شیعہ متکلمین اور فقہا نے ہمیشہ تصوف کی رد میں رسالے لکھے اور فتاویٰ دیے ہیں۔

علامہ باقر مجلسی کی رائے ترمیم

علامہ مجلسی (متوفیٰ 1699ء) نے اپنے ”رسالہٴ لیلیہ“ میں تصوف کی رد میں ایک باب قائم کیا ہے جس میں لکھتے ہیں:

”کچھ اہل زمانہ نے بدعتوں کو اپنا دین بنا رکھا ہے جن سے وہ بخیال خویش خدا کی عبادت کرتے ہیں اور انھوں نے اس کا نام تصوف رکھا ہے۔ “[1]

”صوفیوں کی بد اخلاقی کا یہ حال ہے کہ کوئی ان سے بات نہیں کر سکتا۔ ان میں تکبر اور احساسِ برتری اتنا ہے کہ خود کو انبیاؑ سے بھی بلند سمجھتے ہیں۔ یہ سب کو کمتر سمجھتے اور لوگوں سے دوری اختیار کرتے ہیں۔ یہی زوال ان کی باقی اقدار پر بھی آیا ہے لیکن اس کا احساس اُسے ہوتا ہے جو اِن کے ساتھ کچھ وقت گزار لے۔ “[2]

معاصر شیعہ فقہا کی تصانیف ترمیم

معاصر شیعہ مراجع نے متعدد کتابیں تصوف کے رد میں لکھی ہیں جن میں سے چند کے نام یہ ہیں:

  1. جلوہ حق : آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ ناصر مکارم شیرازی کی کتاب ہے۔ یہ کتاب فارسی زبان میں لکھی گئی ہے۔ مصنف نے تصوف کی مختصر تاریخ، اس میں مختلف اقوام کے فرسودہ خیالات کی آمیزش اور جدید علوم کی روشنی میں صوفیا کے نظریہ علم پر تنقید کو بیان کیا ہے۔[3]
  2. نگرشی بر فلسفہ و عرفان : آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ لطف الله صافی گلپائگانی کی کتاب ہے۔ یہ کتاب فارسی زبان میں لکھی گئی ہے۔ اس میں وحدت الوجود کا تصور زیر بحث لایا گیا ہے اور اس کے مختلف دلائل کو رد کیا گیا ہے۔[4]
  3. اقامۃ البرہان علی بطلان التصوف والعرفان: آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد حسین نجفی ڈھکو کی کتاب ہے۔ یہ اردو زبان میں عوام کے لیے لکھی گئی نسبتاً مختصر کتاب ہے۔[5]
  4. العرفان الاسلامی : آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد تقی مدرسی کی کتاب ہے۔ یہ کتاب عربی زبان میں لکھی گئی ایک جامع اور مفصل کتاب ہے۔ اس میں اسلامی عقائد کے ایک علم کی شکل میں مدون ہونے کا تاریخچہ بیان کرنے کے بعد مسلمانوں میں فلسفہ اور تصوف کے داخل ہونے اور مختلف مسلمان فلسفیوں اور صوفیوں کے خیالات پر بحث کی گئی ہے۔ کتاب کے دوسرے حصے میں ملا صدرا کے فلسفیانہ تصوف کا رد پیش کیا گیا ہے۔ آخری حصے میں خالقیت کے تصور پر یونانی نظریۂ فیض کے قیاس کو باطل ثابت کیا گیا ہے۔[6]
  5. عارف و صوفی چہ می گویند: آیۃ اللہ میرزا جواد آقا تہرانی کی کتاب ہے۔ یہ کتاب فارسی زبان میں لکھی گئی ہے۔ اس کتاب میں صوفیت کی پیدائش اور ان کے مختلف اوہام کے ذکر کے بعد دوسرے حصے میں اصالت وجود اور وحدت وجود جیسے فلسفیانہ تصورات کا رد کیا گیا ہے۔[7]
  6. تحفہ صوفیہ: پاکستانی شیعہ عالم شیخ نعمت علی سدھو کی کتاب ہے۔ یہ کتاب اردو زبان میں لکھی گئی ہے اور اس پر پاکستان کے جید شیعہ علما نے تقاریظ لکھی ہیں۔[8]
  7. بين التصوف و التشيع: لبنانی شیعہ عالم سید ہاشم معروف حسنی کی کتاب ہے۔ اس کا اردو ترجمہ ”تصوف اور تشیع کا فرق“ کے عنوان سے چھپ چکا ہے۔[9]

معاصر شیعہ فقہا کی آراء ترمیم

آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی ترمیم

ایک سوال کے جواب میں آپ نے ابن عربی کے بارے میں کہا:[10]

سوال: بعض ویب سائٹس پر آپ سے یہ منسوب ہے کہ آپ صاحبِ فصوص الحکم کے عرفان کی تائید کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں اپنی نظر سے آگاہ فرمائیں؟
جواب: اعتقادی معارف کے بارے میں میرا عقیدہ بزرگ علمائے امامیہ والا ہے کہ عقائد کو آیاتِ قرآن اور فرامینِ معصومین علیہم السلام سے حاصل کیا جائے۔ اور ابنِ عربی جیسے عرفان کی ہم تائید نہیں کرتے۔[11]

