شفا لکھنوی (اے آر بیلی) کا شمار اردو کے مسیحی شعرا میں ہوتا ہے۔ اس کے والد نے مسیحیت قبول کی تھی۔ شفا لکھنوی کو شاعری کی ابتدائی تعلیم والد ماجد سے ملی تھی کیونکہ وہ بھی ایک شاعر تھے۔ شفا لکھنوی اساتذہ کی صحبت میں رہے کر خود ایک استاد کا رتبہ حاصل کر لیا تھا۔ متعدد مسیحی اور غیر مسیحی شعرا نے اس سے فیض حاصل کیا۔

تعارف

ترمیم

شفا لکھنوی کا اصل نام اے آر بیلی تھا۔ اس کے والد ماجد کا نام ایشور داس تھا۔ ایشور داس نے مسیحت قبول کرنے کے بعد اپنا نام عیسی داس رکھ لیا تھا۔ شفا لکھنوی کی پیدائش 2 جنوری 1862ء میں لکھنؤ میں ہوئی۔ اے آر بیلی اپنا تخلص شفا استعمال کرتے تھے۔ لکھنؤ کی نسبت سے اپنے اصل نام سے زیادہ شاعری نام شفا لکھنوی سے مشہور ہوئے۔

تعلیم

ترمیم

شفا لکھنوی نے اپنا بچپن لکھنؤ میں گزارا۔ اپنے والد محترم سے اردو اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ ذاتی شوق کی وجہ سے اردو اور فارسی میں بہت قابلیت پیدا کی۔ اس نے علم الہیات کی تعلیم حاصل کی اور پادری بن گئے تھے۔

شاعری

ترمیم

شفا لکھنوی کے والد عیسی داس ایک شاعر تھے۔ والد کی تربیت سے اس نے بھی خوب نام روشن کیا۔ اس کو بچپن ہی سے شاعری کا شوق تھا۔ شاعری کے ابتدائی دنوں میں حضرت فلک کی صحبت حاصل کی۔ بعد میں اس نے عطا بدایونی، وسیم خیرآبادی اور دل شاہجہان پوری سے فیض حاصل کیا۔ آخر میں افضل علی، افضل خان اور اسیر لکھنوی سے شرف تلمذ حاصل ہوا۔ اس کے بعد استادی کا رتبہ پایا۔ شفا لکھنوی سے متعدد مسیحی اور غیر مسیحی شعرا نے فیض حاصل کیا۔

نمونۂ کلام

ترمیم

بڑا دن

یہ انعامِ طرب پانے کے دن ہیں شۂ ابرار کے آنے کے دن ہیں
گنہگارو نوید جانفزا ہیں شفیع حشر کے آنے کے دن ہیں
ندامت کے لیے آتی ہے بخشش خطا کارو یہ شرمانے کے دن ہیں
مسیحا کی ہے ہر سو آمد آمد جہاں سے کفر مٹ جانے کے دن ہیں
مئے عرفان ساقی بانٹتا ہے پیو کہ دور پیمانے کے دن ہیں
شفا آزار عصیاں سے نہ گھبرا مریضوں کے شفا پانے کے دن ہیں

القاب

ترمیم

شفا لکھنوی کو اپنی خدمات کے اعتراف میں دو القاب ملے جو درج ذیل ہیں۔

  1. ریاست شیر کوٹ کی سرکار نے افسر الشعرا کا لقب عطا کیا۔
  2. بزم بہار سخن شیر کوٹ کی جانب سے شیریں سخن کا لقب دیا گیا۔

تصانیف

ترمیم
  1. مثنوی قہر عشق
  2. خون ناحق
  3. قوم کی فریاد
  4. قصہ ہری واسی
  5. فغان ہند المعروف سیلاب عظیم
  6. آئین شعر و شاعری

وفات

ترمیم

شفا لکھنوی کی وفات حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے ہوئی تھی۔ 21 دسمبر 1952ء کو دہلی ریلوے اسٹیشن پر یہ سانحہ پیش آیا۔ دہلی کے مسیحی قبرستان میں تدفین کی گئی۔ [1][2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. https://www.rekhta.org/ebooks/urdu-ke-maseehi-shoara-ebooks?lang=ur
  2. اردو کے مسیحی شعرا مولف ڈی اے ہیریسن قربان صفحہ 198 ، 199