شہر فرید اور ثقافت
تحریر : اعجاز بٹ https://www.asalmedia.com/city-culture-human-popular-resources-world/ دور حاضر میں جہاں جدت کی دوڑ میں انسان ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کے لیے مختلف قسم کے نمونے متعارف کرواتا ہے وہاں پر انسانی ملبوسات کے نت نئے نمونے متعارف کروانا بھی ایک پہلو بن چکا ہے اور بین الاقوامی سطح پر نمائشوں اور میلوں کا انعقاد کروا کر( ڈریس ڈیزائنر) اپنی صلاحیتوں کو متعارف کروانے کے لیے نت نئے نمونے پیش کرتے ہیں اور اس تمام ترکار سازی میں مشینری کا سہارا لیا جاتا ہے اور کمپیوٹر سمیت تما م تر وسائل برؤے کار لائے جاتے ہیں انہی نمونوں کو دنیا بھر میں مقبولیت دلانے کے لیے اپنی جسمانی اور زہنی تو انائیوں کا بھر پور استعمال کیا جاتا ہے اور جب وہ نمونہ مشہور ہو جاتا ہے تو ا س کی مانگ اور قیمت بڑھ جاتی ہے اگر اس تمام تر سرگرمی کے بارے میں غور و فکر کیا جائے تو یہ محض پیسے بنانے کا چکر ہے اس کے سوا کچھ نہیں کیونکہ اس تمام تر میں داد کا مستحق وہ کاریگر ہے جس کے ہاتھوں سے وہ مشینری تیار ہوئی جس سے ان ملبوسات کو عملی اور واضح شکل دی گئی جبکہ یہ تمام تر اس کے بر عکس ہے۔
یہ تو تھیں وہ باتیں جو روز مرہ کی زندگی میں ہر شخص بخوبی جانتا ہے ان سائنسی تخلیقات کا چہرہ جس قدر آپ کی نظر میں روشن ہے اسی طرح اس وقت ماند پڑ گیا جب اپنے محسن راجا زرار سجاد کے ہمراہ ان کے پُر وقار شخصیت کے مالک دوست خان کرم خان لکھویرا کے ڈیرہ جو شہر فرید میں واقع ہے جانے کا اتفاق ہوا خان کرم خان لکھویرا انتہائی نفیس اور غریب پرور انسان ہیں اور ان کے علاقے کے لوگ ان سے بے پناہ محبت کرتے ہیںا ور ساتھ ہی یہ گھوڑوں کے ماہر ہونے کی وجہ سے ملکی ثقافت کے علمبردار بھی ہیں اور شیر یزداں کلب کے نام سے نیزہ بازی کی ثقافت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں اس وقت ملک پاکستان کے ایک ماہر تصویر ساز جو ملک پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کرنے کے لیے ثقافت کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرتے ہوئے دنیا بھر کی نظروں کی زینت بناتے ہیں۔
محمد سعید راؤ جن کی فوٹو گرافی کی خاطر مجھے ان کے ہمراہ شہر فرید کی ملحقہ بستی جسے بست بھاکھریاں کے نام سے جانا جاتا ہے جانے کا اتفاق ہوا وہا ںپہنچے تو ایسے افراد جو آج بھی اپنے ہاتھوں سے دور جدید کے تقاضوں کو پورا کرنے والے کپڑے کو بننے میں مصروف عمل نظر آئے شہر فرید چشتیاں کے قریب واقع ہے اور صوبہ پنجاب کا قدیم ترین قصبہ اور سہولیات کی عدم دستیابی کی ایک واضح تصویر بھی ہے اور اسی کی ملحقہ بستی بھاکھریاں جس میں 250سے زائد خاندان آباد ہیں اور دھاگے کی بناوٹ سے لے کر نت نئے اور دلکش نمونے کے کپڑے کو ہاتھوں سے بناتے ہیں اور اس کپڑے کو بنانے کے لیے ان کے پاس لکڑی کے چند ٹکڑوں پر مشتمل مشینری جسے کھڈی کہا جاتا ہے موجود ہے اسی گاؤں میں ایک ایسا شخص بھی موجود ہے جو ان کھڈیوں کو بناتا ہے۔ قارئین کرام اس پوری بستی میں صرف ایک گھر ایسا موجود ہے جس میں کپڑے کی بنائی کا کام نہ کیا جاتا ہے باقی تمام تر بستی اس کا م کے سہارے اپنی ضروریات زندگی کو پورا کر رہی ہے اور مرد وخواتین اس کام کو جو مذکورہ بستی میں عرصہ چار سو سال سے کیا جارہا ہے کو انجام دیتے ہوئے مطمئن ہیں اور آج بھی گرم چادریں اور خواتین و حضرات کے لیے ملبوسات تیار کر رہے ہیں خواتین اور مرد سفید دھاگے کو مختلف رنگ کرکے اس کی خوبصورتی کو بڑھاتے ہیں ایک جگہ پر ہمیں اصل ریشم جو کیڑے سے حاصل کی جاتی ہے کی چادر بھی دکھائی گئی ۔ قارئین کرام ایک ایسا دلکش منظر بھی ہمارے سامنے آیا جس پر سعید راؤ اور میں نے کافی دیر تک گفتگو کی کہ ایک گھر میں خواتین دو کھڈیاں لگائے ہوئے کپڑے کی بنائی میں مصروف تھیں وہاں پر ایک طرف کھانا پکانے کے لیے چولھا نصب تھا جبکہ دونوں کھڈیوں کے عین وسط میں ٹی وی بھی پڑا ہوا تھا بستی کے لوگوں نے ہماری مہمان نوازی بھی کی اور اپنے علاقہ کے مسائل سے آگاہ بھی کیا ایک جگہ پر ایسے نوجوانوں سے بھی ملاقات ہوئی جو اپنے کاروبار پر فخر کرتے دکھائی دیے۔
بستی بھاکھریاں کے اندر موجود 250خاندانوں کا کاروبار جو ملکی ثقافت کی اصل تصویر ہے نے روح کو سکون بخشا ساتھ ہی ان ثقافتی ٹھکیداروں کے بارے میں ذہن میںکئی سوال بھی دوڑے جو شہری علاقوں میں بناوٹی اور تصویری ثقافت کے بل بوتے پر اپنی دوکانوں کو چمکائے ہوئے ایسے چہروں کو پس پشت ڈال کر مشینوں کا سہارا لے کر اصل حقدار کو ان کے حق سے محروم رکھے ہوئے ہیں حالانکہ ملک پاکستان کے خزانہ سے کروڑوں روپے سالانہ ثقافت کے نام پر فنڈ جاری کیا جاتا ہے حالانکہ ملک میں موجود وہ ٹیلنٹ جو بستی بھاکھریاں میں کثیر تعداد میں موجود ہے بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہے اور ماسوائے بجلی کے کوئی بھی سہولت مہیا نہ کی گئی ہے سڑکوں اور گلیوں کی حالت زار حکمرانوں کی ناقص کارکردگی کا واضح ثبوت پیش کرتی نظر آتی ہیں قصبہ میں ہسپتال تو دور کوئی ڈسپنسری بھی موجود نہ ہے نہ ہی تعلیمی مواقع فراہم کیے گئے ہیں اور اس کے باوجود بھی اس بستی لوگ ملک ثقافت پر مبنی روزگار پر اکتفا کیے ہوئے ہیں۔
میری اس تحریر کا مقصد ان ہاتھوں کی کارکردگی ہر شہری تک پہنچانا ہے جو حقیقت میں ثقافت کی رگوں میں اپنا خون پسینہ شامل کیے ہوئے ہیں اور ساتھ ہی حکومت اور ثقافتی ٹھیکیداروں کو دعوت دینا ہے کہ آگے بڑھیں اور شہر فرید جیسے تاریخی اور ثقافت کی تصویر قصبہ کو سہولیات کی فراہمی میں اپنا کردار ادا کریں اور ہاتھوں کو مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کریں جن سے ملکی ثقافت کو پروان چڑھانے کے لیے نایاب شاہکاروں کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے شہر فرید کو بنیادی سہولیات کا فراہم کیا جانا از حد ضروری ہے کیونکہ ِ شہر فرید اور ثقافت کا گہرا تعلق بھی ہے۔