آپ کسی کو روحانی مرشد بنانا بھی درست نہیں سمجھتے[12] اور نوجوانوں کو عرفان اور سیروسلوک کے نام پر دھوکا دینے والوں سے بچنے کی تاکید کرتے ہیں۔[13]

آیۃ اللہ العظمیٰ سید روح اللہ خمینی ترمیم

آیۃ اللہ خمینی نے آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد کاظم یزدی (متوفیٰ 1919ء) کی کتاب العروۃ الوثقی پر حاشیہ لگایا ہے۔ اس کے صفحہ 37 پر بصورت مشروط وہ صوفی جو وحدت الوجود کے قائل اور اس کے بعض لوازمات سے ملتزم ہوں، ان کی نجاست کا حکم لگایا گیا ہے:

القائلین بوحدۃ الوجود من الصوفيّۃ إذا التزموا بأحکام الإسلام، فالأقوی عدم نجاستہم إلّا مع العلم بالتزامہم بلوازم

ترجمہ: ”وحدت الوجود کے قائل صوفیا اگر احکامِ اسلام کے پابند ہوں تو بہتر یہی ہے کہ ان کو نجس نہ سمجھا جائے، مگر یہ کہ ان کے اس کے لوازمات میں مبتلا ہو جانے کا علم ہو جائے۔“

لوازمات کی وضاحت کرتے ہوئے آیۃ اللہ خمینی حاشیے میں لکھتے ہیں کہ:

إن كانت مستلزمۃ لإنکار أحد الثلاثۃ [14]

ترجمہ: ”اگر یہ عقیدہ تین چیزوں (الوہیت، توحید یا رسالت) میں سے کسی ایک کے انکار کا موجب ہو تو صوفی نجس سمجھا جائے گا۔“

آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ ناصر مکارم شیرازی ترمیم

وحدت وجود کبھی مفہوم وجود کی وحدت کے معنی میں ہے کہ جو اشکال نہیں رکھتا اور کبھی وحدت حقیقت کے معنی میں ہے، جیسے سورج کی روشنی اور چراغ کی روشنی کہ دونوں کی حقیقت ایک ہے لیکن مصادیق متعدد ہیں، اس میں بھی اشکال نہیں ہے۔ کبھی وحدت وجود، مصداق وجودکی وحدت کے معنی میں ہے۔ اس معنی میں کہ عالم ہستی میں خدا کے وجود کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے اور جو کچھ ہے وہ اس کی عین ذات ہے۔ یہ نظریہ کفر کا مستلزم ہے اور کسی ایک فقیہ نے بھی اس کو قبول نہیں کیا۔[15]

آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد تقی بہجت ترمیم

سوال: خدا تک پہنچنے میں ملا صدرا کا فلسفہ اور عرفانِ نظری کتنا مددگار ہوتا ہے؟

جواب: ان کو علمِ کلام سیکھنے کے بعد پڑھیں، جب اصولِ دین اتنے پختہ ہو جائیں کہ عقائد کے بگڑنے کا اندیشہ نہ رہے۔ پہلے عقائد کا علم مضبوط ہو تو پھر ایسی کتابوں کے بارے میں رائے دینے کے قابل ہو جانا مفید ہے۔ ایسے میں نہ صرف یہ کہ ناجائز نہیں بلکہ فائدہ مند بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن ایسے لوگ جو صحیح اور غلط میں فرق نہ کر سکیں اور فکری استقلال نہ رکھتے ہوں، ان کے لیے ان کتابوں کو پڑھنا درست نہیں۔ کسی شخص کا عقیدہ بگڑا تو خود قصور وار ہو گا۔[16]

آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد اسحاق فیاض ترمیم

رہی فلسفے کی بات، تو جو عرفانی فلسفہ ہے وہ بالکل بے بنیاد ہے۔ ان کے ہاں رائج عرفان کشفِ حقائق کا نام ہے۔ وہ اسے واقعیت سے پردہ اٹھانے اور علمِ غیب کے معنوں میں لیتے ہیں اور ان چیزوں کا دعویٰ کرنے والے لوگ درحقیقت قرآن کی تکذیب کرتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے اپنی کتاب میں نص بیان کی ہے کہ علمِ غیب کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا سوائے ان رسولوں کے جن سے اللہ راضی ہو ( سورہ جن، آیت 26 ، 27 )۔ پس جو عارف علمِ غیب کا دعویٰ کرے وہ کاذب ہے۔ اس نے کتابِ خدا کی تکذیب کی ہے۔ البتہ عمومی فلسفہ جو نظری مباحث سے تعلق رکھتا ہے تو اس کی دو شاخیں ہیں: طبیعیات اور الہٰیات! جہاں تک اس فلسفے کی طبیعیات (فزکس) کا تعلق ہے تو وہ ساقط ہو چکی ہے اور اس کی ہوا اکھڑ چکی ہے۔ اب سائنس کا علم بالکل بدل کر اپنی بلندی کو چھو رہا ہے۔ دوسری طرف ملا صدرا کے فلسفے کی فزکس صرف اوہام اور تخیلات کا مجموعہ ہے اور اس کی کوئی علمی وقعت نہیں۔ جہاں تک الہٰیات کا تعلق ہے تو اس کی دو قسمیں ہیں۔ ایک خاص الٰہیات اور ایک عمومی مباحث، عمومی مباحث میں وجود، جوہر و عرض کی بحث ہے۔ واضح ہے کہ اصولِ فقہ کے درس میں یہ مباحث زیادہ گہرائی میں بیان ہوتی ہیں۔ اگرچہ کوئی ایک باب نہیں۔ مگرملا صدرا کے فلسفے میں جواہر و اعراض کی مباحث قدیم یونانیوں کے فرسودہ خیالات پر باقی ہیں۔ ان میں کوئی ارتقا نہیں ہوا ہے۔ رہی خالص خدا شناسی کی بات، تو اس میں صدرائی فلسفی ایسی مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں کہ نکلنا ممکن نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالٰی کو اشیاء کی علتِ تامہ سمجھتے ہیں۔ پس وہ ایسے الجھے ہیں کہ اس سے نکل نہیں پاتے۔ قدیم اور حادث میں علت اور معلول والا تعلق کیسے ہو؟ معلول کو علت سے سنخیت ہونی چاہیے۔ معلول کا علت سے بالکل مختلف ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ کسی چیز سے ایسی چیز پیدا نہیں ہو سکتی جو بالکل مختلف ہو۔ اگر خدا کو اشیاء کی علتِ تامہ سمجھا جائے تو اس میں اور اشیاء میں کوئی ذاتی تعلق ڈھونڈنا ہو گا۔ معلول اپنی علت کے ہونے کا ہی ایک درجہ ہوتا ہے۔ گویا معلول علت سے تولد پاتا ہے، اجنبی نہیں ہوتا۔ پس کیسے ممکن ہے کہ علت قدیم ہو مگر معلول حادث ہو۔ لہٰذا خدا کو علت قرار دینے سے وہ خیالی دلدل میں پھنس جاتے ہیں۔ طولی اور عرضی عقولِ عشرہ کا عقیدہ یا وجودِ منبسط یا وحدتِ وجود و موجود کا فرضی عقیدہ بنا لیتے ہیں۔ یہ سب فضول اوہام کے سوا کچھ نہیں! یہ ایسے تخیلات ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یہ کہنا کہ اللہ تعالٰی سے عقلِ اول صادر (پیدا) ہوا، پھر دوسری عقل پیدا ہوئی، وغیرہ، یہ محض خیالی پلاؤ ہے۔ لہٰذا ان کے ہاں الٰہیات کی مخصوص مباحث صرف خیال بافی اور اوہام پرستی پر مشتمل ہیں۔[17]

آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ لطف اللہ صافی گلپائگانی ترمیم

مامون عباسی (متوفیٰ 833ء) کے زمانے سے یونانیوں کا فلسفہ مسلمانوں میں پھیلنا شروع ہوا تو اسلام کی نصوص، بالخصوص اصولِ دین، فلسفیوں کی تاویلات کی زد پر آ گئے۔ چنانچہ انھوں نے اپنی آراء کے مطابق نصوص کے معنی بدلے۔ شریعت کی نصوص کے ظاہری معانی سے آزاد ہو کر فلسفے اور حتیٰ کہ ( یونانی ) طبیعیات، کی رو سے آزادانہ تشریحات کرنے کا رواج ہو گیا تو انھوں نے لوگوں کو نصوص کے حقیقی معنوں سے دور کر دیا۔ توحید و صفاتِ الہٰیہ اور حادث و قدیم اور خالق و مخلوق وغیرہ کے معنوں میں انھوں نے ان چیزوں کو داخل کیا جو ظواہر سے میل نہیں کھاتیں۔ چنانچہ انھوں نے اپنے مذہب کو ظن و گمان اور مفروضوں پر استوار کیا اور اس کی ایسی تشریح کی جو دین کے مالک اور مفسرینِ برحق ؑ کی منشا کے خلاف تھی۔ انھوں نے اعلیٰ معارف کی تفسیر انبیا ؑ کے راستے سے ہٹ کر کی۔ ان کے اذہان آسمانی ہدایت کے نور سے روشن نہیں ہوئے تھے۔ پس وہ ذہنی طور پر بے لگام ہو گئے اور اپنی مرضی کی راہوں پر چل پڑے۔ وہ ایسی اصطلاحات لائے جو قرآن کی اصطلاحات سے موافق نہیں ہیں۔ وہ ایجاب، حلول، اتحاد اور وحدت الوجود جیسی اصطلاحوں میں پڑ گئے۔ انھوں نے حادث و قدیم کے تعلق کو مخلوق و خالق کی بجائے معلول و علت کے تعلق کی طرح قرار دیا، جبکہ ان میں واضح فرق ہے۔ کہاں خالق و مخلوق اور کہاں علت و معلول؟ دوسری اصطلاح سے وہ مفہوم نہیں نکلتا جو پہلی اصطلاح سے سمجھ میں آتا ہے، جو دوسری کا مطلب ہے وہ پہلی کا نہیں ہے۔ دونوں راستے ایک نہیں اور نہ ہی ایک مقصد تک پہنچاتے ہیں۔ علت پہلی، دوسری، ۔ ۔ہو سکتی ہے لیکن خالق پہلا، دوسرا اور تیسرا نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح معلول بھی پہلا، دوسرا، تیسرا ۔ ۔ ۔ ہو سکتا ہے لیکن مخلوق میں ایسا اول، دوم، سوم کا سلسلہ نہیں ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ بعض احادیث میں” اول ما خلق اللہ نوری “ آیا ہے، لیکن اس سے مراد وہ نہیں کہ جیسے پہلے معلول کو دوسرے کی علت اور دوسرے کو تیسرے کی علت سمجھا جائے ویسے ہی پہلی مخلوق دوسری کی خالق ہو۔ سب مخلوقات، چاہے کچھ پہلے خلق ہوئی ہوں اور کچھ بعد میں، انکا خالق ایک ہی ہے اور سب کو اسی ایک سے خلقت کی نسبت ہے۔ یہ ایسا تعلق نہیں جیسے معلولِ ثانی جو علتِ ثالثہ ہو وہ معلولِ اول و علتِ ثانیہ کا معلول ہو۔

