مخدوم العالم ، قطب بنگال ، گنج نبات حضرت شیخ علاء الحق پنڈوی قرون وسطی کے بہت بڑے بزرگ گذرے ہیں جنھوں نے اپنے تبلیغی کاموں سے بنگال کے گوشوں تک اسلام پھیلایا ۔


نام ونسب

ترمیم

آپ کا نام عمر بن اسعد ہے ۔ علاء الدین ، علاء الحق ، شیخ العالم ، سلطان المرشدین ، گنج نبات ، مرید و خلیفۂ اخی سراج آیینہ ہند آپ کے مشہور القاب ہیں اور آپ کا نسب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے[1] ۔

صاحب مرآۃ الاسرار نے آپ کو ان القابات سے یاد کیا ہے:

آں مقتداے ارباب ولایت ، آں گنجینۂ علم و ہدایت ، آں ناطق بلسان حالی پیشواے وقت مخدوم شیخ علاء الحق قدس سرہ

ترجمہ:مخدوم علاء الحق قدس سرہ ولیوں کے مقتدا ، علم و حکمت کا خزانہ ہیں ، زبان حال سے بولنے ( اشاروں ہی سے انجام کا فرمانے والے ) ہیں اور وقت کے پیشوا وامام ہیں[2]

صاحب بحر زخار نے اس طرح توصیف کی ہے:

آں پیشواے ارباب ہدایت ، آں مقتداے اصحاب ولایت ، آں تخت نشین اقلیم فضل وکمال ، آں تاجدار وادی وصال ، آں از معظم اولیاے عالی ،قطب الافراد حضرت شیخ علاء الحق والدین بنگالی

حضرت شیخ علاء الحق والدین بنگالی ارباب ہدایت کے پیشوا وامام ہیں ، اصحاب ولایت کے مقتدا و قائد ہیں ، سلطنت فضل وکمال کے بادشاہ ہیں ، وادی وصال کے تاجدار ہیں ، اولیاے عالی مرتبت میں عظمت والے اور ”قطب الافراد“ منصب والے ہیں[3]۔

اعلی حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی میاں علیہ الرحمہ حضرت خضر علیہ السلام کا قول نقل فرماتے ہیں:

گروہ اخیار ان کو صاحب قدم کہتے ہیں اور گروہ ابرار ان کو واجب قدم کہتے ہیں اور اوتاد ان کو یحییٰ صادق کہتے ہیں اور ابدال ان عیسی نفس کہتے ہیں اور اصحاب وجدان و ارباب عرفان ان کو شیخ علاء الحق والدین گنج نبات کہتے ہیں اور بعض آدمی شیخ علاء الدین تل کہتے ہیں اور عالم ملکوت میں انھیں موسی آثار کہتے ہیں اور عالم جبروت میں انھیں خلیل انوار کہتے ہیں اور شاہ ان کو یوسف ثانی کہتے ہیں کہ میں خضر ہوں ان کو خلق محمد کہتا ہوں[4]

ولادت

ترمیم

آپ کی پیدائش 701ھ مطابق 1302ء میں لاہور میں ہوئی ۔ آپ کی والدہ کا نام بی بی ماہ نور خاتون تھا جو ایران کے ایک ہاشمی گھرانے سے تھیں اور آپ کے نانا عابد و زاہد ، منکسر المزاج اور صاحب جود و سخا تھے[5]۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. مفتی غلام سرور، لاہوری (2001ء)۔ خزینۃ الاصفیاء۔ گنج بخش روڈ لاہور: مکتبہ نبویہ۔ ج 2۔ ص 246
  2. شیخ عبد الرحمن، چشتی (1999)۔ مرآۃ الاسرار۔ مکتبہ جام نور۔ ص 1013
  3. شیخ وجیہ الدین، اشرف لکھنوی (2011)۔ بحر زخار۔ علی گڑھ: مرکز تحقیقات فارسی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی۔ ص 501
  4. شیخ المشائخ علی حسین، اشرفی۔ صحائف اشرفی۔ مینارہ مسجد ممبئی: دار العلوم محمدیہ۔ ص 71 ،72
  5. مفتی عبد الخبیر، اشرفی مصباحی (2017)۔ حیات مخدوم العالم۔ حیدرآباد: اشرفیہ اسلامک فاونڈیشن۔ ص 27