سید قمر عباس ہمدانی الاعرجی

سید قمر عباس ہمدانی الاعرجی 24 فروری 1982 کو محلہ زمینداراں مصریال روڈ چوہڑ ہڑپال راولپنڈی کینٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کہ والد گرامی سید اظہر حسین شاہ بھی اسی محلہ میں پیدا ہواے تھے۔ آپ کہ دادا سید فضل حسین شاہ موضع پھلگراں کہ رہائشی تھے، یہ علاقہ آج کل اسلام آباد فیڈرل ایریا میں آتا ہے۔ سید فضل حسین شاہ ہمدانی الاعرجی نے چوہڑ ہیڑپال راولپنڈی میں آباد سادات کاظمیہ مشہدیہ کہ ایک بزرگ سید شاہ پیارا کاظمی مشہدی کی پوتی سے شادی کی اور یہاں ہی رہائش اختیار کرلی۔ (کتاب المشجر من اولاد حسین الا صغر صفحہ نمبر 212 از قمر ہمدانی اعرجی)۔ سید قمر عباس ہمدانی الاعرجی کہ جد امجد سید احمد شاہ بلاول نوری سلطان دندہ شاہ بلاول میں مدفون ہیں آپ کہ اجداد ایران سے بیجاپور اور بیجاپور سے براستہ سندھ تلہ کنگ آباد ہوئے (کتاب المشجر من اولاد حسین الا صغر صفحہ نمبر 102۔112 از قمر ہمدانی اعرجی)۔

قبیلہ سادات اعرجی:

قمر عباس ہمدانی کا تعلق سادات اعرجی سے ہے جس کے جد امجد ابو علی عبیداللہ الاعرج بن حسین الاصغر بن امام زین العابدین ع بن امام حسین شہید کربلا بن امام علی ابن ابی طالب علیہ اسلام ہیں۔ آپ کہ بیٹے جعفرہ الحجہ بن عبیداللہ اعرج مدینہ میں وفات پا گے ان کی دو فرزند تھے سید حسن اور سید ابا عبیداللہ حسین جو 235 ہجری کو سمر قند سے ہوتے ہوئے 241 ہجری کو بلخ میں داخل ہوئے(سراج الانساب از سیداحمد بن محمد بن عبد الرحمن کیا گیلانی صفحہ 142،نشر متکبہ آیت اللہ العظمی نجفی مرعشی)۔ سید حسن کی نسل حجاز، عراق، مصر اور لبنان میں کثرت سے پھیلی اور حسین بن جعفر الحجتہ کی نسل بلخ میں خوب پھیلی جن سے کچھ افراد ہمدان میں داخل ہوئے۔ اور ہمدان میں اس خاندان میں میر سید علی ہمدانی کی پیدائش ہوئ جنھوں نے کشمیر میں اسلام کی تبلیغ سر انجام دی اور میر سید علی ہمدانی کا مدفن کولاب تاجسکتان میں ہے۔ ان کی نسل سے ایک بزرگ سید احمد شاہ بلاول تلہ گنگ جو اس زمانہ میں پکھڑ نام سے مشہور تھا میں وارد ہوئے۔ اور آپ کا مزار اس علاقہ میں ہے جو آج آپ کے نام کی وجہ سے دندہ شاہ بلالول شہید ہے۔

تعلیم و تربیت:۔

سید قمر عباس اعرجی نے میٹرک سائنس میں فیڈرل بورڈ سے کیا۔ آپ نے ایف جی بوائز سیکنڈری اسکول پشاور روڈ راولپنڈی سے میٹرک کیا۔ اور ایف ایس سی کے لیے گورنمنٹ ڈگری کالج سیٹلائیٹ تاون میں داخلہ لیا۔ اسکہ بعد گولڈن کالج راولپنڈی سے بی اے کا امتحان پاس کیا اور بعد میں علم النساب سیکھنے کا شوق پیدا ہوا تو عرب کہ نسابین سے رابطہ کیا کیونکہ علم النساب کے لٹریچر کو یونیورسٹی میں نہیں پڑھایا جاتا اس لیے انٹر نیٹ پر ماہرین کی تلاش شروع کر دی اور سعودی عرب، لبنان ، مصر، عراق، ایران کے ماہرین سے رابطہ کیا۔ جن میں عرب میں حسین بن حیدر ہاشم، ایران سے مہدی رجائ، شام کے سید علا الموسوی، لبنان کہ سید محمد موسوی اور کویت کہ سید عبد الرحمان عزی شامل ہیں۔ سید عبد الرحمان عزی نے ان کو علم الانساب میں اجازہ دیا۔ اور یہ اجازہ معین الاشراف سید جعفر اعرجی حسینی بغدادی عراق تک جاتا ہے۔ جن کا نام علم الانساب میں کسی شہرت کا محتاج نہیں۔

