سلسلہ شطاریہ کے شیخ و جانشین

جنیدی ترمیم

حضرت شیخ بہاء الدین شطاری قادری جنیدی بن شیخ ابراہیم بن شیخ عطاء اللہ انصاری رضی اللّٰه عنہما۔ آپ کا تعلق قصبہ ’’جنید‘‘ سے تھا۔ جو مضافاتِ سرہند میں واقع ہے۔ اسی کی نسبت سے آپ ’’جنیدی‘‘ کہلاتے ہیں۔

ولادت ترمیم

کُتبِ سیّر آپ کی تاریخِ ولادت کے بارے میں خاموش ہیں۔ تقریباً آپ کی ولادت باسعادت نویں صدی ہجری کے وسط میں ہوئی ہوگی۔آپ کی جائے ولادت قصبہ جنید مضافاتِ سرہند (ہند) ہے۔

تعلیم ترمیم

آپ نے اپنے علاقے میں ہی محنت و شوق سے مکمل علوم ِ دینیہ کی تحصیل و تکمیل فرمائی۔ آپ کو علوم ِ عربیہ، فقہ اور اصولِ فقہ میں مہارتِ تامہ حاصل تھی۔ آپ کا علمی مقام بہت بلند تھا۔ آپ کی ذات مرجعِ علما و فقراء تھی۔ آپ صاحبِ تصانیف بزرگ تھے۔’’رسالۂِ شطاریہ‘‘ آپ کی مشہور تصنیف ہے۔ جس کا ذکر حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللّٰه علیہ نے اپنی کتاب ’’اخبارالاخیار‘‘ میں فرمایا ہے۔

بیعت و خلافت ترمیم

آپ سلسلہ عالیہ قادریہ میں نبیرۂ غوث الاعظم، حضرت سید شیخ احمد جیلانی رضی اللّٰه عنہ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے۔ آپ کے شیخِ طریقت نے خاص حرم شریف میں آپ کو بیعت کیا اور جملہ اوراد و وظائف کی اجازات دے کر خلافت سے بھی نوازا۔ سلسلہ قادریہ سے جو آپ کو نسبت حاصل تھی، آپ اس پر فخر کرتے تھے۔

سیرت و خصائص ترمیم

قدوۃ السالکین، نور العارفین، منہاج العابدین فی الہند، رہبرِ علوم سنت، مظہرِ مذہبِ اہل سنت، حامی السنۃ والدین حضرت شیخ بہاء الدین رضی اللّٰه عنہ۔ آپ صاحبِ کمالات و کرامات تھے۔ سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کے پچیسویں امام اور شیخِ طریقت ہیں۔ اسی طرح آپ ہندوستان میں سلسلۂِ عالیہ قادریہ رضویہ کے پہلے بزرگ ہیں- اسی لیے آپ کو ’’امام سلسلۂِ قادریہ فی الہند‘‘ کے مبارک خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ سلطان غیاث الدین بن محمد خلجی کے عہد میں بمقام مندو میں تشریف لائے، آپ کی ذات ِ اقدس سے سلسلۂِ عالیہ قادریہ کو ہندوستان میں عروج ملا۔ مخلوقِ خدا جوق درجوق آپ کے حلقۂِ درس میں شامل ہوئی اور آپ کے فیضِ صحبت سے بے شمار خلق سلسلۂِ ارادت میں شامل برصغیر پاک و ہند کے کونے کونے میں پہنچ گئے۔یہی وجہ ہے کہ آج اس خطے میں سلسلۂِ عالیہ قادریہ سے لاکھوں لوگ وابستہ ہیں۔ ہر شہر میں سلسلۂِ قادریہ کی خانقاہیں موجود ہیں۔آپ صاحب ولایت ، جامع شریعت و طریقت تھے۔عبادت و ریاضت میں یگانہ اور راہ سلوک میں مرشد زمانہ تھے، ساتھ ساتھ صاحب تصنیف بھی تھے۔ آپ کی مبارک تصنیف رسالہ فی الاوراد والاشغال المعروف بہ ’’ رسالۂِ شطاریہ‘‘ صوفیا اور ارباب طریقت کے درمیان مشہور و مقبول رہا ہے۔یہ رسالہ آپ نے اپنے مرید خاص اور احب الخلفاء حضرت سید شاہ ابراہیم ایرجی رحمۃ اللّٰه علیہ کے لیے تحریر فرمایا تھا۔ یہ رسالہ علوم و معرفت کا خزینہ ہے۔

طریقت ترمیم

حضرت شیخ بہاء الدین رضی اللّٰه عنہ اپنے رسالۂ شطاریہ میں تحریر فرماتے ہیں: کہ خداوند قدوس تک رسائی کے طریقے مخلوق کے انفاس کے برابر ہیں یعنی بہت ہیں۔ ان سارے طریقوں میں تین طریقے زیادہ مشہور و معروف ہیں۔

پہلا طریقہ : اخیار کاہے اور وہ نماز، روزہ، تلاوتِ قرآن مجید، حج اور جہاد ہے۔ اس طریقے پر چلنے والے طویل سفر طے کرنے کے باوجود بہت کم ہی منزلِ مقصود تک پہنچتے ہیں۔

دوسرا طریقہ: اس میں اخلاقِ ذمیمہ کی تبدیلی، تزکیۂ نفس، تصفیہ دل اور جلائے روح کے لیے مجاہدات و ریاضت کیے جاتے ہیں۔اس راستے سے منزل مقصود تک پہنچنے والوں کی تعداد پہلے طریقہ کی بنسبت زیادہ ہے۔

تیسرا طریقہ: شطاریہ ہے۔ اس طریقہ پر چلنے والے ابتدا ہی میں ان منازل سے آگے نکل جاتے ہیں جن پر دوسرے طریقوں کی بنسبت زیادہ عمدہ اور تقرب الی اللہ کے اعتبار سے زیادہ قریب ہے۔[1]

وفات ترمیم

آپ کا وصال 11؍ ذوالحج 921ھ، مطابق وسط ماہِ جنوری 1516ء کو ہوا۔ آپ کا مزار پرانور دولت آباد دکن (ہند) میں مرجعِ خلائق ہے۔ آپ کو عمدہ خوشبو سونگھتے ہی ایسا ذوق و حال طاری ہوتا کہ جاں بلب ہوجاتے تھے، چنانچہ ظاہری سبب آپ کے وصال کا یہی ہوا۔ جس زمانے میں آپ بہت کمزور و ضعیف ہو گئے تھے۔ ایک شخص آپ کی خدمت میں نہایت ہی عمدہ اوراعلیٰ قسم کی خوشبو لایا، تو اسی خوشبو کے اثر سے آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی،

حوالہ جات ترمیم

  1. (تذکرہ مشائخِ قادریہ رضویہ: 282)