شاہ محمد مراد نوشاہی
سیالکوٹ کے آخری ضلعی حصے پر ایک قدیم گاؤں چوپالہ کے نام سے مشہور ہے۔ جو دریائے چناب کے کنارے پر واقع ہے۔ کئی باردریا کی زد میں آیا پھر آباد ہوا۔ دریا کے کنارے پر اسی گاؤں کے متصل ایک قدیم گاؤں نوشہرہ میانیاں کے نام سے بھی مشہورتھا۔ جو ضلع گجرات کے آخری گوشے پر واقع تھا۔ یہ گاؤں بھی کئی بار دریا برد ہوا اور پھر آباد ہوتارہا۔ اب پھر یہ نئی صورت میں نوشہرہ خوجیاں کے ساتھ نوشہرہ میانیاں کے نام سے آباد ہے۔ قدیم زمانے میں مذکورہ دونوں دیہات کے لوگ کشتی کے ذریعے ادھر ادھر کا سفر کرتے تھے۔
تقریبا 1600 ہجری بمطابق 1655 عیسوی میں اس قدیم چوپالہ میں ایک بزرگ ہستی پیدا ہوئی۔ جس کا نام مراد رکھا گیا۔ کنزالرحمت میں میاں محمد مراد جیو لکھا ہوا ہے۔ والد بزگوار کا نام مست تھا۔ بخت جمال آپ کے تایا تھے۔ جن کے نام پر جھنگی بخت جمال گاؤں مشہور ہے۔ آپ تین بھائی تھے۔ سب سے چھوٹے کا نام عبد الرحمٰن تھا۔ جو شرقپور شریف کے مشہور بزرگ حضرت میاں ہرنی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے والد بزگوار تھے۔
تدائی تعلیم گاؤں کے علما سے اور اپنے خاندانی بزرگوں سے حاصل کی۔ پھر کچھ عرصہ سیالکوٹ میں ملا عبدلحکیم سیالکوٹی کے مدرسے میں زیرتعلیم رہے اور سند فراغ حاصل کرنے کے بعد روحانی تربیت کے لیے متذکرہ بالا گاؤں نوشہرہ میانیاں میں آنے جانے لگے۔ جہاں نوشاہی سلسلہ فقر کے ممتاز ترین اولیاء اللہ میں سے حضرت پیر محمد سچیار کنبل پوش نوراللہ مرقدہ کی بارگاہ ولائت تھی۔ میاں محمد مراد اپنے معمول کے مطابق روزانہ اپنے گاؤں سے دریاپار کرکے یہاں آتے اور آپ فیض حاصل کرتے۔ کنبل پوش سے نسبت بیعت استوار کی اور پھر شب وروز مرشد ہی کے قدموں میں ڈیرہ جمالیا۔ ریاضت مکمل ہوئی تو شیخ نے دستار خلافت پہنائی اور تبلیغ اسلام کے لیے ہجرت کا حکم دیا۔ چنانچہ آپ شیخ کامل کے حکم سے دریائے راوی کے علاقے کی طرف چل پڑے۔ نوشہرہ سے رانابھٹی پہنچے (جو لاھور جڑانوالہ روڈ پر واقعہ ہے۔) یہاں چند برس قیام فرمایا۔ آپ کے دوسید خلفا کے مزارات بڑکے پرانے درختوں کے نیچے موجود ہیں۔ جہاں ہر سال عرس کی تقریبات ہوتی ہیں۔ پھر یہیں سے آگے چند میل دور ایک گاؤں روہڑا میں آگئے اور تین سال کے قیام کے بعد موضع وزیرہ ورکاں کی دھرتی میں قدم رنجہ فرمایا۔ ان دونوں دیہات میں بھی آپ کے خلفا کے مزارات موجود ہیں۔ جہاں فقیرانہ تقریبات کا اہتمام ہوتا ہے۔ آپ جہاں جہاں سے بھی گذرے اور جہاں جہاں پہنچے، دینی علوم اور اسرار معرفت سے لوگوں کی زندگیوں کو منور کرتے رہے۔
آخر آپ کا یہ سفر ہجرت شرقپور شریف کے مقام پر احتتام پزیر ہوا۔ جو اس وقت دریائے راوی کے کنارے پر دوسری بار نیا نیا آباد ہورہا تھا۔ آپ نے یہاں اپنی رہائش کے لیے جگہ منتخب کی۔ خانقاہ کی بنیاد ڈالی اور تبلیغ و عبادت کے لیے مسجد تعمیر کی جو اپنی تاریخی عظمت کے ساتھ آپ کے مزار مبارک کے ساتھ ہی موجود ہے۔ حضرت شاہ محمد مراد صوفی شاعر بھی تھے۔ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں عشق الہی کی چنگاری روشن کرنے کے لیے عمدہ جذبوں کا اظہار کیا۔ وحدت نامہ آپ کا مختصر سا مجموعہ کلام ہے۔ جس کی شرح برصغیر میں سلسلہ اویسیہ کے ممتاز عالم دین اور عارف ربانی، حضرت خواجہ نورالحسن صاحب تارک اویسی چنیڈوی نے کی ہے۔ جو تاحال غیر مطبوعہ ہے۔ اب کے پڑپوتے خواجہ نورالزمان اویسی، اسے شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ چند قلمی کتابیں آپ کی اور حضرت میاں ہرنی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ذوق کے مطالعہ اور علم دوستی کے ثبوت میں بطور یادگار موجود ہیں۔ [1]