صارف:الطاف الرحمن السلفی/تختہ مشق

مولانا شفیق الرحمٰن السلفی رحمہ اللہ : حیات و خدمات

ترمیم
مختصر تعارف
نام شفیق الرحمن بن عبد الباسط سلفیؔ
تاریخ پیدائش 28 جولائی 1947ء
مقام بھنگیہا، روپندیہی ، نیپال
مذہب اسلام
عقیدہ اہل سنت والجماعت
منہج سلفی، اہل حدیث
تاریخ وفات 26ربیع الاول 1440ھ۔ مطابق 4 دسمبر 2018

یوں تو اس عالم فانی میں بہت سے علماء و فضلاء پیدا ہوئےجنہوں نے اپنی علمی، مالی اور جسمانی بساط بھر امت مسلمہ کی کتاب و سنت کی طرف رہنمائی کی ، اور ان کی عمدہ کارکردگی اور روشن خدمات کی وجہ سے تا قیامت ان کا ذکر خیر ہوتا رہے گا انہیں شخصیات میں سے مولانا شفیق الرحمن سلفی رحمہ اللہ ہیں .

نام و نسب :

ترمیم

شفیق الرحمن بن عبدالباسط بن محمد باقر خان

تاریخ پیدائش و ابتدائی تعلیم :

ترمیم

آپ کا شمار ان مصلحین علماء اہل حدیث میں سے ہوتا ہے جن کی دعوتی و اصلاحی کوششوں سے آج وطن عزیزنیپال کے علاقہ مرچوار میں کتاب و سنت کی روشنی پھیلی ہوئی ہے آپ کا آبائی وطن بابائے قوم مولانا خلیل الرحمٰن رحمانی رحمہ اللہ کے گاؤں بھٹ پرا سدھارتھ نگر یوپی سے متصل ایک موضع مہجدیا پوسٹ لوٹن ضلع سدھارتھ نگر یوپی ہند تھا ، سند و پاسپورٹ کے مطابق آپ کی پیدائش 28 جولائی 1947ء کو ہوئی .

موصوف رحمہ اللہ نے ابتدائی تعلیم گاؤں ہی میں میاں عبدالواحد صاحب سے حاصل کی بعد ازاں مدرسہ مفتاح العلوم سلفیہ بھٹ پڑا میں بابائے قوم مولانا خلیل الرحمٰن رحمانی رحمہ اللہ سے زانوئے تلمذ تہ کیا پھر شاعر اسلام ڈاکٹرحامد الأنصاري انجم رحمہ اللہ کے گاؤں کرن جوت لوہرسن بازار" مدرسہ سلفیہ مدینة العلوم" میں جماعت ثالثہ تک کی بہترین تعلیم مکمل کی پھر اعلٰی تعلیم کے حصول کے لیے مئو ناتھ بھنجن کی ایک معروف قدیم سلفی دانشگاہ جامعہ اسلامیہ فیض عام 1967ء تک علم حاصل کیا لیکن بعض نا مساعد حالات کی بناء پر فراغت نہ ہو سکی مجبورا اسی شہر کی ایک حنفی درسگاہ جامعہ عربیہ مفتاح العلوم کا رخ کیا اور 1968ء میں اپنی علمی تشنگی بجھا کر فارغ التحصیل ہوئے .

علمی اسناد و ڈگریاں :

ترمیم

1۔ الہ آباد بورڈ سے مولوی کی سند

2۔ جامعہ اردو علی گڑھ سے ادیب کی سند

3۔ جامعہ مفتاح العلوم شاہی مسجد کٹرہ مئو ناتھ بھنجن سے فضیلت کی سند حاصل کی  

اساتذہ کرام :

ترمیم

آپ نے اپنے وقت کے بہت سے مشاہیر و متبحرعلمی شخصیات سے اکتساب فیض کیا ان کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں :

1۔ بابائے قوم مولانا خلیل الرحمٰن رحمانی بھٹ پرا

2۔ ڈاکٹر حامد الأنصاري انجم  لوہرسن

3۔ امان اللہ چترویدی بھٹ پرا

4۔ شیخ صفی الرحمن مبارک پوری صاحب الرحیق المختوم

5۔ مفتی حبیب الرحمن فیضی اعظمی

6۔ میاں عبدالواحد صاحب مہجدیا

7۔ علامہ شمس الحق سلفی

8۔ شیخ عبدالمعید بنارسی

9۔ علامہ محمد احمد رحمہم اللہ جمیعا

اور پھر انبیائی مشن دعوت توحید و معاشرہ کے اصلاح کی غرض سے عملی میدان میں قدم رکھنے کے لئے آپ نے نیپال کے معروف ضلع روپندیہی علاقہ مرچوار کے مردم خیز گاؤں بھنگہیا میں آکر سکونت اختیار کرلی کیونکہ سلفی رحمہ اللہ کا ننیہال یہیں تھا نیز دیگر قریبی رشتہ دار بھی  موجود تھے

اخلاق اور عادات :

ترمیم

سلفی رحمہ اللہ کے تعلق سے یہ بات عرض کردوں کہ آپ ایک جید عالم دین علم دوست اور مہمان نواز تھے خلوص و للہیت کے پیکر اور کریمانہ اخلاق و بلند کردار کے جامع تھے نماز کو ان کے مقررہ اوقات میں پڑھنے کی شدت سے پابندی کرتے تھے سفر وحضر میں بھی نماز تہجد پر مواظبت کرتے تھے آپ واقعی بہت ساری خوبیوں کے مالک تھے

خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں

اور جنہیں گاؤں اور علاقہ کے لوگ ادبا و احتراما " گنواہے مولوی صاحب " کے نام سے پکارتے تھے، انہیں مذکورہ خوبیوں کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں آپ کی بے پناہ عزت تھی اور مسلم وغیر مسلم مرد اور عورتیں سبھی آپ سے بے حد محبت کرتے تھے  ، مولانا علیہ الرحمہ کا جمعہ وعیدین کے خطبات بہت سلیس عام فہم اور اصلاحی ہوا کرتے تھےجسے سامعین خوب دلجمعی سے سنتے تھے .