فلسفیوں کی کتابیں اور ان میں جو کچھ بظاہر آسمانی وحی سے مطابقت رکھنے والا مواد پایا جاتا ہے وہ بھی وحی کے ساتھ مکمل طور پر متفق نہیں، نہ وہ کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ اس میں خشک و تر، حق و باطل مخلوط ہے۔ بعض مقامات پر وہ انبیا ؑ سے متفق ہیں اور بعض جگہوں پر انکا اختلاف ہے۔ خصوصاً ماضی قدیم کے ( یونانی ) لوگ، جو خدا تعالیٰ کے رسولوں کی لائی ہوئی ہدایت پر رسمی حد تک یقین رکھتے اور عمل کرتے تھے مگر ان کے اذہان اس رہنمائی سے خالی ہو چکے تھے اور انبیا ؑ کی رہنمائی کے بغیر عقل گمراہ ہو جاتی ہے۔ جو ( مسلم ) فلاسفہ ان کے بعد آئے وہ ان کے راستے پر چلے اور ان کے نقشِ قدم کی پیروی کی۔ تاہم انھوں نے ان مفروضات کی کتاب وسنت سے تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی۔ گویا وہ اسلام کے معارف کو معنوی طور پر ان مفاہیم کے قریب لانا چاہتے تھے جنہیں ان کی عقل درست سمجھ رہی تھی۔ لہٰذا ان میں سے صرف چند ہی خطاؤں، لغزشوں اور پھسلنے سے محفوظ رہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ معاصرین میں سے مشہور ترین متکلمین نے معادِ جسمانی کے مسئلہ پر معروف مذہبی فلسفیوں کی رائے کو سختی سے مسترد کیا، یہاں تک کہ ان کو گمراہی کا شکار قرار دیا کہ خدا ہمیں اس سے بچائے۔ حوالے کے لیے ملا محمد اسماعیل مازندرانی کا قرآن کی اس آیت ” وکان عرشہ علی الماء (سورہ ہود، آيت 7) “ کی تفسیر میں لکھا گیا رسالہ دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ اپنی جگہ ایک انحراف ہے کہ ان حضرات نے ان امور پر بحث کرنا اپنے اوپر لازم کر لیا کہ جن کے بارے میں بات کرنا نا صرف واجب نہیں ہے، بلکہ منع کیا گیا ہے۔ کیا وہ لوگ ہدایت یافتہ ہیں جو ارسطو، افلاطون، سقراط، رواقیوں اور مشائیوں، یعنی فارابی اور ابنِ سینا، کے عقائد کو اپنائے ہوئے ہیں یا وہ لوگ ہیں جو محمدؐ و آلِ محمد ؑکی تعلیمات کو اپنائے ہوئے ہیں اور ان کی سیرت پر چلتے ہیں؟ ہم کسی شخص کو پہلے یا دوسرے گروہ کا حصہ قرار نہیں دے رہے اور امید کرتے ہیں کہ مسلمان فلسفی دوسرے گروہ میں شمار ہوں۔ ان کی آخرت کا معاملہ اللہ تعالیٰ پر ہی چھوڑنا چاہیے۔[18]

جن لوگوں نے اپنی بنیاد نصوص کی تاویل پر رکھی اور اپنی پسند اور تخیل کے مطابق ان کو پھیر دیا، ان میں سے عرفاء اور صوفیوں کے فرقے سے پہنچنے والا نقصان سب سے زیادہ اور ان کی تاویلیں سب سے بری ہیں۔ وہ اصولِ دین اور فروعات کو کھیل بنا لیتے ہیں۔ ان کو اپنی فاسد آراء سے تطبیق دیتے ہیں اور اپنے برے اعمال کی توجیہ کرتے ہیں۔ ان کے اقوال پوچ اور ان کے نظریات باطل ہیں۔ حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر لیتے ہیں۔ صریح نصوص کے خلاف سیر و سلوک اور بیعت کے سلسلوں میں مگن ہو جاتے ہیں۔ ان کی تاویلات مکڑی کے جالے سے زیادہ ناپائیدار ہیں۔ ان کی گمراہی کی وجہ فضول توہمات میں مگن ہونا اور قرآن و اہلبیت ؑ سے دوری ہے۔ ان گروہوں میں سب سے زیادہ تباہ کن وہ ہے جس نے فرسودہ یونانی فلسفے اور عرفان کا ملغوبہ تیار کر لیا ہے، گویا کریلا اور وہ بھی نیم چڑھا! اگر کوئی جاننا چاہے کہ صوفیوں کا اور ان کے پیروکاروں کا راستہ کیا ہے تو وہ ملا عبد الرزاق کاشانی کی تفسیر کو دیکھے کہ اس میں اس قسم کی تاویلات بہت مل جائیں گی۔ مثال کے طور پر آیت کریمہ ” وانظر الی حمارک (سورہ بقرہ، آیت 259) “ کی تفسیر میں ” حمار “ سے مراد حضرت عزیر ؑ کو لیا ہے، ” صفا و مروہ “ کو قلب اور نفس قرار دیا ہے، ملاحظہ ہو جلد 1 کا صفحہ 100 اور 147 ۔ جہاں تک سورہ کہف کی آیت 82 میں دو یتیم بچوں کا ذکر ہے تو انھیں عقلِ نظری اور عقلِ عملی قرار دیا ہے۔ سورہ نساء کی پہلی آیت میں ” نفس واحدہ “ کی تفسیر نفسِ ناطقہ اور ” زوجہا “ کی تفسیر نفسِ حیوانی کر دی ہے۔ ان کی باتوں میں لغو تاویلیں بہت ملتی ہیں، جنہیں ابنِ عربی کی فصوص الحکم وغیرہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔[19][20]

