شاہ ابو سعید مجددی رام پوری سلسلہ نقشبندیہ کے اکابرین میں شمار ہوتے ہیں

نام ونسب ترمیم

شاہ ابوسعید۔لقب:عارف باللہ۔سلسلہ نسب اس طرح ہے:آپ کا سلسلہ نسب مجدد الف ثانی سے اس طرح ملتا ہے: مولانا شاہ ابو سعید مجددی رام پوری بن شاہ صفی القدر بن شاہ عزیز القدر بن شاہ عیسیٰ بن خواجہ سیف الدین بن خواجہ محمد معصوم سرہندی بن امام ربانی مجدد الفِ ثانی [1]

ولادت ترمیم

آپ کی ولادت باسعادت 2/ذیقعد 1196ھ،مطابق اکتوبر 1782ء کورام پور(انڈیا) میں ہوئی۔

تحصیل علم ترمیم

تقریباً دس سال کی عمر میں آپ نے قرآن شریف حفظ کر لیا بعد ازاں قاری نسیم سے علم تجوید حاصل کیا۔ آپ قرآن مجید ایسی ترتیل سے پڑھا کرتے تھے کہ سننے والے محو ہوجایا کرتے۔ حتیٰ کہ جب آپ حرم مکہ معظّمہ میں وارد ہوئے تو اہلِ عرب نے آپ کی قرأت سُن کر تعریف و تحسین کی۔ حفظ قرآن کے بعد علوم عقلیہ و نقلیہ مفتی شرف الدین اور مولانا رفیع الدین بن شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے حاصل کیے۔حدیث کی سند اپنے مرشد سے اور شاہ سراج احمد بن محمد مرشد مجددی اور شاہ عبد العزیز دہلوی سے حاصل کی۔

بیعت و خلافت ترمیم

اپنے والد گرامی سے آبائی طریقے پر مرید ہوئے،اور والد صاحب کے ایماء پر شاہ درگاہی سے بیعت ہوئے۔ شاہ صاحب درگاہی نے آپ کے حال پر بڑی عنایت فرمائی اور چند ہی روز میں آپ کو اجازت و خلافت عطا فرمائی۔ابھی تشنگی باقی تھی آپ نے قاضی ثناء اللہ پانی پتی کوخط لکھا،انھوں نے جواب میں ارشاد فرمایا: کہ اس وقت میری نظر میں شاہ غلام علی دہلوی سے بہترکوئی نہیں۔پھر آپ شاہ غلام علی دہلوی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ابتدا سے انتہا تک تمام سلوک مجددیہ بتفصیل وکمال ان سے حاصل کیا۔شاہ صاحب نے خاص عنایت فرماکر خلافت سے مشرف فرمایا،اور اپنی خانقاہ میں اپنا قائم مقام بنایا۔

سیرت وخصائص ترمیم

امام العلماء والعارفین،سندالمتقین،آفتاب شریعت،ماہتاب طریقت،مجمع البحرین شاہ ابوسعید مجددی رام پوری سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کے اہم شیخ طریقت اور عارف باللہ مجددوقت شاہ غلام علی دہلوی کے خلیفۂ اعظم تھے۔آپ تمام علوم ومعارف کے جامع تھے اور امام ربانی مجدد الف ثانی کے خاندان کے فرد فرید تھے۔ابتدائے عمر ہی سے آثارِسعید آپ میں پائے جاتے تھے۔ فرماتے تھے کہ مجھے اوائل عمر میں شہر لکھنؤ جانے کا اتفاق ہوا۔ ہم ایک مکان میں اُترے راستے میں ایک درویش ستر برہنہ بیٹھا ہوتا مگر جب وہ مجھے دیکھتا تو ستر درست کرلیتا۔ کسی نے اُس سے سبب دریافت کیا۔ اُس نے جواب دیا کہ ایک وقت آنے والا ہے کہ ان کو ایسا منصب حاصل ہوگا کہ اپنے اقارب کے مرجع ہوں گے چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا۔

وفات ترمیم

عید الفطر بروز ہفتہ 1250ھ مطابق 31/جنوری 1835ء کو وفات پائی۔جسد اقدس تابوت میں رکھ کر دہلی لائی گئی۔چالیس روز بعد شاہ غلام علی کے پہلو میں دفن کیے گئے۔اتنی مدت گذرنے کے بعد بھی معلوم ہوتا تھا کہ ابھی غسل دیا گیا ہے۔[2][3]

حوالہ جات ترمیم

  1. تذکرہ کاملان رام پور:14
  2. تذکرہ علمائے اہل سنت:13
  3. (تذکرہ مشائخِ نقشبندیہ نور بخش توکلی:صفحہ438مشتاق بک کارنر لاہور