علاقہ کی دینی حالت :

ترمیم

نیپال کا ترائی علاقہ خصوصا مرچوار اس زمانہ میں اسلامی شعائر اور دینی احکام و ارشادات سے بالکل نہ آشنا تھا ۔ جہالت کی وجہ سے طرح طرح کی ہندوانہ رسوم و رواج و اعمال میں ڈوبا ہوا تھا ۔ ان کی زندگی اسلام سے کوسوں دور تھی تعزیہ سازی اور اس کے پاس کئے جانے والے تمام غیر شرعی اعمال، بیعت ومریدی، فاتحہ خوانی و ایصال ثواب، حتی کہ لوگ میت کو بلا نماز جنازہ پڑھے دفن کر دیا کرتے تھے پھر جب کوئی پیر صاحب آتے تو جنازہ پڑھتے تھے مختصر یہ کہ علاقہ دینی تعلیم کے اعتبار سے بہت ہی پسماندہ علاقوں میں شمارہ ہوتا تھا .

گاؤں میں تدریسی عمل کا آغاز :

ترمیم

موصوف رحمہ اللہ کے گاؤں میں آنے سے قبل پچھم جانب ایملی درخت کے نیچے تو کبھی شمال کی جانب باغیچہ میں چھپر ڈال کر ، کبھی ادھر ادھر گاؤں میں اور چند ماہ محمد حنیف عرف موٹے کے گھر میں اور چند ماہ مسجد میں گاؤں کے بچوں کے علاوہ بھیساگہن، بشن پورہ ، تلیا گڑھ ، پرسہوا ، مجگاواں ، مریاد پور تک کے مسلم طلباء کو بہت ہی معمولی تنخواہ پر مختلف اوقات میں کئی علماء کرام نے تدریسی دعوتی و اصلاحی خدمات انجام دیں غرضیکہ گاؤں اور اس کے مضافات میں کوئی مستقل مدرسہ نہیں تھا بلکہ کچھ غیرت مند دینی حمیت رکھنے والے حساس لوگ اپنی بساط بھر کوئی مدرس رکھ کرمختلف مقامات پرادھر ادھر اسلامی تعلیم دلاتے رہتے تھے

جن علماءکرام نے شیخ رحمہ اللہ سے قبل تدریسی خدمات انجام دیں ان کےاسماء گرامی یہ ہیں :

1۔ مولانا عبدالقدوس ہادی ، ہرنام پور ضلع روپندیہی نیپال، آپ جامعہ دار الہدی یوسف پور سدھارتھ نگر یوپی سے فارغ التحصیل تھے

2۔  میاں امان اللہ ، رام پور سدھارتھ نگر یوپی

3۔ ایک میاں صاحب رام پور کے آس پاس کے اور تھے جو میاں امان اللہ کے توسط سے آئے تھے مگر افسوس صد افسوس  نام و پتہ معلوم نہ ہو سکا 6/ 7 ماہ پڑھانے کے بعد گھر پر کسی نا گہانی آفت کی وجہ سے چلے گئے تھے

4۔ موضع حیات نگر ضلع سدھارتھ نگر یوپی کے ایک میاں صاحب تھے جو محمد حنیف عرف موٹے کے گھر میں تقریبا ایک سال پڑھائے تھے

5۔ محمد اسحاق عرف بیرسٹر بھنگہیا روپندیہی نیپال

آپ اپنےگاؤں میں پڑھانے سے قبل بھیساگہن میں بھی تدریسی فرائض انجام دے چکےتھے شیخ موصوف رحمہ اللہ کے بعض شاگردوں سے بالمشافہ ملاقات کے بعد سوال کئے جانے پر معلوم ہوا کہ مولانا رحمہ اللہ 1969ء میں غالباً بھنگہیا تشریف لائے تو مذکورہ اساتذہ ٔکرام 5/6 سال پڑھانے کے بعد چلے گئے کسی کو یہاں کی فضا راس نہ آئی تو گاؤں کے ذمہ داران کو دینی تعلیم کی مزید تڑپ اور فکر لاحق ہوئی اسی دوران سلفی رحمہ اللہ فراغت کے بعد ننیہال آئے ہوئے تھے تو گاؤں کی مسجد میں کچھ ماہ اور پھر پچھم جانب باغیچہ میں پھونس کی جھونپڑی بنا کر اسی میں  تدریسی فرائض انجام دیتے رہے پھر محمد اسحاق رحمہ اللہ بھنگہیا نے طلباء کی بڑھتی ہوئی تعداد اور دینی حمیت کے پیش نظر 7 منڈی زمین گاؤں کے مشرق میں مدرسہ کے قیام کے لیے دی جس میں موصوف رحمہ اللہ نے 1970 میں مٹی کی دیوار پر چھپر ڈال کر اسی میں دو سال تک طالبان علوم نبویہ کی علمی پیاس بجھاتے رہے، اسی جھونپڑی میں چند طلباء بھی رہتے تھے جو باری باری گاؤں میں کھاتے تھے ۔ غرضیکہ 1970ء ہی سے داخلہ  کا حتی  المقدور انتظام ہوگیا تھا .