بہت سی قرآنی آیات اور صحیح احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خالق، مخلوق سے الگ ہے۔ ان کے درمیان کوئی ذاتی اور حقیقی قدرِ مشترک نہیں ہے اور وہ لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَیْءٌ ہے۔ اس حقیقت کو اصالتِ وجود کی بنیاد پر کھڑے کیے گئے بعض مروجہ عرفانی اور فلسفی مسالک سے تطبیق نہیں دی جا سکتی۔ لہٰذا ہمہ خدائی کا قائل نہیں ہوا جا سکتا۔ اسی طرح خالق و مخلوق کے تعلق کو دریا و موج یا روشنائی و حرف کے تعلق سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی، نہ اس قبیل کی دوسری اصطلاحات و تشبیہات استعمال کرنی چاہئیں۔ کائنات کی حقیقت اور واقعیت کا منکر نہیں ہوا جا سکتا کیونکہ اس کی کلی اور جزئی واقعیت کو قرآن مجید میں بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ آسمان، کہکشائیں، نظامِ شمسی، پہاڑ، دریا اور انسانوں اور حیوانات میں رہنے والی کروڑوں مخلوقات کے تحققِ واقعی کا انکار کرنا اور یہ کہنا کہ صرف وجودِ مطلق ہے اس کے ظہورات ہیں، صرف مطلق وجود اور اس کے مراتب ہیں اور اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے، وجود کے علاوہ حقیقی طور پر کچھ نہیں ہے اور جو اختلاف ہے وہ مراتب میں ہے، درست نہیں۔ وجودِ اشیاء کو وجودِ حق کا غیر کہیں اور ہر چیز کے وجود کو دوسری چیزوں کے وجود کا غیر کہیں اور ساتھ ساتھ اشتراکِ معنویِ وجود کے بھی قائل ہوں۔ کنہ حق اور کنہ اشیاء کو ان معنوں میں واحد خیال کریں۔ پھر ان سب کی معرفت کے مدعی بھی ہوں اور سب پر تشکیکِ وجود کے تصور کا اطلاق کریں۔ یہ نظریات قرآن و سنت اور شرعی عقائد کے مخالف اور ان کے ساتھ ناسازگار ہیں۔ قرآن کریم سے شیئیتِ اشیاء اور ان کی خارجی واقعیت اور تحقق اور ذاتِ الہٰی کے ان سے جدا ہونے اور شباہت سے منزہ ہونے کا مفہوم ظاہر ہوتا ہے۔ اسی طرح حادث و قدیم کے ربط کے مسئلے میں جس میں کلام ممنوع نہ ہو تو لازم نہیں ہے، یہ کہا جائے کہ معاذ اللہ خدا اس مخلوق کے علاوہ کچھ بنانے سے عاجز ہے اور اس پر صدور عالم واجب ہے اور ان کے فرض کردہ عالمِ عقول و مجردات میں وہ کچھ نیا نہیں بنا سکتا اور دنیا ایک مکینیکل کارخانے کی طرح چل رہی ہے، ۔ ۔ ۔ ظواہرِ مقبولہ اور مسلماتِ قرآن کے خلاف ہے۔ [21]

ان حضرات نے اپنی تھیوریوں کی بنیاد پر مخلوقات کا فرضی نقشہ بنا رکھا تھا۔ اپنے گمان میں کائنات اور آسمانوں کے مقام کو متعین کر کے حادث و قدیم کا تعلق اور واحد سے کثیر کے صدور کی داستان تدوین کر لی تھی۔ گویا یہ ہر جگہ اور کائنات کے تحولات اور ادوار میں خدا کے ساتھ تھے۔ اس بنیاد پر مجردات اور عقول کی دنیاؤں کا افسانہ گھڑ کر خیالی سلسلے بنا بیٹھے تھے کہ جدید سائنس اور آرٹس کے آنے سے ان کا باطل ہونا پہلے سے زیادہ واضح ہو گیا۔ صحیح راستہ یہ ہے کہ انسان عقائد کے معاملات میں احاديثِ پیغمبر صادق صلی اللہ علیہ و آلِہ وسلم پر اکتفا کرے۔[22]

