شروانی
سربانی جنھیں شروانی یا شیروانی بھی کہا جاتا ہے ایک پشتون قبیلہ ہے جو متوزئی زئی شاخ سے ہے۔ یاد رہے کہ بلوچستان کے ضلع شیرانی میں آباد شیرانی ایک الگ پشتون قبیلہ ہے جس کا تعلق سڑابن شاخ سے ہے.. بہرحال ہمارا موضوع شیروانی یا شروانی ہیں.. کہتے ہیں کہ شروانی دراصل لودی اور غلجی کا بھائی تھا جو ایک کنیز کے بطن سے پیدا ہوا. لودی و غلجی کے برخلاف شروانی قوم میں مزید کوئی الگ جداگانہ شناختیں وجود میں نہیں آئیں. جتنی بھی خیلیاں وجود میں آئیں سب نے شروانی شناخت کو جاری رکھا. حیات افغانی کے مطابق شہاب الدین غوری کے زمانے میں غزنی سے نکل کر براستہ درہ گومل درابن اور چودھواں کے علاقے پر تصرف کیا. بالخصوص سریپال شاخ نے جس سے شیخ ملیح قتال نامور ہوئے جن کی زیارت آج بھی درابن میں مرجع خلائق ہے۔ تحفہ اکبر شاہی کے بیان اور حیات افغانی کے بیانات کو اگر ملا کر پڑھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بہلول لودی کے زمانے میں جب بہلول لودی نے پشتونوں کو ہندوستان آنے کی دعوت دی تو شروانی قبیلہ کی اکثریت ہندوستان چلی گئی کیونکہ لودھی سلطنت میں سروانی قبیلہ کے لوگ بہت اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے جن میں عمر خان سروانی قابل ذکر ہے جو گورنر پنجاب تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ قبیلہ سور (شیر شاہ سوری کا قبیلہ) جو سروانی قبیلہ کا پڑوسی تھا۔ ان کے ساتھ ایک عورت کے مسئلہ پر تنازع پیدا ہو گیا۔ جس پر ایسی شدید جنگ ہوئی کہ دونوں قبائل کی افرادی قوت بکل معدوم ہونے کے قریب جا پہنچی. جس کے نتیجے میں بلوچ اور نو وارد شدہ لوہانی پشتونوں نے ان کی کمزور حالت سے فائدہ اٹھا کر سروانیوں کے علاقوں پر تصرف کرنا شروع کر دیا۔ جس کی شکایت عباس سروانی کے مطابق سروانی قبیلہ کے لوگوں نے خوشاب میں شیر شاہ سوری کی طرف سے منعقدہ دربار میں کی جس پر شیر شاہ سوری نے اسمعیل خان ہوت بلوچ کو تاکید کی کہ سروانی قبیلہ کی جگہ کو چھوڑ دے وہ اس کے عوض بلوچوں کو جہلم میں جگہ دے گا جس کو انھوں نے قبول کیا. جبکہ بعد ازاں باقی ماندہ سروانیوں کو لوہانیوں کی شاخ میاں خیل اور ایک اور پشتون قبیلہ استریانی نے ملکر چودھواں سے بھی بیدخل کر دیا۔ سروانی علاقہ روہ میں اپنی حالت مخدوش دیکھ کر مالیر کوٹلہ چلے آئے جہاں کا حاکم سروانی قبیلہ سے تھا اور کچھ ہندوستان میں اپنے پہلے سے آباد رشتہ داروں کے پاس چلے گئے.. افغانستان میں یہ قبیلہ تقریباً نابود ہے کہیں بھی انکا ذکر نہیں سنا گیا۔ جبکہ ٹانک و دامان میں بھی اب انکا کوئی نام و نشان میسر نہیں البتہ اٹک کے علاقے چھچھ اور صوابی میں کچھ گھرانے سننے میں آئے ہیں.. بہرحال شروانی قبیلہ سارا ہی ہندوستان منتقل ہو گیا جہاں پر لودھیوں کے زمانے میں انھوں نے بھرپور عروج حاصل کیا. اعظم ہمایوں شروانی، ہیبت خان شروانی، مسند اعلیٰ عیسٰی خان شروانی نامور رہے. شیر شاہ سوری کے زمانے میں عیسٰی خان شروانی جو ضعیف العمر تھے پھر بھی شیر شاہ سوری نے انھیں سنبھل کا گورنر تعینات کیا. مغل دور حکومت میں بھی کافی شروانی افراد اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے جن میں پیر محمد خان شروانی سب سے زیادہ مقتدر و نامور رہا. جو اکبر کے زمانے میں گذرا ہے یہ بیرم خان شاگرد تھا.. شروانی قبیلہ پر باقاعدہ کتاب حاجی عباس خان شروانی نے لکھی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ہندوستان بھر میں پھیلے شروانیوں کی ایک اچھی خاصی تعداد پاکستان ہجرت کر آئی جبکہ اس کے باوجود ہندوستان میں اب بھی شروانی قبیلہ کی ایک معقول تعداد آباد ہے۔ جو زیادہ اترپردیش و بہار میں بودوباش رکھتے ہیں.. نیازیوں سے شروانیوں کے تین تعلق ہیں اول یہ کہ شروانی نیازیوں کے جد امجد لودی کا سوتیلا بھائی ہے۔ دوسرا تعلق یہ ہے باہی بابا کی والدہ سروانی قبیلہ سے تھیں جبکہ تیسرا تعلق یہ ہے کہ تقسیم کے وقت کچھ شروانی خانوادے میانوالی آ کر آباد ہوئے ہیں. [1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ فرمائیں کتاب شروانی نامہ تحریر و تحقیق؛ نیازی پٹھان قبیلہ فیس بک پیج Www.niazitribe.org