پہلے مدرسہ کا نام "مدرسہ مفتاح العلوم " تھا بعد میں غالبا مدرسہ مدینة العلوم لوہرسن نام سے متاثر ہو کر آپ ہی نے مدرسہ سلفیہ مدینة الإسلام کر دیا ۔ واقعی چند ہی سالوں میں مدینة الإسلام" مدینة السلف " ہوگیا۔

اب یہاں سے ہر سال نونہالان قوم و ملت، ماہرین اساتذہ کی نگرانی میں دینی تعلیم و تربیت سے آراستہ ہوکر نیپال کی درسگاہ جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر اور ہندوستان کے دوسرے جامعات و مدارس میں اپنی علمی تشنگی بجھانےکے لئے تشریف لے جاتےہیں آپ کی مکمل جدوجہد اور انتھک کوششوں سے پورا علاقہ کتاب و سنت پر عمل کرنے والا ہوگیا دینی حالات میں بہتری آئی اورسیکڑوں تلامذہ پیدا ہوئے جو دین اور علوم شریعت کی نشر و اشاعت میں لگ گئے اللہ کی ذات سے امید ہےکہ سب کا اجر بغیر کسی کے اجر میں کمی کے مولانا رحمہ اللہ کو ملتا رہے گا اور آپ کے لئے صدقہ جاریہ ثابت ہوگا .

دعوت کا آغاز :

ترمیم

اہل قریہ نے آپ کے ساتھ ہر طرح کا مادی و معنوی تعاون پیش کیا  غالباً 4/5 سال بعد شیخ رحمہ اللہ نے جب دو روزہ عظیم الشان اجلاس عام کرانے کا منصوبہ بنایا تو اہالیان بھنگہیا و مضافات نے بڑی کشادہ دلی سے آپ کی بھرپور مدد کی جسے علاقہ مرچوار کی تاریخ کا پہلا کامیاب جلسہ عام کہا جاتا ہے جس میں محمد شعبان چترویدی(بنگال )کے علاوہ مفسر قرآن شیخ عبدالقیوم رحمانی دودھہنیا ، بابائے قوم خلیل الرحمٰن رحمانی بھٹ پرا، ڈاکٹرعبدالوہاب صدیقی بھٹ پرا،شیخ امان اللہ چترویدی بھٹ پرا وغیرہ رحمہم اللہ نے خطاب کیا اور لوگوں کے بقول اتنا بھاری مجمع علاقہ مرچوار کا پہلا کامیاب اجتماع  تھا جس میں مفسر قرآن علامہ عبدالقیوم رحمانی و چترویدی  رحمہما اللہ ہاتھی پر سوار ہوکر آئے تھے .

پھر دوسرا اجتماع 1983ء  میں جس میں خطیب الاسلام علامہ عبد الرؤوف رحمانی رحمہ اللہ تشریف لائے تھے تو طالبان علوم نبویہ جوق در جوق اپنی علمی تشنگی بجھانےکے لئے یہاں تشریف لانے لگے

طلباء کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر خاندان عبدالستار انصاری رحمہم اللہ نے کچھ زمین مدرسہ کےلئے وقف کردی چونکہ مولانا سلفی رحمہ اللہ ایک مخلص مصلح داعی تھے علاقہ کے مسلمانوں کی دینی پسماندگی کتاب و سنت سے کوسوں دوری اور تعلیمی ابتری کو دیکھ کر انہیں  کافی دلی تکلیف ہوئی اور اپنی محنتوں و کاوشوں سے ایک پختہ عمارت بنانے میں کامیاب ہوگئے جس کی بنیاد ڈاکٹرعبد الوہاب بھٹ پڑا رحمہ اللہ نے رکھی تھی اور پھر باقاعدہ ہاسٹل میں طلباء رہنے لگے جن کے قیام وطعام کتب و روشنی علاج و معالجہ کی سہولیت من جانب مدرسہ ہوتا تھا اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے

مشہور تلامذہ :

ترمیم

علماء کرام و فضلاء عظام کی سوانح حیات مرتب کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کیونکہ مرور ایام کے ساتھ ایک دن ان بزرگوں کا نام بھی دفن ہو جائے گا اور آنے والی نسلوں کو کچھ علم بھی نہیں رہے گا کہ ہمارے اسلاف نے توحید کی دعوت ، اہل حدیث کی عقائد و نظریات کی اشاعت و ترویج کے لیے کتنی کمر توڑ محنتیں کی ہیں کتاب و سنت کی تعلیمات کو عام کرنے، سلفی اصول و منہج کو ہم تک پہنچانے کا موصوف رحمہ اللہ کے اندر بھر پور جذبہ تھا، آپ نے اسی سلفی منہج کے مطابق لا تعداد تلامذہ کی تربیت کی اور اپنے پیچھے ایک معتبر علمی ورثاء چھوڑا ہے ۔ جو اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے ملک میں دینی و دعوتی اور رفاہی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں جن میں سے چند شخصیات یہ ہیں

