سابقہ والی سوات

سید اکبر شاہ، پیربابا کے خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ 1793ء کو ستھانہ میں پیدا ہوئے۔اُن کے والدِ بزرگوار کا نام سید گل شاہ تھا جو شاہ جی کے نام سے پہچانے جاتے تھے۔ اُن کے دادا سید زمان شاہ بونیر سے ستھانہ گئے اور وہیں مقیم ہو گئے۔ یوں بعد میں اُن کا خاندان ستھانہ، بونیر، ملکا اور سوات میں پھیل گیا۔ سید محمد اسد اللہ جو سید اکبر شاہ کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، لکھتے ہیں کہ سید اکبر شاہ، شاہ جی کے فرزندگان میں دوسرے نمبر پر آتے تھے۔ سوات کا حکمران بننے سے پہلے سید اکبر شاہ نے سکھوں کے خلاف جہاد میں حصہ لیا تھا، جسے تاریخ میں ”پیر سباک کا جہاد“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ جنگ 1824ء میں نوشہرہ کے مقام پر پیر سباک نامی جگہ میں لڑی گئی۔ آپ مجاہدین کی تحریک میں ایک سرکردہ رکن تھے۔ اخون آف سوات یعنی سیدو بابا اُس وقت اس خطے میں ایک معتبر شخصیت تھے اور ذاتی طور پر دنیاوی اقدار اور عہدوں کے قائل نہیں تھے۔ وہ زہد و ریاضت کو دنیاوی جاہ و جلال پر ترجیح دیتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ سوات کی حکمرانی کے لیے ایک ایسی شخصیت کا انتخاب کیا جائے جو ایک طرف بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کر سکے، تو دوسری طرف سوات میں امن و امان بھی قائم کرسکے۔ اسی غرض سے سیدو بابا نے 1849ء میں سوات اور بونیر کے سرکردہ مشیران کے مشورہ سے سید اکبر شاہ کو سوات کا بادشاہ منتخب کیا۔ یوں سوات، بونیر اور ملحقہ علاقوں میں پہلی شرعی حکومت قائم ہوئی۔ 1849ء میں بادشاہ مقرر ہوئے تھے۔ سوات کی اس پہلی شرعی حکومت کا دارالخلاف غالی گے تھا۔ ڈاکٹر سلطان روم صاحب کے مطابق سیدو بابا نے سید اکبر شاہ کو ذہین اور اسلامی اُصولوں پر کاربند رہنے والا قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق انھوں نے یہاں پر عشری نظام متعارف کروایا اور اپنی فوج بھی بنوائی جو 800 سواروں، تین ہزار پیادہ اور پانچ تا چھ بندوقوں پر مشتمل تھی۔ سید اکبر شاہ تحریکِ مجاہدین کے عروج کے دور میں وزیرِ اعظم اور معاونِ مالیات بھی رہے۔ یہی تجربہ بعد میں اُن کے کام آیا جب وہ سوات کے بادشاہ بنے۔ سوات اور ہزارہ پر سید اکبر شاہ کی حکومت 12 سال پر محیط رہی۔ 11 مئی 1857ء کو وفات پائے۔ یہ وہی تاریخ ہے جب جنگِ آزادی کی خبر پشاور پہنچی۔ اُن کے جسدِ خاکی کو سوات سے اپنے آبائی علاقے ستھانہ پہنچایا گیا اور وہی پر دفن ہوئے۔