شہید رابع رحمۃ اللہ علیہ

نام

شہید رابع رحمۃ اللہ علیہ کا اصل نام ميرزا محمد تھا، آپ کا تخلص کامل تھا۔

لقب آپ کو شہید رابع (چوتھے شہید) کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔

والد شہید رابع رحمۃ اللہ علیہ کے والد ميرزا عنایت احمد كشميري تھے۔

وطن و ولادت شہید رابع رحمۃ اللہ علیہ نے کشمیر کے ایک علم اور اهلبیت دوست گھرانے میں آنکھیں کھولیں جس ثمرہ ہمارے سامنے آپ کا درجاے اجتهاد پر فائز ہونا ہے شہادت کے وقت آپ کی عمر 50 سال بتائی جاتی ہے جس سے آپ کی ولادت کے سن کا اندازہ 1175 ھ کی صورت میں ہوتا ہے۔

تعلیم آپ کے علم طب کے استاد جناب حکیم شریف خان دہلوی تھے اور آپ نے علم فقه کی ابتدائی تعلیم جناب مولوی سید رحم علی صاحب کتاب بدرالدجیٰ سے حاصل کی۔

اجتهاد صاحب نجوم السماؑ ایک رسالہ جو شہید کے بارے میں لکھا گیا ہے، سے نقل کرتے ہیں کہ اس رسالہ کے مولف لکھتے ہیں کہ میں نے شہید سے دریافت کردہ کچھ شرعی مسایل کے جوابات کے آخر میں ان محترم کے دستخط دیکھے ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ درجہ اجتهاد پر فائز تھے۔۔

علمي سرمایہ آپ نے مختلف موضوعات پر 68 کتاب لکھی اور آپ کی پہلی کتاب علم طب میں تھی اور آپ کی مشہور كتابوں میں سے نزہہ اثنا عشريہ (کہ جو محدث دہلوی کی کتاب تحفہ اثنا عشريہ کا جواب ہے) کو خاص اہمیت حاصل ہے اور آپ کی دیگر کتاب تنبيح اہل کمال، ایضاح المقال، منتخب فیض القدیر وغیرہ ہیں۔

وجہ شہادت شہید نے محدث دہلوی کی کتاب تحفہ اثنا عشريہ کا جواب دیا تھا کہ جو مذہب اهلبیت کو حق ثابت کرنے میں ایک بڑی کوشش تھی لہذا بعض اهل باطل آپ کے دشمن ہو گئے اور آپکو شہید کرنے کے منصوبے بنانے لگے۔

شہادت دہلی کے پاس جھججر نامی جگہ کے نواب عبد الرحمن نے اپنی بیماری کا بہانہ بنا کرآپ کو جھججر بلوايا پہلے تو شہید نے منع کیا لیکن بادشاہ کے اصرار کی بنا پر بادل ناخواستہ جھججر کے لے روانہ ہوئے اور آپ دہلی سے سفر کے آغاز میں اپنے عزيزوں سے فرماتے تھے کہ شاید اس سفر میں میرا خدا کے یہاں کا بلاوا آ جاے بالآخر وہی ہوا بھی کہ اس غدار نے اپنے محبوب لوگوں کی پیروی کرتے ہوئے امام علی کے نقش قدم پر چلنے والی اس دانا شخصیت کو زہر سے شہید کر دیا آپ کی قبر کے اوپر لکھے اشعار سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ 1225 ه. مطابق 1810 میں پیش آیا۔

قبر مبارک شہید کا مزار مقدس درگاہ پنجہ شریف دہلی میں واقع ہے اور اسی جگہ پر ایک مدرسہ موجود ہے جس کا نام بھی آپ کے نام پر جامعہ شہید رابع ہے اور خود حقير بھی اسی مدرسہ کا ایک ناچیز طالب علم ہے۔

آپ ہی کے جوار میں مولانا مقبول احمد صاحب قبلہ کی قبر بھی موجود ہے جن ترجمہ کردہ قرآن مقبول قرآن کے نام سے جانا جاتا ہے۔

|ماخذ=برگرفتہ از نجوم السماؑ)

شہید رابع

}}