1۔ شیخ مظہر علی اثری بھنگہیا روپندیہی نیپال

2۔ شیخ شاہد علی عالیاوی بھنگہیا روپندیہی نیپال

3۔ شیخ ابو ھریرہ عالیاوی بھنگہیا روپندیہی نیپال

4۔ شیخ شہاب الدین سلفی بھنگہیا روپندیہی نیپال

5۔ میرے والد محترم عبدالحمید صاحب بھنگہیا روپندیہی نیپال

6۔ ماسٹر نصیر الدین صاحب بھنگہیا روپندیہی نیپال

7۔ شیخ عبداللہ اثری بھیساگہن روپندیہی نیپال

8۔ شیخ عبداللہ تلیا گڑھ روپندیہی نیپال

9۔ صلاح الدین مدنی بھنگہیا روپندیہی نیپال

10۔ نثار احمد فیضی بھنگہیا روپندیہی نیپال

11۔ ارشاد احمد ہادی بھنگہیا روپندیہی نیپال

12۔ عزیز احمد ہادی بھنگہیا روپندیہی نیپال

13۔ ابوالکلام فیضی بھنگہیا روپندیہی نیپال

14۔ محبوب عالم بھنگہیا روپندیہی نیپال

14۔ سیف احمد سراجی پپرا روپندیہی نیپال

15۔ بلال احمد سراجی ، ہردی روپندیہی نیپال

16۔ حافظ عتیق الرحمن بھنگہیا روپندیہی نیپال

17۔ حافظ عبدالرحمن بھنگہیا روپندیہی نیپال

سلفی رحمہ اللہ کے زیر نظامت تدریسی خدمات انجام دے چکے علماء کرام :

ترمیم

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ نونہالان قوم و ملت اور مسلم معاشرہ کی صحیح رخ پر رہنمائی میں جس طرح ائمہ مساجد و مدارس کے اہم ذمہ داران  کا کردار ہوتا ہے اسی طرح مدرسہ کے علماء دعاة و مدرسین کا بھی اہم رول ہوتا ہے لیکن انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ آج ہمیں اپنے اسلاف کی سوانح عمری مرتب کرنا تو درکنار، ان کی زندگی کا کوئی گوشہ سامنے ہے، نہ ہی ان کی دینی و علمی اور اصلاحی کارناموں ہی کے بارے میں ہمیں کوئی علم ہوتا ہے ۔ اس افسوس ناک صورت حال کے پیش نظر یہ داعیہ پیدا ہوا کہ مدرسہ مدینة الإسلام السلفیة بھنگہیا ضلع روپندیہی نیپال میں شیخ سلفی رحمہ اللہ کے زیر نظامت تدریسی خدمات انجام دے چکے علماء کرام کے بارے میں اپنے علم کی حد تک معلومات درج کروں

1۔ عبدالحکیم ریاضی ، ببھنی مہراج گنج یو پی انڈیا

آپ نے بحیثیت صدر مدرسین 14 سال تک خدمات انجام دیں

2۔ عبدالغفار سراجی ، اماری روپندیہی نیپال

3۔  عبدالعظیم سراجی، شولواں روپندیہی نیپال

4۔ شیخ ابرار احمد مدنی پپرا روپندیہی نیپال

5۔ مظہر علی اثری ، بھنگہیا روپندیہی نیپال  

6۔ شاھد حسین عالی ، بھنگہیا روپندیہی نیپال

7۔ ابوہریرہ عالی ، بھنگہیا روپندیہی نیپال

8۔ عبد الصبور ہادی پپرا روپندیہی نیپال

9۔ عبدالحق قاسمی بیرواں مہراج گنج یو پی انڈیا

10۔ محمد سہراب فیضی کروتا روپندیہی نیپال

11۔ شمشاد احمد فیضی ٹھوٹھری سدھارتھ نگر یوپی

12۔ نصیر الدین بھنگہیا روپندیہی نیپال

13. عبدالکریم(شوکت علی ) بھیساگہن روپندیہی نیپال

14۔ ماسٹر عبدالحکیم ، ببھنی مہراج گنج یو پی انڈیا

15۔ میاں محمد فیض اللہ ، فسادی پور سدھارتھ نگر

16۔ میاں محمد اسلام ، ککوڑھی سدھارتھ نگر یوپی

17۔ ماسٹر محمد ابراہیم بیرواں مہراج گنج یو پی انڈیا

18۔ محمد سہراب  بھٹ پرا سدھارتھ نگر یوپی

19۔ محمد اکرم فیضی بھٹ پرا سدھارتھ نگر یوپی

20۔ محمد عمر اثری کالیدہ روپندیہی نیپال

21۔ شہاب الدین سلفی ، بھنگہیا روپندیہی نیپال

22۔ محمد امین،  گوپال پور سدھارتھ نگر یوپی

23۔ محمد اسحاق عرف دھنی

ہمارے اسلاف کرام نے کتاب و سنت کی ترویج و اشاعت صحیح اسلامی تعلیمات کو ہم تک پہنچانے، اور لوگوں کی اصلاح کے لیے کس قدر محنت کی ہیں انہیں کی کاوشوں کا ثمرہ ہے کہ آج اس علاقہ میں علماء کرام کی کثرت ہے

مختلف علماء کرام اور ان کے شاگردان نیز گاؤں کے معمر حضرات سے محض اتنے ہی مدرسین کے بارے میں جانکاری حاصل ہوسکی  مزید کسی صاحب کو علم ہو تو بتانے میں کنجوسی نہیں کریں گے تاکہ اس تاریخی سفر کی ترتیب میں کسی بھی شخصیت کا نام چھوٹنے نہ پائے

عیدگاہ کے لئے زمین کی خریداری اور مسجد کی تعمیر :

ترمیم

بھنگہیا و مضافات کے مسلمان پہلے عیدین کی نماز بھیساگہن میں مولانا عبدالرحمن ہادی رحمہ اللہ کی امامت میں ادا کرتے تھے پھر کچھ اختلاف کی وجہ سے جب مولانا شفیق الرحمن سلفی رحمہ اللہ پوری طرح یہاں و باش اختیار کر لئے تو مشرقی جانب  کھلیان میں عیدین کی نماز پڑھاتے تھے

