شانگلہ پاکستان کے خیبر پختونخوا میں واقع ایک ضلع ہے۔ انتظامی طور پر ضلع شانگلہ پانچ تحصیلوں الپوری [[پورن چکسیر بشام اور مارتونگ پر مشتمل ہے۔ شلخو، رام جانے سربانڈہ کابل سر امیر خان اور پیر سر یہاں کے اہم مقامات ہیں۔ ضلع شانگلہ کے ضلعی دفاتر الپوری میں واقع ہیں۔ سرکاری طور پر ضلع متعین ہونے سے پہلے شانگلہ ضلع سوات کی ایک تحصیل تھا اور یکم جولائی 1995ء کو اسے ضلع بنا دیا گیا۔ اس ضلع کا کل رقبہ 1586 مربع کلومیٹر ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے نقشہ جس میں زرد رنگ شانگلا کو ظاہر کرتاہے

انسانی ترقی کے پیمانے میں شانگلہ کا شمار ملک کے پسماندہ ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں یہ سب سے پسماندہ جبکہ پاکستان میں یہ دوسرا سب سے پسماندہ علاقہ ہے۔ شانگلہ میں اکسیرت پٹھانوں کا ہے پٹہان کے علاوہ گجر ، لوہار،ڈوم وغیرہ بھی رہتے ہیں ، شانگلہ میں پھٹانوں کے بہت سے شاخیں رہتے ہیں مثلا خان خیل، شمشی خیل ، یوسفزی، جدون یا گدون ازی خیل. مدیی خیل یوسفزئی[1]. زرگر.ڈس خیل.کندرزی. بارہ خیل .خدو خیل وغیرہ گجر برادری میں ارایا خیل۔اور حیاء خیل شامل ہے


*سید جلال بابا رحمت اللہ علیہ عرف  کنڈاو بابا جدون کی تاریخی پس منظر؛*

جب پشاور میں دلزاکوں نے گلگیانو سے لڑائی شروع کی اس وقت گلگیانو قبیلے نے شکست کھائی اس کی شکست کھانے پر ملک احمد اپنے قوم اور قبیلوں کو اتحاد کے لیے اس بات پر متفق کیاکہ ہم ایک فیصلہ کن جنگ دلہ زاکو سے لڑیں گے یہ فیصلہ انہوں نے اس لیے کیا کہ یوسفزی دلہ زاکو سے تنگ ائے تھے پھر ملک احمد نے سب یوسف زئی, مندڑ, گلگیانی, مہمند زئی, اتمان خیل, اور گدون کو اکٹھا  کر کے ایک  بڑا لشکر بنا کر کاٹلنگ اور شہباز گھڑی کی درمیان لڑائی کے لیے اتارا اور اور دلہ ذاک بھی کئی عرصے سے جنگ کی تیاریوں میں مشغول تھے جب انہیں پتہ چلا پھر لڑائی شروع ہو گئی یہ جنگ اخون درویزہ کے دور میں ہوئی اور اخون درویزہ نے کہا کہ سب سے پہلے علی اسماعیل کے بیٹے شیرین کو میدان میں جنگ کے لیے نکالے اس کے مقابلے میں دلہ زاک کا بیٹا زنگی نکلا ۔شیرین نے دلزاک کا بیٹا زنگی کو قتل کیا۔اور اس کے بعد سب قبیلوں کے درمیان لڑائی شروع ہوئی ایک زبردست جنگ ہوا اس کے بعد دلازاک اور اس کے ساتھی قبیلوں نے ڈر کی وجہ سے میدان چھوڑا۔یوسف زئی اور جدونوں نے دلہ زاکو کا راستہ بن کیا ۔یہ جنگ 1525 میں لڑا گیا تھا اس بڑے جنگ کے بعد یوسف زئی  جدونوں اور اتحادی قبیلوں نے سوات پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا۔


شمال میں شانگلہ کی سرحد ضلع کوہستان، مشرق میں ضلع بٹگرام اور کالا ڈھاکہ جبکہ مغرب میں ضلع سوات سے ملتی ہے۔ ضلع شانگلہ کے جنوب میںضلع بونیر واقع ہے۔

شانگلہ ٹاپ اس ضلع کو دوسرے اضلاع سے ملانے کا واحد ذريعہ ہے۔ يہ ضلع سواتى قبيلے کا آبائى وطن ہے۔ دریائے سندھ اس کے قريب بہتا ہے۔ ضلع شانگلہ اونچے پہاڑوں، تنگ درّوں، صنوبر، چيڑ اور ديودار کے گھنّے جنگلات کى سر زمين ہے۔ جنگلات ہى لوگوں کى معاشى زندگى اور آمدن کا واحد ذريعہ ہے۔ صرف تنگ درّوں ميں کچھ کھيتى باڑى ہوتى ہے۔ لوگوں کى طرزِ زندگى قبائلى روايات اور مکمّل ديہاتى ماحول پر مشتمل ہے۔

تاریخ

ترمیم

پیرسر، چکیسر اور داوت کے مقامات پر قدیم یونانی اثرات کی حال ہی میں دریافت ہوئی ہے۔ یہاں یہ خیال عام ہے کہ سکندر اعظم نے پیر سر کے مقام پر کئی روز تک اپنے لشکر سمیت پڑاؤ ڈالا تھا۔ ہندو شاہی اور قلندر اجمیری کے یہاں قیام اور اثرات ملے ہیں۔

جغرافیہ

ترمیم

ضلع شانگلہ کئی وادیوں پر مشتمل علاقہ ہے جو رقبہ کے لحاظ سے عظیم تصور نہیں کی جاسکتیں۔ یہاں بلند وبالا پہاڑ ہیں جو گنجان جنگل ہیں جن میں پنڈرو، فر، کیل، چیڑ اور دیودار کے جنگلات شامل ہیں۔ سطح سمندر سے یہ علاقہ تقریباً 2000 سے 3000 میٹر بلند ہے۔ یہاں کا بلند ترین مقام کوز گنرشال ہے جو 3440 میٹر بلند ہے اور ضلع کے انتہائی شمال میں واقع ہے۔ جنگلی سبزیوں کی پیداوار کے لحاظ سے یہ علاقہ موزوں ترین تصور کیا جاتا ہے اور یہاں پانی کے بہاؤ سے بجلی پیدا کرنے کے کئی مواقع دستیاب ہیں۔ خان خوڑ میں حال ہی میں ایک ایسا منصوبہ تیار کیا گیا ہے جس کی مدد سے مقامی سطح پر بجلی پیدا کی جائے گی - حافظ الپوری یہاں کے مشھورروحانی شخصیت ہے ۔ قاری عقیل زادہ حقانی البونیری جوبونیرمیں رہتے ہے اس کادادابھی شانگلہ کے علاقہ ایلونائ سے آیاتھا انہونے قران مجید کومعجزانہ طوریاد کیاتھا

شماریات

ترمیم
  • ضلع کا کُل رقبہ 1586 مربع کلوميٹر ہے۔
  • یہاں في مربع کلومیٹر 341 افراد آباد ہيں
  • سال 2023ميں ضلع کي آبادي 890000 تھي۔
  • دیہى آبادى کا بڑا ذریعہ معاش زراعت ہے۔
  • کُل قابِل کاشت رقبہ 41750 ہيکٹيرز ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. روشن خان خان (1986)۔ تواریخ حافظ رحمت خانی۔ کراچی: پشتو اکیڈمی پشاور یو نیورسٹی۔ صفحہ: 635