالت کا نقش بٹھا دیا ہے۔ کتاب آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اسے شوق فراواں اور ذوقِ مودّت سے پڑھیے!
عطر آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید
عبدعاصی و آثم۔ بشیر حسین ناظِم تمغا حسنِ کارگردگی، سابق مشیر وزارتِ مذہبی اُمور، حکومت پاکستان۔ اسلام آباد