گاؤں میں چونکہ مسلمانوں کی تعداد علاقہ میں دیگر گاوں کے بنسبت کافی زیادہ تھی تلیاگڑھ ، بشن پورہ ، پرسہوا ، کٹیا ، ہردی ، بھیساگہن ،مجگاواں، مریاد پور، تنہواں کڑسر تک کے مسلمان یہیں نماز عیدین ادا کرتے تھے عیدگاہ کے لئے موصوف رحمہ اللہ اور مدرسہ کے دیگر مدرسین نے کمر توڑ محنت کی اور محسنین و اہل خیر حضرات سے چندہ اکٹھا کر کے 25 ہزار بیگھہ میں زمین خریدی گئی اور فی الحال اسی میں شیخ شفیق الرحمن سلفی رحمہ اللہ کا لگایا ہوا شجر با ثمر ہے  

مدرسہ میں طلباء و اساتذہ کرام کے نماز کی ادائیگی کے لئے مسجد کی تعمیر کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی تھی تو مولانا ارشاد احمد ہادی نے زمین وقف کی اور کلیة فاطمة الزھراء للبنات میں موجود مسجد انہیں کی زمین میں بنائی گئی ہے پھر جب یہ مسجد نسواں کے لیے خاص کر دی گئی تو طلباء و اساتذہ و دیگر مصلیین کے نماز کی ادائیگی کے لئے حاجی عبدالرزاق صاحب نے زمین وقف کی اور ایک شاندار مسجد بنائی گئی .

كلية فاطمة الزهراء للبنات کا قیام :

خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ حالیہ پچھلے چند سالوں میں یہاں مزید علمی بیداری اور تعلیمی روشنی پیدا ہوئی ہے وہ یہ کہ ضلع روپندیہی نیپال میں پہلا اقامتی نسواں درسگاہ بنام کلیہ فاطمہ الزہراء للبنات کی بنیاد 2004 میں رکھی گئی ہے اور کتابچہ تعارف مدرسہ مدینہ الاسلام السلفیہ کے مطابق آپ ہی نے کلیہ کا نام بھی تجویز فرمایا تھا . جو عبدالستار انصاری رحمہ اللہ اور عبدالجبارانصاری کی زمین میں بنائی گئی ہے

اللہ تعالی کی توفیق اور اس کے فضل و کرم پھر ذمہ داران کی انتھک کوششوں سے انتہائی کم مدت میں فضیلت تک کی بہترین تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ خیاطہ تطریز اور کشیدہ کاری نیز امور خانہ داری پر خصوصی توجہ ہونے کی وجہ سے ضلع کی بچیوں کے علاوہ سدھاتھ نگر و مہراج گنج ہند کی بھی کچھ طالبات ایک خوشگوار دینی ماحول اور فضا میں اسلامی تعلیم کے ساتھ عصری علوم بھی حاصل کر رہی ہیں .

جامعہ محمدیہ بھیرہوا کا قیام :

ترمیم

اللہ تعالٰی کے اس فرمان کے مطابق "وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ"

" مدرسہ مدینة الإسلام بھنگہیا سے سن 1992ء میں بے دخلی کا ایک عظیم جماعتی تعلیمی دعوتی فائدہ یہ ہوا کہ بھیرہوا جو نیپال کا معروف تجارتی شہر ہے جہاں پر اس وقت جماعت اہل حدیث کی کوئی مسجد یا مدرسة نہیں تھا بلکہ یہ کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا کہ اہل حدیث کا وجود تک نہیں تھا لوگ نام ہی سے نفرت کرتے تھے ، اہل حدیثوں کا نام سن کر لڑائی جھگڑے کے لیے کمر بستہ ہو جاتے تھے .

چونکہ آپ کا مقصد حیات دعوت توحید کو عام کرنا تھا، اسی فکر میں ہمیشہ سرگرم و سرگرداں رہتے تھے۔ شروع ہی سے بلند ہمت و عزیمت والے تھے ،مدرسہ مدینة الإسلام السلفیة سے بے دخلی سے پہلے ہی آپ نے ایک دوسرا مدرسہ بنام جامعہ محمدیہ بھیرہوا سن 1987ء میں قائم کیا.جناب مہرعلی صاحب کے گھر میں مولانا شہاب الدین سلفی بھنگہیا سن 1990ء میں بچوں کو پڑھاتےتھے .

جامعہ محمدیہ کی ابتداء کن دشوار گزار مراحل سے ہوئی ہوگی ، کن ذہنی جسمانی مالی مصائب و مشکلات سے دوچار ہونا پڑا ہوگا یہ تو صرف موصوف رحمہ اللہ ہی جانتے تھے یا عالی جناب محترم مہر علی صاحب جنہوں نے آپ کےساتھ ہر طرح کا مادی و معنوی تعاون پیش کیا ہے. اللہ تعالی انہیں جزائے خیر عطا فرمائے آمین ۔ یا ان کے علاوہ وہ معاونین جو دامے درمے قدمے سخنے آپ کے دست و بازو بنے رہے ، اور آج اللہ تعالٰی کا بے حد فضل و احسان ہے کہ مولانا رحمہ اللہ کے لگائے ہوئے پودے سے سبھی مستفید ہو رہے ہیں، شہر بھیرہوا و مضافات میں اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنے ، نیز جماعت اہل حدیث کا تعارف پیش کرانے میں اس جامعہ کا کافی اہم رول رہاہے اس وقت ہزاروں کی تعداد میں افراد جماعت موجود ہیں ہر چہار جانب جماعت کی مساجد و مدارس ہیں ، مختصر یہ کہ علاقہ مرچوار میں مدرسہ مدینة الإسلام السلفیة بھنگہیا اور شہر بھیرہوا میں جامعہ محمدیہ ہی سے تحریک پا کر دیگر تعلیمی دعوتی اور رفاہی ادارے قائم کیے گئے ہیں .

