شیخ صالح العدوی
شیخ صالح العدوی شیخ اکبر ابن عربی کے مشائخ میں سے ہیں۔ ابن عربی شیخ اکبر اپنے شیخ صالح العدوی کا حال کچھ یوں بیان کرتے ہیں: آپ عارف باللہ تھے، ہر حالت میں اللہ کے ساتھ ہوتے، دن رات کتابِ مجید کی تلاوت میں لگے رہتے، نہ آپ نے کوئی گھر بنایا اور نہ ہی کبھی اپنا علاج کیا۔ آپ اُن ستر ہزار کے مقام کی طلب میں عمل کرتے تھے جو بغیر حساب وکتاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ آپ نہ تو کسی سے (فضول ) بات کرتے اور نہ ہی کسی کے پاس بیٹھتے۔
کئی بار ایسا بھی ہوتا کہ آپ چاشت کے وقت نفل نماز کی نیت کرتے اور ابھی پہلی رکعت میں ہی ہوتے کہ آپ کو بتایا جاتا کہ زوال کا وقت ہو گیا ہے۔ آپ سخت سردی کے دنوں میں بھی جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو (گرم ) کپڑے اُتار دیتے اور صرف ایک قمیض اور شلوار میں ہوتے لیکن آپ پسینے میں اس قدر بھیگ جاتے جیسے کہ آپ کسی تندور میں ہیں۔ آپ کی نماز میں ایسی لَے اور سرسراہٹ ہوتی جو سمجھ نہ آتی۔ کل کے لیے کوئی چیز بچا کر نہ رکھتے اور غیر مطلوبہ چیز قبول نہ کرتے؛ نہ اپنے لیے اور نہ کسی دوسرے کے لیے۔ اپنی راتیں زیادہ تر مسجد ابو عامر الرطندالی المقری میں گزارتے۔ میں برسوں آپ کے ساتھ رہا اور (اس دوران) آپ نے میرے ساتھ اتنی کم بات چیت کی کہ میں وہ دہرا سکتا ہوں۔
آپ کا ہم سے ایک خاص تعلق اور ہم پر خصوصی کرم اور توجہ تھی جس سے ہمیں بہت فائدہ ہوا۔ آپ نے مجھے کچھ ایسی باتیں بتائیں جو مجھے مستقبل میں پیش آنا تھیں، میں نے وہ سب ویسی ہی پائیں،اِن میں سے ایک لفظ بھی آگے پیچھے نہ ہوا۔ آپ کی بیماری کے دوران ابو علی الشّکاز نے آپ کی خدمت کی، آپ چالیس (40) سال تک اشبیلیہ میں اِسی حالت پر رہے اور وہیں وفات پائی، لہٰذا ہم نے آپ کو رات ہی میں غسل دیا اور اپنے کندھوں پر اٹھا کر آپ کی قبر (مبارک) تک لائے اور وہاں رکھ کر دور کھڑے ہو گئے یہاں تک کہ آپ کی نماز جنازہ پڑھائی گئی اور لوگوں نے آپ کو دفن کیا۔ میں نے آپ کے بعد آپ جیسا کوئی نہ دیکھا، آپ کی حالت حضرت اویس قرنی جیسی تھی۔[1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ روح القدس از ابن العربی، شائع شدہ ابن العربی فاؤنڈیشن ۔