شرف النساء بیگم کا شمار بارہویں صدی ہجری کی نہایت عظیم المرتبت خاتون میں ہوتا ہے۔ ان کا تعلق لاہور کے حکمران خاندان سے تھاـ ان کا ذکر علامہ اقبال کی مشہور کتاب جاوید نامہ میں بھی ملتا ہے۔

تعارف

ترمیم

شرف النساء بیگم کا شمار بارھویں صدی ہجری کی نہایت عظیم مرتبت خواتین میں ہوتا ہےـ یہ ایک مشہور بیگم تھی لیکن اس کے باوجود ان کے حالات زندگی تاریخ کی کتب میں نہیں ملتے کہ وہ کس کی بیٹی اور کس بہن تھی۔ اس بارے میں مورخین الجھاؤ کا شکار ہیں لیکن اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ وہ حاکم لاہور نواب عبد الصمد خان بہادر جنگ کے خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ شرف النساء کے بارے میں تین اقوال ملتے ہیں۔

  1. وہ نواب عبد الصمد خان کی بیٹی اور نواب زکریا خان کی بہن تھی۔
  2. وہ نواب زکریا خان کی بیٹی اور نواب عبد الصمد خان کی پوتی تھی۔
  3. وہ نواب عبد الصمد خان کی دوسری بیگم اور نواب عبد اللہ خان کی والدہ تھی۔ نواب زکریا خان کی شرف النساء سوتیلی ماں تھی کیونکہ وہ بیگم جان کا بیٹا تھا۔

عام طور پر مورخین نے پہلی روایت کو ترجیح دی ہے۔

طرز زندگی

ترمیم

شرف النساء بیگم تارک الدنیا تھی۔ انھوں نے اپنے باغ میں ایک چبوترا بنوایا تھا جو سطح زمین سے اس قدر اونچا تھا کہ اس پر سیڑھی لگا پہنچا جا سکتا تھا۔ وہ روزانہ سیڑھی کے ذریعے چبوترا پر چڑھ جاتی اور نماز فجر کے بعد تلاوت قرآن میں مشغول رہتی۔ اس کے پاس ہمیشہ ایک مرضع تلوار بھی ہوتی تھی۔ تلاوت قرآن کے بعد وہ خود نیچے اتر آتی جبکہ قرآن اور تلوار کو وہیں چھوڑ دیتی تھی۔ ساری زندگی شرف النساء بیگم کا یہی معمول رہا۔

مقبرہ

ترمیم

شرف النساء بیگم نے اپنی وفات کے وقت اپنی والدہ کو وصیت کی کہ اس کے مرنے کے بعد بھی قرآن اور تلوار کو اس سے جدا نہ کیا جائیں۔ چنانچہ اسی چبوترے میں شرف النساء کی تدفین کی گئی جہاں پر بیٹھ کر وہ قرآن پاک کی تلاوت کیا کرتیں تھی۔ اس کی تدفین کے بعد قبر پر ایک گنبد تعمیر کیا گیا جس کی تین اطراف بند کر کے ان پر سبز رنگ کے سرو کے درخت منقش کیے گئے۔ انہی کی نسبت سے یہ مقرہ سرو والا مقبرہ مشہور ہو گیا۔ عہد سکھ میں ظالم حکومت نے شرف النساء کا مقبرہ اس غرض سے کھود ڈالا کہ شاید اس میں خزانہ دفن ہے لیکن ان کو اس میں قرآن پاک اور تلوار کے سوا کچھ نہ ملا۔ اس مقبرے کی مرمت انگریز دور میں کی گئی اور اس کے بعد محکمہ آثار قدیمہ کی تحویل میں دے دیا گیا۔

قصر شرف النساء

ترمیم

علامہ محمد اقبال نے جب شرف النساء بیگم کی زندگی کے حالات سنے تو وہ ان سے بہت زیادہ متاثر ہوئے۔ انھوں نے 'قصر شرف النساء کے عنوان سے ایک معرکہ آرا نظم کہی جو جاوید نامہ میں شامل ہے۔ اس کے گیارہ اشعار درج ذیل ہیں۔

قصر شرف النساء

قلزم ما اینچنین گوهر نزاد هیچ مادر اینچنین دختر نزاد
خاک لاهور از مزارش آسمان کس نداند راز او را در جهان
آن سراپا ذوق و شوق و درد و داغ حاکم پنجاب را چشم و چراغ
تاز قرآن پاک می سوزد وجود از تلاوت یک نفس فارغ نبود
در کمر تیغ دو رو ، قرآن بدست تن بدن هوش و حواس الله مست
خلوت و شمشیر و قرآن و نماز ایخوش آن عمری که رفت اندر نیاز
بر لب او چون دم آخر رسید سوی مادر دید و مشتاقانه دید
گفت اگر از راز من داری خبر سوی این شمشیر و این قرآن نگر
این دو قوت حافظ یکدیگرند کائنات زندگی را محورند
وقت رخصت با تو دارم این سخن تیغ و قرآن را جدا از من مکن
مؤمنان را تیغ با قرآن بس است تربت ما را همین سامان بس است

ترجمہ:-

  1. کبھی کسی ماں نے ایسی بیٹی کو جنم نہیں دیا، ہمارے سمندر میں کبھی ایسا موتی پیدا نہیں ہوا۔
  2. سرزمین لاہور کو اس کے مزار نے آسمان بنا دیا، اس جہان میں کوئی اس کے راز کو نہیں جانتا۔
  3. وہ سراپا ذوق و شوق درد و داغ، پنجاب کے حکمران خاندان کی چشم و چراغ تھی۔
  4. اس کی زندگی کی تپش و حرارت قرآن پاک کی مرہون منت تھی اس لیے ایک لمحہ کے لیے بھی تلاوت قرآن سے فارغ نہ ہوتی تھی۔
  5. اس کی کمر میں دو دھاری تلوار اور ہاتھ میں قرآن پاک ہوتا تھا اور اس کا تن بدن اور ہوش و حواس اللہ کی یاد سے سرشار رہتے تھے۔
  6. اس کی زندگی تنہائی، تلوار، قرآن اور نماز سے عبارت تھی کیسی مبارک زندگی تھی جو اللہ کی بندگی میں گذری۔
  7. جب اس کا دم آخر قریب آیا تو اس نے ماں کی طرف مشتاقانہ انداز میں دیکھا۔
  8. اور کہا کہ آپ کو میرے راز کا علم ہے تو اس قرآن اور تلوار کی طرف دیکھیے۔
  9. یہ دونوں قوتیں ایک دوسرے کی محافظ ہیں اور یہی مسلمانوں کی زندگی کا محور ہیں۔
  10. اب اس دنیا سے رخصت ہو رہی ہوں تو آپ سے کہتی ہوں کہ تلوار اور قرآن مجھ سے جدا نہ کریں۔
  11. مومنوں کے لیے تلوار اور قرآن کافی ہے اور ہماری قبر کے لیے یہ سامان کافی ہے۔ [1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. تاریخ اسلام کی چار سو باکمال خواتین مولف طالب الہاشمی صفحہ 482 تا 484