جماعتی و تنظیمی ذمہ داریاں :

ترمیم

مولانا رحمہ اللہ کا تعلق مختلف علمی و دینی میدانوں سے تھا،  جمعیت و جماعت سے بھی ان کا گہرا تنظیمی تعلق تھا ۔ وہ اپنی زندگی کی 10 سال تک  جمعیت اہل حدیث مغربی نیپال کے ناظم رہے ہیں اور بہت ہی حسن و خوبی کے ساتھ یہ فریضہ انجام دیتے رہے بقول شیخ شمیم احمد ندوی ناظم اعلی جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر" آپ نے جمعیت و جماعت کے لئے بہت بڑا کام کیا ہمیشہ جمعیت و جماعت کے ساتھ رہے مرکزی جمعیت اہل حدیث نیپال کا جب قیام عمل میں آیا تو ان سر فہرست لوگوں میں سے رہے جنہوں نے اس کے لئے بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں جنہوں نے دورہ کیا ہے پہاڑی مقامات کا ، بڑی تکالیف برداشت کیا ہے پہاڑی مقامات کے دوروں میں ۔اور اس کے بعد انہوں نے جو رپورٹ پیش کیا ہے خطیب الاسلام کو اور پھر انہوں نے ان رپورٹوں کو رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ میں بھیجا ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ خلیجی ملکوں سے رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ سے تعاون کا سلسلہ شروع ہوا جس سے تمام مدارس و مکاتب اور تمام دینی ادارے مستفید ہورہے ہیں .

اور شیخ عبدالمنان سلفی وکیل جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر موصوف رحمہ اللہ کے جماعت و جمعیت سے دلی لگاؤ اور انتھک کوششوں کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں :

1978ء میں جب خطیب الاسلام رحمہ اللہ رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے رکن تاسیسی منتخب ہوئے تو موصوف کی سفارش پر نیپال میں دعوت و تعلیم کی ذمہ داری انجام دینے کے لیے رابطہ نے کئی دعاہ کا تقرر کیا ، ان میں ایک مولانا شفیق الرحمن سلفی رحمہ اللہ بھی تھے ، خطیب الاسلام کے رابطہ کا رکن ہو جانے کے بعد موصوف کے پاس نیپال کے جس ادارہ کے بھی تعلق سے معلومات طلب کی جاتیں اس کی انکوائری کے لیے خطیب الاسلام رحمہ اللہ مولانا شفیق الرحمن سلفی رحمہ اللہ کو مکلف کرتے اور ان کی رپورٹ پر بھر پور اعتماد کرتے ، اس طرح موصوف نے مشرق سے مغرب تک کے  پہاڑی و میدانی علاقوں کے دعوتی و تنظیمی اور جماعتی دورے کئے اور اپنی ذات سے ملت و جماعت کو فیض پہنچایا ، گویا کہ اس دور میں مولانا کی حیثیت جامعہ کے ایک قابل اعتماد اور بھروسہ مند کارکن اور سفیر کی رہی ۔

نیپال میں مرکزی جمعیت اہل حدیث کے قیام میں بھی مولانا کا بڑا اہم رول رہا اور اس کے بانیان کی فہرست میں آپ کا نام نامی شامل رہا، موصوف مسلسل دس سالوں تک جمعیت اہل حدیث مغربی نیپال کے ناظم بھی رہے .

آپ نے ضلع روپندیہی میں محسنین و اہل خیر حضرات کے تعاون سے 14 مساجد کی تعمیر کرائی تھی اور بعد میں 3 مساجد ان کے فرزند ارجمند برادرم عزیز الرحمن سلفی کے توسط سے تعمیر ہوئیں  علاقہ میں 5 اسلامی مکاتب قائم کئے ، سینکڑوں ہینڈ پمپ اور ایتام کی کفالت و دیگر رفاہی و سماجی خدمات انجام دی ہیں جو حدیث  "الدال على الخير كفاعله " اور " إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاث........" کی روشنی میں آپ کے لئے صدقہ جاریہ ثابت ہوگا .

وفات حسرت آیات :

ترمیم

مولانا محترم رحمہ اللہ نے مورخہ 26ربیع الاول 1440ھ۔ مطابق 4 دسمبر 2018 بروز منگل بعد مغرب لگ بھگ  7:00 اس دار فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ فرمایا، إنا لله وإنا اليه راجعون

اور دوسرے دن بروز بدھ بعد نماز ظہر شیخ شمیم احمد ندوی ناظم اعلی جامعہ سراج العلوم السلفیة جھنڈانگر نیپال نے نماز جنازہ پڑھائی اور گاؤں سے دکھن قبرستان میں ہزاروں علماء و تلامذہ اور جمعیت و جماعت سے منسلک افراد ، عوام الناس کی ایک جم غفیر نے آپ کو سپرد خاک کیا اور مرحوم کی مغفرت کے لیے دعائیں کیں ۔ اللہ مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں لے لے اور آپ کی قبر کو نور سے بھر دے اور کروٹ کروٹ جنت الفردوس عطا فرمائے آمین  

اللهم اغفرله وارحمه وعافه واعف عنه و أكرم نزله و وسع مدخله .

" ربنا اغفر لنا و لإخواننا الذين سبقونا بالإيمان ولا تجعل في قلوبنا غلا للذين آمنوا ربنا إنك رؤوف رحيم "

شیخ شمیم احمد ندوی حفطہ اللہ کا خطاب:

ترمیم

نحمدہ و نصلی على رسوله الكريم أما بعد :

محترم حاضرین جنازہ!

