شر خبون نعمت اللہ لکھتا ہے کہ سربنی کے دو لڑکے تھے۔ بڑے لڑکے کا نام شرجنوں شرف الدین تھا۔[1] شیر محمد گنڈاپور نے یہ نام شرخبون اور معارف اسلامیہ میں یہ نام شرحبون آیا ہے۔ جب کہ شرف الدین اس کا معرب ہے۔ اس کلمہ کا ابتدائی لفظ شر ہے۔ پشتو کی مشرقی بولی میں ’خ‘ کی جگہ ’ش‘ استعمال ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ کلمہ یہ خر کا معرب ہو۔ تاہم یہ غالباً درست نہیں ہے۔ غالب امکان یہ ہے کہ یہ سر کا معرب ہے۔ کیوں کہ ’س‘ ’ش‘ سے بدل گیا ہے اور سر قدیم زمانے میں سورج کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ پشتو میں اکثر منفرد کلمات کے آخری حروف پر زور پڑتا ہے، جس سے ایک اور حروف کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہی کلمہ شرخ، سرج اور شرخ کی شکل میں ملتا ہے جب کہ بون نسبتی کلمہ ہے، اس کے معنی پشتو میں والے کے ہیں۔ اس طرح اس کلہ کے معنی سوج کے پجاری کہ ہیں۔ کیوں کے قدیم زمانے میں اس علاقے میں سورج کی پوجا کی جاتی تھی اور لوگ خود کو سورج سے بھی منسوب کرتے تھے۔ مگر مسلمان ہونے کے بعد وہ اس حقیقت کو بھول گئے۔ تاہم کلمات ان کی روایات میں زندہ رہے اور اس کی حقیقت کو بھلا کر وہ انھیں اپنا مورث سمجھ بیٹھے اور یہ ان کلمات کو اپنے شجرہ نسب میں مورثوں کی حثیت سے پیش کیا۔ جس کے معنی پشتو میں والے کے ہیں۔

حوالہ جات ترمیم

  1. نعمت اللہ ہراتی، مخزن افغانی، 416