اگر ہماری نوجوان نسل چاہتی ہے کہ نت نئے روشن فکر نماؤں کی گمراہیوں سے محفوظ رہے اور اسلام کے سیدھے دین کو اصلی منابع سے اسی شکل میں سیکھے جیسے وہ پیغمبرؐ پر نازل ہوا ہے، تو یا خود انہی منابع تک رسائی حاصل کرے اور کسی تاویل و توجیہ کے بغیر قرآن و حدیث کی منطق کو حجت جانے یا اسلام شناس لوگوں سے رجوع کرے جنھوں نے ان منابع میں غور و فکر کر کے مکتب اہلبیت ؑ کو سیکھا ہے۔ ان کو سب جانتے ہیں: ابوذر و مقداد وغیرہ، ابن بابویہ، شیخ طوسی اور ان کے شاگردوں جیسے لوگوں سے لے کر آج کے علما و فقہا اور مراجع کرام تک ایک تسلسل ہے۔ ۔ ۔ مروجہ فلسفہ و عرفان پڑھنے والوں کا یہ مقصد کبھی نہیں رہا۔ علاء الدولہ سمنانی، بایزید بسطامی، ابوسعید ابوالخیر اور ایران اور برصغیر کے صوفیوں پر ہوتا تو آج لوگوں کے پاس اسلام نہ ہوتا اور جو کچھ ہوتا وہ دین و دنیا کے کسی کام نہ آتا۔ شہاب الدین سہروردی، ابنِ فارض اور ابنِ عربی وغیرہ کا دین شناسی میں کوئی حصہ نہیں ہے۔[23]

آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ حسین وحید خراسانی ترمیم

مجھے عرفان پر پوری گرفت حاصل ہے۔ مثنوی رومی مجھ سے پڑھنا چاہتے ہو تو پڑھا سکتا ہوں۔ جہاں سے پوچھنا چاہو بتا سکتا ہوں۔ فلسفہ پڑھنا چاہتے ہو تو اسفار کی ابتدا سے لے کر آخر تک، آغازِ مفہومِ وجود سے لے کر مباحثِ طبیعیات تک، جو کہو سمجھا سکتا ہوں۔ لیکن یہ سب کشک (چورن) ہے۔ معرفت کی سب باتیں قرآن و فرامینِ معصومین علیہم السلام میں ہیں۔[24]

آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد صادق روحانی ترمیم

سوال: جناب عالی! ابنِ عربی کے شیعہ ہونے یا نہ ہونے پر آپ کی کیا رائے ہے؟

جواب: ابنِ عربی اپنی کتاب فتوحاتِ مکیہ میں خود کو امام زمانہ ؑ کی معرفت سے بے نیاز کہتا ہے۔ خدا کو کلِ اشیاء قرار دیتا ہے۔ امیر شام اور متوکل جیسوں کے لیے ولایتِ ظاہری و باطنی کا قائل ہے۔ اپنے آپ کو انبیا ؑ سے توحید کا امتحان لینے کے قابل سمجھتا ہے۔ کشف و شہود کی دنیا میں شیعوں کو خنزیر کی شکل میں دیکھنے کا مدعی ہے۔ اس قسم کی خرافات کے بعد اس کے مذہب کے بارے میں کیا شک رہ جاتا ہے کہ یہ سوال پوچھا جائے؟[25]

آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ حسین نوری ہمدانی ترمیم

عرفانِ حقیقی اور رائج تصوف ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔ بطلانِ تصوف پر بہترین دلیل اہلبیت ؑ کے فرامین ہیں جس میں انھیں دشمن قرار دیا گیا ہے۔ یہ منحرف فرقہ کہ جو اہلبیت ؑ سے جدا ہو گیا ہے، متبادل کے طور پر قطب اور اولیاء بنا بیٹھے ہیں۔ ان کا ایک پیر مولانا روم ہے جو مثنوی میں کہتا ہے:

آزمائش تا قیامت دائم است

پس بہ ہر دوری ولیی لازم است

پس امام حی و مطلق آن ولی است

خواه از نسل عمر خواه از علی است

یوں انھوں نے اہلبیت ؑ کو چھوڑ کر اقطاب و اولیاء بنا لیے۔ مذہبِ امامیہ میں اولیاء کچھ خاص شخصیات ہیں۔ ہم ولایتِ شخصی کے قائل ہیں جو پیغمبرؐ اور ائمہ ؑ میں منحصر ہے، جن کے نام متواتر احادیث میں آئے ہیں۔ یہ ولایتِ نوعی کے قائل ہیں، لہٰذا پیروں کو حجتِ خدا سمجھتے ہیں۔ کتاب تذکرۃ الاولیاء میں ان کے نام آئے ہیں۔[26]

آیۃ اللہ العظمیٰ سید موسیٰ شبیری زنجانی ترمیم

سوال: دینی طلاب میں علمی اختلاف کے سبب مرجع عالیقدر سے ان مسائل پر رہنمائی درکار ہے: 1۔ محی الدین ابنِ عربی کے عرفان کا پابند ہونا؛ 2۔ فلسفی موشگافیوں، بالخصوص ملا صدرا کے وحدت الوجود اور معاد کے متعلق خیالات

جواب: فقہائے امامیہ کی روش پر کاربند رہنا چاہیے، جو پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومین ؑ سے مروی صحیح احادیث، آداب و سنن ماثورہ پر عمل کرنا ہے۔ تزکیہ، سعادت اور کمال کے حصول کا یہی واحد طریقہ ہے۔[27]

آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد حسین نجفی ڈھکو ترمیم

تصوف ، خواہ جس ملک و ملت کا ہو ، یہ انحطاطِ قومی و ملی کی نشانی ہے۔ یعنی جو قوم میدانِ عملی میں قدم رکھنے سے ہچکچاتی ہے اور اس میں علمی طور پر زمان و مکان کے مسائل سے عہدہ برآ ہونے کی ہمت نہیں رہتی تو پھر تصوف کی مزعومہ باطنی ولایت و سرمدیت کی اوٹ میں پناہ لینے کی ناکام کوشش کرتی ہے ۔[28]

آج کل بعض اسلامی ممالک میں جو عرفان کے چرچے ہیں اور حقائقِ اسلام کا چہرہ عرفان کے نام سے بگاڑا جا رہا ہے، وہ بعینٖہ صوفیا کا تصوف ہے۔ عرفان بافوں نے شیعہ علمائے اعلام کے فتاویٰ سے خوفزدہ ہو کر عرفان کی آغوش میں پناہ لی ہے۔ ورنہ دنیا جانتی ہے کہ ابنِ عربی کی کتاب ” فصوص الحکم “ کی شرح لکھنے والے اور اس کی تحریرات کی تاویلات کرنے والے صوفی نہیں تو اور کیا ہیں؟ [29]

ملا صدرا اور ان کے پیروکار ترمیم

شیعہ علما کے دباؤ میں آ کر معروف فلسفی ملا صدرا (متوفیٰ 1640ء) نے ”کسر اصنام الجاہلیہ“ کے عنوان سے ایک کتاب میں صوفیوں کی بے عملی اور شریعت سے دوری کی مذمت کی ہے۔ مگر انھوں نے صوفیوں کے نظریۂ علم و ہستی کو اپنی باقی کتابوں میں فلسفی جامہ پہنایا ہے۔ گویا وہ اہلِ تصوف کے بعض اعمال کی مخالفت تو کر رہے تھے مگر ان کے عقائد و نظریات کی توجیہ پیش کر رہے تھے۔ لہٰذا انھیں شیعہ فقہا کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ انھوں نے ”رسالہٴ سہ اصل“ کے عنوان سے ایک مستقل کتابچے میں فقہا و متکلمین پر تنقید کی ہے۔ اپنی معروف کتاب ”اسفار اربعہ“ میں بھی وہ متکلمین پر خوب برسے ہیں، وہ لکھتے ہیں:

”یہ لوگ فی الحقیقت صرف بدعت و گمراہی کے علمبردار ہیں، جہال اور کمینوں کے پیشوا ہیں۔ ان کی ساری شرارتیں محض اربابِ دین و تقویٰ کے ساتھ مخصوص ہیں اور علما کو ہی نقصان اور ضرر پہنچاتے ہیں۔ ان کو سب سے زیادہ عداوت حکماء کے اس گروہ سے ہے جو ایمان والے ہیں اور فلاسفہ کی جماعت میں جو ربانی ہیں۔ یہ جھگڑے والوں کا وہ طائفہ ہے جو معقولات کے اندر گھسنا چاہتے ہیں حالانکہ ابھی تک انھوں نے محسوسات ہی کا علم حاصل نہیں کیا۔ یہ براہین و قیاسات کو استعمال کرنا چاہتے ہیں حالانکہ ابھی ریاضیات کو بھی انھوں نے درست نہیں کیا ہے۔ یہ الہٰیات پر گفتگو کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں حالانکہ ابھی یہ طبیعیات کے مسائل سے بھی ناواقف ہیں۔“ [30]

اب جبکہ ملا صدرا کی طبیعیات، یعنی مادہ، حرکت، فلک، زمان و مکان وغیرہ کے بارے میں ان کے خیالات باطل ثابت ہو چکے ہیں تو ان کی اس دلیل کو ان کے مخالفین اپنے حق میں استعمال کر رہے ہیں۔ چنانچہ آیۃ اللہ جواد تہرانی (متوفیٰ 1989ء) لکھتے ہیں:

”میں جب قدیم فلسفے کو پڑھنے بیٹھا تو ان بزرگوں کی سبھی باتوں پر حسنِ ظن نہیں رکھتا تھا کیوں کہ اس سے پہلے جدید علوم کے ماہرین کے نظریات کی ان پرانے فلسفیوں کی طبیعیات اور فلکیات کے مخالف ہونے کو اجمالی طور پر جان چکا تھا۔ ۔ ۔ میرے ذہن میں یہ بات کھٹکتی رہتی تھی کہ یہ لوگ، جو طبیعیات میں غلط تھے، کیسے ممکن ہے کہ الہٰیات میں خطا سے پاک رہے ہوں؟“ [31]