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے "كل نفس ذائقة الموت و إنما توفون أجوركم يوم القيامة فمن زحزح عن النار و أدخل الجنة فقد فاز و ما الحياة الدنيا إلا متاع الغرور "

آج ہم اور آپ اس شخصیت کا جنازہ پڑھنے کے لیے یہاں اکٹھا ہوئے ہیں ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بتائے ہوئے طریقے اور ان کی چھوڑی ہوئی سنت کے مطابق آج ہم اپنے درمیان سے رخصت کر رہے ہیں اللہ تعالٰی کے ارشاد کے مطابق ہر آدمی کو ایک دن موت کا ذائقہ چکھنا ہے ہر آدمی کو اپنے کئے کا حساب دینا ہے ہر آدمی کو ایک دن اس دنیا سے رخت سفر باندھنا ہے اور اس کے بعد اللہ رب العالمین کے سامنے حاضری دینی ہے

ہم دنیا کے مصروفیات میں اپنے کاروبار میں اپنے دوسرے کاموں میں اس قدر مشغول رہتے ہیں کہ کائنات کی جو سب سے اہم حقیقت ہے اس کو فراموش کر دیتے ہیں دنیا کے سارے ادیان و مذاہب اس بات پر متفق ہیں کسی بھی مسئلہ میں اختلاف ہو سکتا ہے اور کسی بھی مسئلہ میں اختلاف رائے ہوسکتا ہے اور  دوسرے ادیان و مذاہب کے ماننے والےاپنے اپنے طریقے سے زندگی گزارتے ہیں لیکن اس حقیقت پر  سب متفق ہیں کہ ایک دن اس دنیا سے رخصت ہونا ہے تو جو سب سے بڑی حقیقت ہے اور اور جس کا اعتراف دنیا کے سارے مذاہب والے کرتے ہیں افسوس کی بات ہے کہ یہی حقیقت ہماری نظروں سے اوجھل رہتی ہے اس پر ہم دھیان نہیں دیتے ہیں فانی دنیا یہ چند روزہ ہے اس کے بعد ہم سب کو اس دنیا سے جانا ہے اور ہم سب کواس مرحلے سے گزرنا ہے جس طرح آج ہم اس شخصیت کو اپنے درمیان سے رخصت کرنے کے لیے یہاں پر کھڑے ہوئے ہیں اسی طرح کسی دن وہ دن بھی آئے گا کہ ہمارا جنازہ پڑھا جائے گا ایک ایک کر کے ہم سب کو اس دنیا سے جانا ہے ہمارا جنازہ بھی پڑھنے کے لیے لوگ حاضر ہوں گے ہم اس سے ڈرنا چاہیے اور اس دن کے لیے تیاری کرنی چاہیے ۔

جس شخصیت کا جنازہ پڑھنے کے لیے یہاں ہم حاضر ہوئے ہیں مولانا شفیق الرحمن سلفی رحمہ اللہ اللہ تعالٰی آپ کی قبر کو نور سے بھر دے اللہ تعالٰی آپ کی مغفرت فرمائے اللہ تعالی آپ کی خطاؤں اور لغزشوں کو درگزر کرے جنہوں نے ایک دینی زندگی گزاری دین و ملت سے بھری پڑی زندگی گزاری اور کتاب و سنت پر عمل کیا اور کتاب و سنت پر عمل کی دعوت بھی دی اور اسی مقصد سے انہوں نے بھیرہوا میں جامعہ محمدیہ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا اس کی تاریخ یہ ہے کہ ان کی ہمت اور ان کا حوصلہ تھا کہ ایسی جگہ پر انہوں نے اس مدرسہ کو قائم کیا کہ مدرسہ کے قیام سے پہلے اہل حدیثوں کو کوئی جانتا نہیں تھا میں خود اس تجربے سے گزر چکا ہوں میں خود بریلیوں کے مسجد میں نماز جمعہ کے لئے حاضر ہوا تو مجھے نکالا گیا تھا تو مجھے بہت افسوس ہوا تھا کہ بہت افسوس کی بات ہے کہ آس پاس میں اور قرب و جوار میں ایک بڑی تعداد میں اہل حدیث آبادی ہے اہل حدیث گاؤں ہے اور یہاں پر ایک اہل حدیث کی مسجد نہیں ایک مدرسہ بھی نہیں ہے مولانا شفیق الرحمن سلفی رحمہ اللہ انہوں نے خطیب الاسلام علامہ عبد الرؤوف رحمانی رحمہ اللہ جھنڈا نگری سے