والدین:۔

سید قمر عباس اعرجی ہمدانی کے والد سید اظہر حسین شاہ ہمدانی نے صرف بنیادی اور مذ ہبی تعلیم حاصل کی آپ موٹر مکینک تھے آپ کی وفات چوہڑ ہڑپال میں ہوئ۔ اور اپنے جد مادری دربار سید سخی شاہ پیارا مزار کی حدود میں دفن ہوئے۔ آپ کی والدہ سیدہ ریاست کاظمی موسوی ہیں جو سادات کاظمی المشہدی کی مشہور شاخ زینیال سے تعلق رکھتی ہیں۔ زینیال وہ کاظمی سادات ہیں جو سید شاہ زین العابدین موسوی کاظمی کی اولاد میں سے ہے اس نسل میں کثیر اولیا بزرگ گذرے ہے سید شاہ زین العابدین کی زیادہ اولاد سید کسراں سے دوسرے علاقوں میں ہجرت کر گے (مدرک الطالب فی نسب آل ابی طالب ع از سید قمر عباس اعرجی صفحہ337۔338)۔

علم النساب:۔

پاکستان میں علم النساب اخباریات کی زد میں ہے اس پر کام کرنا بہت مشکل تھا کیونکہ یہاں ہر قبایل کی تواریخ اور انساب پر باقاعدہ اصولی بنیادوں پر کام نہیں ہو سکاجس کی ایک بہت بڑی وجہ اس خطے میں علم النساب کا باقاعدہ استاد کا نا ہونا اور استادکے نا ہونے کی وجہ سے اس کا پھیلاو بھی نہ ہو سکا۔ اس لیے پاک و ہند میں جو کتب علم النساب پر لکھی گئیں ان کا دارو مدار اخبار پر تھا۔سید قمر عباس اعرجی نے باقاعدہ اصول نسبیہ اور قواعد و ضوابط کا استعمال کرکے سادات خانوادوں کی تاریخ اور نسب کو رقم کیا۔ جو آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہترین نسب کا خزانہ ہے قمر اعرجی نے انساب سادات پر ایک بنیادی اور منطقی علمی سہولت کو رقم کر دیا ہے جو رہتی دنیا تک طلاب کی تشنگی کو دور کرتی رہے گئی۔ تالیف: سید قمر عباس اعرجی ہمدانی نے علم النساب پر ابھی تک تین کتب طبع کروائ ہیں۔

اول: انساب سادات الحسینی جس میں سادات ہمدانی حسینی اعرجی کہ نسب کو جمع کیا گیا ہے

دوم: کتاب المشجر من اولاد حسین الاصغر اس کتاب میں اولاد حسین الاصغر بن امام زین العابدین ع بن امام حسین ع بن امام علی ع کے نسب کو جمع کیا گیا جو دنیا کے بہت سے ممالک میں آباد ہیں۔اس کتاب کو عرب و عجم میں شہرت حاصل ہوئ۔ اس کہ مصادر بھی زیادہ تر عربی اور عجمی ہی تھے۔

سوم: کتاب مدرک الطالب فی نسب آل ابی طالب ع الموسوم بہ معارف الانساب اس کتاب کو عالمی سطح پر شہرت حاصل ہوئ۔ اس میں تمام سادات کے بارے میں بنیادی معلومات فراہم کی گئیں ہیں۔اور آئندہ آنے والے سالوں میں اس کا انگریزی ترجمہ بھی منظر عام پر آ جائے گا۔ چہارم:کتاب روضۃالطالب فی اخبارآل ابی طالب جس میں اولادابیطالب کا تفصیلی تذکرہ ہے پنجم دانشنامۂ قمری اور ششم علم الانساب کی سب سے تحقیقی کتاب القمری فی انساب الطالبیین ہے۔

علم النساب کے علاوہ سید قمر عباس اعرجی تصوف اسلامی، شاعرجی، فلسفہ، معاشیات، عرفانیات اور تاریخ پر بہت کچھ تحریر کر چکے ہیں جو ابھی تک طبع نہیں ہوا۔ پنجابی شاعری میں بھی موصوف نے کتب تحریر کی ہیں جو امید ہے جو آئندہ آنے والے کچھ عرصہ میں زیور طباعت سے آراستہ ہو جائیں گی۔

[1]

  1. "مدرک الطالب فی نسب آل ابی طالب ع"۔ مدرک الطاب فی نسب آل ابی طالبؑ 

[1]

  1. "انساب کہ عالم سید قمر عباس کا سفرعلمی"۔ Express.com.pk