اہل تصوف و عرفان میں بعض شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے بھی ہیں۔ ماضی کے شیعہ عرفاء میں میرزا حیدر آملی (متوفیٰ1385ء) اور ملا صدر الدین شیرازی المعروف ملا صدرا (متوفیٰ 1640ء) خصوصی اہمیت رکھتے ہیں۔ معاصر شیعہ علما میں جو مدارس میں مذہبی فلسفہ کی روایت کا حصہ ہیں وہ عقائد میں صوفیانہ رنگ لیے ہوئے ہیں، اگرچہ وہ عمل کی دنیا میں شریعت کی پابندی کو ضروری سمجھتے ہیں۔ 1979ء کے ایرانی انقلاب کے بعد علامہ محمد حسین طباطبائی اور آیت اللہ مطہری جیسے صوفی مشرب مفکرین کی فکر کو سرکاری سرپرستی میں رواج دیا گیا ہے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد حسین نجفی ڈھکو، اعتقاداتِ امامیہ ترجمہ رسالہ لیلیہ، صفحہ 32
  2. علامہ باقر مجلسی، ”العقائد آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ alefbalib.com (Error: unknown archive URL)“، صفحہ 100، مؤسسۃ الہدیٰ للنشر والتوزیع،تہران، 1999ء۔
  3. آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ ناصر مکارم شیرازی، جلوہ حق، نسل جوان، قم۔
  4. آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ لطف الله صافی گلپایگانی،نگرشی بر فلسفہ و عرفان، انتشارات دلیل ما، تہران۔
  5. آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد حسین نجفی ڈھکو،اقامۃ البرہان علی بطلان التصوف والعرفان، مکتبۃ السبطین ، سرگودھا ۔
  6. آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد تقی مدرسی،العرفان الاسلامی،دانشوران معاصر ،قم۔
  7. آیۃ اللہ میرزا جواد آقا تہرانی،عارف و صوفی چہ می گویند،نشر آفاق ، تہران۔
  8. مولانا نعمت علی سدھو،تحفہ صوفیہ، مکتبۃ الثقلین ، فیصل آباد ۔
  9. علامہ سید ہاشم معروف حسنی، تصوف اور تشیع کا فرق، مجمع علمی اسلامی، کراچی۔
  10. ebnadmin (2023-06-05)۔ "ہم ابنِ عربی کے عرفان کی تائید نہیں کرتے - آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی"۔ ابنِ عربی، عرفان اور تصوف پر تحقیقات۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2024 
  11. آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی>>پرسش و پاسخ >> عرفان
  12. ebnadmin (2023-07-05)۔ "کسی کو روحانی مرشد بنانے کا مسئلہ - آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی"۔ ابنِ عربی، عرفان اور تصوف پر تحقیقات۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2024 
  13. ebnadmin (2023-06-03)۔ "جوان معرفت اور سیر و سلوک کے نام پر دھوکہ نہ کھائیں - آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی"۔ ابنِ عربی، عرفان اور تصوف پر تحقیقات۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2024 
  14. آیۃ اللہ العظمیٰ خمینی، تعلیق بر عروةالوثقی، ص 37، باب نجاسات، موسسة تنظيم و نشر آثار الإمام الخمينى، تهران، 1422 ہجری قمری۔
  15. آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ ناصر مکارم شیرازی، وحدت وجود کے متعلق، شیعہ علما اور بزرگوں کا عقیدہ
  16. آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد تقی بہجت، فلسفہ و عرفان
  17. آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد اسحاق فیاض، درباره عرفان ، ابن عربی
  18. ebnadmin (2023-05-31)۔ "فتنۂ فلسفہ و فلاسفہ - آیۃ اللہ العظمیٰ حاج شیخ لطف اللہ صافی گلپائگانی"۔ ابنِ عربی، عرفان اور تصوف پر تحقیقات۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2024 
  19. آیۃ اللہ صافی گلپائگانی ، ” لمحاتٌ فی الکتاب والحدیث والمذہب “ ، جلد 3 ، صفحات 388 تا 392 ۔
  20. ebnadmin (2023-06-02)۔ "فتنۂ عرفاء و متصوفہ - آیۃ اللہ العظمیٰ حاج شیخ لطف اللہ صافی گلپائگانی"۔ ابنِ عربی، عرفان اور تصوف پر تحقیقات۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2024 
  21. آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی، شرح حدیث عرضِ دین حضرت عبدالعظیم حسنی، ص 26 ، 27۔
  22. آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی، شرح حدیث عرضِ دین حضرت عبدالعظیم حسنی، ص 107 ۔
  23. آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی، شرح حدیث عرضِ دین حضرت عبد العظیم حسنی، ص 41 ، 42۔
  24. آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ حسین وحید خراسانی، نقد فلسفہ و عرفان
  25. نظر حضرت آیت الله العظمی سید محمد صادق روحانی درباره مولوی و محی الدین عربی
  26. درس خارج فقه آیت‌الله نوری، کتاب الوقف، 95/11/16
  27. پاسخ آیت الله شبیری زنجانی بہ پرسشی درباره فلسفہ ملاصدرا و عرفان ابن عربی
  28. مولانا نعمت علی سدھو ، ” تحفہ صوفیہ “ ، طبع اول ، صفحہ 12
  29. آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد حسین نجفی ڈھکو، اقامۃ البرہان علی بطلان التصوف والعرفان ، صفحہ 111 ، مکتبۃ السبطین ، سرگودھا ۔
  30. (ا) مولانا مناظر احسن گیلانی، ”فلسفہٴ ملا صدرا“ (ترجمہ اسفارِ اربعہ)، صفحہ 246، حق پبلیکیشنز لاہور، 2018ء (ب) ملا صدرا ،”اسفار اربعہ“، جلد 1، صفحہ 363، دار احیاء التراث العربی، بیروت۔
  31. آیۃ اللہ جواد تہرانی، ”عارف و صوفی چہ می گویند “، صفحہ 323، نشر آفاق، تہران، 2010ء۔

بیرونی روابط ترمیم