اپنے اس تکلیف کا اپنے اس جماعتی درد کا ذکر کیا انہوں نے ان کے ساتھ تعاون کیا ان کا بھرپور اخلاقی مالی تعاون کیا حوصلہ بڑھایا کہ آپ بھیرہوا میں کوئی ادارہ قائم کیجئے جو اہل حدیثوں کا مرکز بن جائے ان کے بلند حوصلے کی ہم سب کو داد دینی چاہیے جنہوں نے وہاں پر ایک ادارہ جامعہ محمدیہ قائم کیا اس کے بعد کتاب و سنت کی ترویج و اشاعت کا توحید کے فروغ کا ایک سامان ہوا اور انہوں نے جماعت اہل حدیث کو وہاں پر زندہ کیا جماعت اہل حدیث کو اگر بھیرہوا میں روپندیہی ضلع میں قرب و جوار میں ایک زندگی اور توانائی ملی ہے تو اگر اس کا ایک حصہ ہمارے بزرگوں کو علماء دین کو جاتا ہے تو اگر اس کی فہرست تیار کی جانے لگے تو شفیق الرحمان السلفی رحمہ اللہ کا نام سر فہرست اور سب سے اوپر ہوگا جنہوں نے زندگی دی ہے توانائی دی ہے جماعت کو جنہوں نے اگرچہ اس گمنامی کی زندگی گزار دی کوئی بہت بڑا کڑک بھڑک نہیں تھا کوئی دکھاوا اور کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس سے اپنی شخصیت کو نمایاں کرسکیں لیکن گمنامی میں بھی انہوں نے جمعیت و جماعت کے لئے بہت بڑا کام کیا ہمیشہ جمعیت و جماعت کے ساتھ رہے مرکزی جمعیت اہل حدیث نیپال کا جب قیام عمل میں آیا تو ان سر فہرست لوگوں میں سے رہے جنہوں نے اس کے لئے بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں جنہوں نے دورہ کیا ہے پہاڑی مقامات کادورہ کیا بڑی تکالیف برداشت کیا ہے پہاڑی مقامات کے دوروں میں ۔اور اس کے بعد انہوں نے جو رپورٹ پیش کیا ہے خطیب الاسلام کو اور پھر انہوں نے ان رپورٹوں کو رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ میں بھیجا ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ خلیجی ملکوں سے رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ سے تعاون کا سلسلہ شروع ہوا جس سے تمام مدارس و مکاتب اور تمام دینی ادارے مستفید ہوئے تو اگر یہ سلسلہ چلا ہے تو مولانا شفیق الرحمن سلفی رحمہ اللہ اس نیکی اور ثواب میں سب سے زیادہ حق دار ہیں ثواب پانے کے ۔جنہوں نے بہت ہمت کی اور بہت حوصلہ دکھایا اور صرف جامعہ محمدیہ ہی کو نہیں قائم کیا بلکہ جمعیت اور جماعت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے انتھک کوششیں کیں

آج ہم یہاں پر ان کا جنازہ پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں اللہ تعالٰی کے سامنے ان کے لئے صدق دل سے دعاء کریں کہ اللہ تبارک و تعالٰی ان کی لغزشوں کو  ۔ ہم سب خطا و نسیان کا پتلا ہے ۔ سے درگزر فرمائے ان کے حسنات کو ان کی نیکیوں کو قبول فرمائے زندگی کے آخری لمحات میں اور چند برسوں سے بیماری کی جو تکلیفیں یعنی لکھنے پڑھنے سے معذوری وغیرہ کی تکالیف برداشت کی ہیں اور آنکھ کا آپریشن کرانے کے سے پہلے اور بعد میں جو پریشانیاں اور تکلیفیں برداشت کی ہیں اللہ تعالٰی ان کی لغزشوں اور خطاؤں سے مغفرت کا ذریعہ بنا دے اللہ تعالٰی ان پر رحم و کرم کا معاملہ فرمائے اور قبر کی پہلی منزل جو ہر انسان کی پہلی منزل ہے اسے آسان کردے نکیرین کے سوال کے جواب دینا ان کے لئے آسان کردے اور جب اللہ کے سامنے حاضر ہوں تو بخشے بخشائے حاضر ہوں اللہ تعالٰی ان کو اعلٰی علیین میں جگہ عطا فرمائے اور نیکو کار لوگوں کے ساتھ ان کا معاملہ فرمائے

اس موقع پر ان کے ورثاء نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ ہر انسان کا لین دین چلتا ہے معاملات چلتے رہتے ہیں اگرچہ پچھلے کئی برسوں سے عملی زندگی سے دور ہیں کسی معاملے یا کسی کاروبار سے ان کا تعلق نہیں رہا ہے پھر بھی اگر کسی کا کوئی لین دین ہو تو ان کے صاحبزادے عزیز الرحمن سلفی وغیرہم سے رجوع کر سکتے ہیں اور اگر ان کی زبان سے یا کسی بھی وجہ سے کوئی تکلیف پہنچائی ہو اللہ کے واسطے معاف کر دیں کیونکہ اب وہ آدمی اس دنیا سے رخصت ہو گیا ہے اب آپ کے کسی بھی چیز کا بدلہ نہیں دے سکتا اگر ان کی ذات سے کسی کو کوئی بھی تکلیف پہنچی ہو تو للہ فی اللہ ان کو معاف کر دیں البتہ مالی لین دین باقی رہتا ہے ان کے ورثاء دینے کا وعدہ کرتے ہیں

اللہ تعالٰی ہم سب کو نیک زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب یاد رکھیں کہ ایک دن ہم سب کو اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے اسی طرح سے لوگ ہمارا جنازہ پڑھنے کے لیے آئیں گے تو اپنے معاملات اپنے کردار کو درست رکھیں عبادت و ریاضت میں زندگی گزاریں اللہ تعالٰی ہم سب کو نیک اعمال کی توفیق عطا فرمائے اور یہ موصوف جو ہمارے درمیان سے رخصت ہو گئے ہیں اللہ تعالٰی ان کی نیکیوں کو قبول کرتے ہوئے ان کے خطاؤں کو درگزر فرمائے ان کے ورثاء اور لواحقین جو ہیں ان کے لئے بہت مشکل گھڑی ہے بہت صبر کا مقام ہے کیونکہ باپ کی وفات زندگی کے چاہے جس  مرحلے میں ہو اس کی حیثیت شجر سایہ دار کی ہوتی ہے جب درخت کٹ جاتا ہے گر جاتاہے تب دھوپ کا احساس ہوتا ہے تو میں ان کے ورثاء کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ باپ کی محرومی یقینا بہت بڑی محرومی ہے میں انہیں صبر کی تلقین کرتا ہوں اور اس کی بھی تلقین کرتا ہوں کہ آپ اپنے والدین کے لئے ہمیشہ دعاء خیر کرتے رہیں  رب ارحمهما كما ربياني صغيرا پڑھتے رہیں اولاد کی دعا ماں باپ کے حق میں قبول ہوتی ہے

و آخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين